Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور مصنوعی سیارے

فہد عامر الاحمدی ۔ الریاض
سعودی عرب میں مصنوعی سیارے تیارکرنے سے متعلق 2صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پہلے بھی تحریر کرچکا ہوں ۔ میں نے اپنی اس رپورٹ میں توجہ دلائی تھی کہ مصنوعی سیاروں سے دنیا بھر کے ممالک کا تعلق مرحلہ وار ہے ۔3مرحلوں سے جڑا ہوا ہے۔ 
کچھ ممالک وہ ہیں جو نہ تو قومی مصنوعی سیارے تیار کرسکتے ہیں اور نہ خرید سکتے ہیں۔ یہ ممالک اپنی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے بڑے ممالک کے مصنوعی سیاروں سے جڑے ہوئے چینلز کرائے پر حاصل کرلیتے ہیں یا ان سے مختلف خدمات کرائے پر حاصل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔
بعض ممالک ایسے ہیں جو اپنے لئے مصنوعی سیارے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ یہ ممالک یا تو کمپنیوں کو مصنوعی سیارے بنانے کی ذمہ داری تفویض کردیتے ہیں یا مختلف ممالک سے مصنوعی سیارے خلاءمیں بھیجنے کی درخواست کرتے ہیں۔
ترقیافتہ صنعتی ممالک مثال کے طور پر جاپان اور جنوبی کوریا اپنے مصنوعی سیارے خود تیار کرتے ہیں البتہ خلاءمیں بھیجنے کیلئے اسپیشلسٹ خلائی کمپنیوں کی مدد لیتے ہیں۔ 
سعودی عرب نے یہ سارے تجربات کئے۔ سعودی عرب ان سارے مراحل سے یکے بعد دیگرے گزرا۔ مملکت نے ساتویں عشرے کے شروع میں امریکی اور یورپی مصنوعی سیاروں کے ماتحت چینلز کرائے پر حاصل کرنے سے مصنوعی سیاروں سے اپنے تعلق کا آغاز کیا۔ساتویں عشرے کے اختتام سے قبل سعودی عرب نے خلائی روابط کیلئے عرب سیٹ کمپنی قائم کی۔ اس کے 37فیصد کے لگ بھگ حصص خریدے۔ اس کی بدولت خلاءکے شعبے میں سعودی عرب نے اہم اسٹراٹیجک پیشرفت حاصل کرلی۔ 
آٹھویں عشرے کے وسط میں سعودی عرب نے بین الاقوامی کمپنیوں کی مدد سے اپنے مصنوعی سیارے خلاءمیں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا آغاز عرب سیٹ کے اس مصنوعی سیارے سے کیا گیا جسے فرانسیسی میزائل ایرین 3کی مدد سے خلاءمیں بھیجا گیا تھا۔ 
آٹھواں عشرہ اس حوالے سے منفرد رہا۔ سعودی عرب نے کنگ عبدالعزیز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی میں ریموٹ سینس نیشنل سینٹر قائم کیا۔ ابتدامیں اس کا کام سرکاری اداروں کی خدمات کیلئے مصنوعی سیاروں سے خلائی تصاویر کی وصولی تھا۔ رفتہ رفتہ اس کا کردار آگے بڑھا ۔خلائی حالات کا معائنہ اور تجزیہ بھی اس کے سپرد کردیا گیا اس طرح یہ مشرق وسطیٰ میں اپنی نوعیت کا کثیر جہتی ترقی یافتہ سینٹر بن گیا۔ 
نویں عشرے کے دوران مملکت نے مصنوعی سیاروں کی اندرون مملکت تیاری کا جرا¿ت مندانہ عمل شروع کیا۔ مصنوعی سیارے تیار کرنے ، انہیں جدید تر بنانے اور انہیں چلانے والامقامی عملہ تیار کیا گیا ۔یہ عشرہ عرب ممالک کے درمیان مصنوعی سیاروں کے عملے کی تربیت کے باب میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانیوالا عشرہ ثابت ہوا۔ اس دوران عرب ممالک نے اسپیشلسٹ انٹر نیشنل ریسرچ اداروں اور مصنوعی سیارے تیار کرنیوالی کمپنیوں کے ساتھ شراکت ، ان سے خلائی ٹیکنالوجی اپنے یہاں منتقل کرنے اور مصنوعی سیاروں کے وسائل کو اپنا نے کا پروگرام اپنایا گیا۔
2000ءکے بعد منفرد تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب نے کنگ عبدالعزیز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی میں خلائی ریسرچ مرکز کے توسط سے مصنوعی سیارے تیار کرنے اور پروگرامنگ میں حصہ لینا شروع کردیا۔ 2018کے اختتام تک مملکت سعودی سائنسدانوں اور انجینینئرز کی مدد سے اپنے یہاں تیار کردہ 16سے زیادہ مصنوعی سیارے خلاءمیں بھیجنے میں کامیاب ہوگیا۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے اپریل 2018ءمیں دورہ امریکہ کے موقع پر مختلف معاہدے کئے۔ ان میں سے ایک معاہدہ ویرگن گیلیٹکٹ اور دی اسپیس شپ، ورجن آوربٹ کمپنیوں کے گروپ میں سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کیلئے بھاری حصص کے حصول سے متعلق تھا۔ ایک ارب ڈالر کے حصص خریدے گئے جبکہ مستقبل میں مزید 480ملین ڈالر کے حصص خریدنے کی گنجائش بھی پیدا کرلی گئی۔
مذکورہ تینوں کمپنیوں نے معاہدے کے بموجب خلائی اسفار کے سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور کم لاگت پر مصنوعی سیاروں کے سسٹم تیارکرنے کے مشن میں سعودی عرب سے تعاون کیا۔ یہ کمپنیاں مستقبل قریب میں خلائی سفر کی صنعت سے تعلق رکھنے والے پروگراموں میں بھی مملکت کا ساتھ دینگی۔ اس قسم کے تعاون کی بدولت مملکت کو مصنوعی سیاروں کے شعبے میں منفرد نوعیت کی ایسی خود مختاری حاصل ہوگی جو خلائی شعبے میں سرگرم بیشتر ممالک کو نصیب نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: