Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب مغربی عوام کی دلچسپی کا محور

 میسون ابو بکر ۔ الجزیرہ
سوئٹزرلینڈ کے Gsstsd قریے میں چاکلیٹ فروخت کرنے والی خاتون کو جونہی یہ پتہ چلا کہ میرا تعلق سعودی عرب سے ہے ،خوشی کے مارے اسکا چہرہ کھل اٹھا۔ اس نے مجھے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی خواتین کو سعودی عرب میں ڈرائیونگ کی اجازت ملنے پر پُرجوش طریقے سے مبارکباد دی۔ میں اپنے عزیز قارئین سے بالکل سچ بول رہی ہوں کہ مذکورہ خاتون ہی نہیں نہ جانے کتنی خواتین نے مجھے سوئٹزرلینڈ کے سفر کے دوران مملکت میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے پر آگے بڑھ کر مبارکباد پیش کی۔
سوئٹزرلینڈ کے خوبصورت مناظر اور فضاﺅںمیں پیار ومحبت کی حرارت پا کر اور وہاں کی خواتین کے یہاں سعود ی عرب اور اسکی خواتین میں دلچسپی دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔
یورپی ممالک کی سیاحت کے دوران ہنگری کے میرے ہمسفر نے مملکت میں آنے والی تبدیلیوں کی بابت کچھ اس انداز سے پوچھا کہ مجھے لگا کہ دنیا کے سادہ لوح افراد تک کو سعودی عرب سے دلچسپی ہے اور مملکت میں آنے والی تبدیلی نے ہر ایک کو حیران کیا۔ عام طور پر یورپی اور امریکی غیر ممالک کی خبروں اور وہاں آنے والی تبدیلیوں سے کوئی دلچسپی نہیں لیتے ۔ انہیں صرف مقامی خبروں ، ٹیکس اور اپنے یہاں خدمات کی خبروںسے دلچسپی ہوتی ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے سعودی عرب ان دنوں دنیا بھر کی دلچسپی کا محور بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں کے کانوں تک جب مملکت میں اقتصادی و سماجی تبدیلیو ں اور مملکت کے سیاسی اثر و نفوذ کی خبریں پہنچیں تو ان سب نے ان خبروں سے دلچسپی کا اظہار کیا۔
میرے اور ہنگری کے سیاح کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ ہنگری کے سیاح کو بہت ساری تفصیلات تک معلوم تھیں اور اسے اس بات کی بیحد خوشی تھی کہ سعودی نوجوانوں کو بہت سارے مواقع مل گئے ہیں اور وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے لگے ہیں۔ انہیں اہم عہدے مل رہے ہیںاور وہ خود کو ان عہدو ںکا اہل ثابت کررہے ہیں۔ خواتین بھی سب لوگوں کی دلچسپی کا محور بنی ہوئی ہیں۔ انہیں اس بات پر خوشی ہے کہ خواتین کو توجہ طلب شکل میں اپنے آپ کو منوانے کا موقع دیا جارہا ہے۔ میں نے اپنے رفیقِ سفر کو ایسی خواتین سے متعارف کرایا جنہوں نے مملکت کے اندر اور باہر ماضی میں بھی اچھوتے پن کا مظاہرہ کیا ا ور ان دنوں بھی کررہی ہیں۔ میں نے انہیں سعودی سائنٹسٹ اور ڈاکٹر خواتین کے نام بھی سنائے۔ 
دنیا بھر میں خواتین کی جدوجہد کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اٹلی کے ایک قصبے میں ریستوران کی ویٹرس نے بتایا کہ انکے یہاں اٹلی کی خواتین گھروں اور کھیتوں میں کام کیا کرتی تھیں۔ پھر وہ بچوں کی پرورش کا کام کرنے لگیں۔ انہیں گھر کے باہر خاندان کے سرپرست کی منظوری کے بغیر ملازمت کی اجازت نہیں تھی۔ اب صورتحال مختلف ہے۔ 
مغربی دنیا میں کامیا ب سیاحت کا سہرا، اعلیٰ خدمات، اعلیٰ درجے کی صفائی، معیاری زندگی کے سر جاتا ہے۔ علاوہ ازیں وہاں کے سحر آفریں قدرتی مناظر اور پھر ریستورانوں او رہوٹلوں میں کارکنان کا منفرد معیاری انداز بھی سیاحت کو چار چاند لگائے ہوئے ہے۔
مغربی ممالک میں ٹرانسپورٹ کے وسائل بڑے پیمانے پر مہیا ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے وسائل میں رنگا رنگی ہے۔ اسٹیشنوں کی صفائی دیدنی ہے۔ ریستوران ہر جگہ موجود ہیں۔ کاش کہ ہم ان ممالک کے اس کامیاب تجربے کو اپنے یہاں نافذ کریں ۔ نیوم جیسے عالمی منصوبے کو اسی سطح اوراسی معیار سے آگے بڑھائیں۔
میں یورپ کے جس ملک میں بھی گئی وہاں مجھے خلیجی اور سعودی سیاح کثیر تعداد میں نظر آئے۔ میں نے دیکھا کہ ان کے یہاں سیاحت کا کلچر تبدیل ہوا ہے۔ وہ میزبان ممالک کے رسم و رواج اورقوانین کا احترام شعور کے ساتھ کررہے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ خلیجی سیاح نئے سیاحتی مقامات بھی دریافت کررہے ہیں۔ سیاحت صنعت ہے۔ العلاءرائل کمیشن ہمارے یہاں سیاحت کو نئی جہت دینے جارہا ہے۔ مملکت نے سیاحت کے حوالے سے 3منفرد ممالک میں اپنے نوجوانوںکو سیاحت کا فن سیکھنے کیلئے تعلیمی وظائف پر بھیجا ہے۔اچھی علامت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: