Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابی صورتحال کا جائزہ

***خلیل احمد نینی تال والا***
الحمد اللہ دوسری مرتبہ جمہوری حکومت مسلم لیگ( ن ) 5سالہ اقتدار پوری کرکے سبکدوش ہوئی ۔دونوں مرتبہ اتفاق کہوں یا کچھ اور ؟پی پی پی کے دور کے آخری دنوں ان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی عدالت عظمیٰ سے فارغ ہوئے اور مسلم لیگ( ن) کے میاں نواز شریف بھی اُسی سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے ۔واضح فرق پی پی پی کا دور مسلم لیگ( ن )نے بغیر روکاوٹیں ڈالے پورا ہونے دیا مگر اس کے برعکس مسلم لیگ( ن) کا دور عمران خان کے دھرنوں ،جلسے جلوسوں ،ہنگامہ آرائیوں پی پی پی کی اخباری میڈیا سے تنقیدوں اور آخر میں پانامہ لیکس کے محاذآرائی میں گزرا۔
ان 5سالوں میں عوام سے کئے گئے وعدے بجلی ،گیس کا بحران برقرار رہا ۔آئی ایم ایف سے بے پناہ قرضے لئے گئے اور زیادہ ترقیاتی منصوبے اسلام آباد اور پنجاب میں لگائے گئے اور سارا کریڈٹ مسلم لیگ (ن )والے اپنے ساتھ لے گئے ۔کے پی کے والوں کے منصوبے عمران خان کے دعوؤں کی حد تک ہی محدود رہے ۔بلوچستان اُسی غربت میںگھرا رہا ۔کوئٹہ اہل تشیع پر بھاری رہا البتہ علیحدگی پسند گروپ کا زور ٹوٹ گیا اور سی پیک کا منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا  اور ایٹمی دھماکہ کی طرح کریڈٹ  نواز شریف خود سمیٹ گئے ۔پرویز مشرف کی  پیشرفت اور محنتیں دب گئیں۔رہا سوال صوبہ سندھ کا ،بقول ہمارے چیف جسٹس ثاقب نثار کے سندھ دوسرے صوبوں کی بہ نسبت سب سے پیچھے ہے اور مکمل کھنڈر بن چکا ہے۔کراچی کے باسیوںکی جان پانی مافیا سے چھڑائی جائے ۔بجلی کا بریک ڈائون اپنے عروج پر رہا۔کراچی اور اندرون سندھ اربوں ،کھربوں روپے کا بجٹ کرپشن کی نظر ہوگیا ۔پی پی پی کی حکومت کس منہ سے الیکشن لڑے گی۔
موجودہ سیٹ اپ میں اگرچہ تینوں سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) ،پی پی پی اور پی ٹی آئی پورے پاکستان کی سیاست کی باتیں کرتی ہیں مگر عملاً مسلم لیگ (ن )پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں اور تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں محدود نظر آتی ہیں ۔ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد کی حد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔الیکشن کے پہلے مرحلے میں تمام سیاسی و نیم سیاسی مذہبی پارٹیاں ٹکٹوں کے تقسیم میں الجھی ہوئی ہیں ۔
سب سے بڑا بحران پی ٹی آئی میں ہے ۔عمران خان کی پارلیمانی کمیٹی کے خلاف ورکروں نے دھرنا دے رکھا ہے۔ جن جن کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی ہیں اکھٹے ہوکر اسلام آباد میں کنونشن کی شکل میں اجلاس ہورہا ہے اور 26جون تک کا الٹی میٹم بھی دے دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ ورکروں کا گروپ الگ ہوجاتا ہے تو عوام میں پی ٹی آئی کے خلاف برا تاثرپیدا ہوگا  پہلے ہی دیگر پارٹیوں سے نکلے ہوئے  سیاستدان پی ٹی آئی میں گزشتہ 5سال سے شامل ہورہے تھے۔ پارٹی نے اپنے موقف سے ہٹ کر ان تمام کو نہ صرف ٹکٹ دیئے بلکہ  انکے پورے پورے  خاندانوں کو بھی ٹکٹوں سے نواز دیا جو پرانے کارکنوں خصوصاً نوجوانوں کو منظور نہیں ۔عملاً عمران خان مخصوص ٹولے کی حمایت کرکے پرانے کارکنوں کو مایوس اور ناراض کرچکے ہیں ۔مسلم لیگ (ن )میں بھی ایسا ہی معاملہ ہے مگر زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہیں۔ چوہدری نثار اور زعیم قادری کی بغاوت کی خبریں آچکی ہیں ۔آیا کوئی نیا گروپ سامنے آئے گا یہ واضح نہیں  ۔رہا پاکستان پیپلز پارٹی کی نئی نوجوان قیادت بلاول بھٹو زرداری ابھی تک جلسوں اور زور دار بیان بازی میں سب سے آگے لائے گئے ہیں ۔بقول سابق صدر آصف علی زرداری ہم پنجاب میں کلین سوئپ کرینگے۔ یہ کرشمہ کیسا ہوگا شاید بلوچستان کے سینٹ کے الیکشن والا معجزہ وجود میں لایا جائے گا۔
2نئے گروپ مرکز میں ایم ایم اے اور لبیک یا رسول اللہؐ والے میدان میں آچکے ہیں۔سندھ میں جی ڈی اے الائنس بھی تشکیل پاچکا ہے جو عملاً سند ھ میں پی پی پی سے مقابلے کیلئے اتارا گیا ہے البتہ صرف کراچی ،حیدرآبادمیں ایم کیو ایم (متحدہ والے )اور پی ایس پی مہاجروں کی ووٹوں کی تقسیم کا سبب بنے گی ۔یہ پہلا الیکشن ہے جس کے بارے میں ابھی تک عوام کی حتمی رائے سامنے نہیں آئی  ۔اس کی وجہ گزشتہ 5سالوں میں جو وعدے سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں نے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے ۔بحرانوں کا حل کسی کے پاس نہیں۔ بجلی کی پیداوار کے دعوے اس موجودہ لوڈشیڈنگ نے ثابت کردیئے ۔پورے ملک میں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ۔ گیس اور پٹرول کے نرخ بیٹھے بیٹھے بڑھائے جارہے ہیں ۔ڈالر 110سے 125تک پہنچ چکا ہے۔ آئی ایم ایف سے جتنے قرضے لے چکے ہیں وہ سب کے سب کرپشن کی  نذر ہوچکے ہیں ۔نیب اور دیگر ادارے صرف کاغذی کاروائیوں تک محدود ہیں ۔عدلیہ اور فوج کہاں تک ان پر ہاتھ ڈالیں۔ سب لوگ تھک ہار کر اب الیکشن سے امیدیں لگارہے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہی سیاسی جماعتیں ہیں اور وہی سیاست دان ہیں جو گھوم پھرکر پارٹیاں تبدیل کرکے میدان میں لائے جارہے ہیں ۔اُن سے عوام کیا نئی امیدیں لگائیں۔ ایک پی ٹی آئی سے امید تھی وہ تبدیلی لائیگی سو وہ بھی دیگر پارٹیوں کی طرح اپنے محور سے ہٹ چکی ہے ۔میرے ایک صنعت کار دوست نے ایک سال قبل پی ٹی آئی جوائن کی تو میں نے کہا آپ اس پارٹی میں کیوں شامل ہوئے ہیں اس میں تو پہلے ہی کرپٹ سیاست دان دوسری پارٹیوں سے نکل کر شامل ہوچکے ہیں ۔آپ کی جماعت پہلے تو ان کرپٹ سیاست دانوں کا احتساب کا نعرہ لگاتی تھی اب کس کا احتساب ہوگا ۔تو وہ بولے کہ ہماری پارٹی کی پالیسی بدل گئی ہے خان صاحب چاہتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ہمارے امیدوار زیادہ سے زیادہ ووٹ بینک رکھنے والے ہونے چاہیں۔ جب تک ہم اقتدار میں نہیں جائیں گے ۔عوام کے مسائل کیسے حل ہونگے ۔بہتری کے سارے خواب چکنا چور ہوچکے ہیں اب ہوا میں صرف دعوے ہی دعوے رہ گئے ہیں۔پہلے سن رہے تھے کہ احتساب ہوگاسب کا مگر وہ بھی نہیں ہوسکا ۔عوام کی مایوسیاں اب لب بام تک پہنچ چکی ہیں ۔نگراں حکومتیں آچکی ہیں مگر وہ بھی سب لاچار ہیں۔قوم کو صرف معجزے کاانتظار ہے ۔70سال سے سیاستدانوں کو تو وہ آزماچکے ہیں اس ملک کا صرف اللہ ہی حافظ ہے ۔
 

شیئر: