Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وطن عزیز میں سبھی کچھ ہے، کمی ہے تو بس سیاسی استحکام کی

عنبرین فیض احمد۔ینبع
ہم نے کبھی غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ اللہ رب العزت نے وطن عزیز پاکستان کو کتنا خوبصورت، وسیع وعریض، زرخیز اور محبت و ثقافت سے گندھا ہوا خطہ بنایا۔ اس ملک کی تاریخ بھرپور، بامعنی، بامقصد ، عالیشان اور سب سے بڑھ کر قربانیوں کی عظیم داستانوں سے معمورہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں ، جتنی مرضی دولت اکٹھی کرلیں ، جو سکون اوراپنائیت پاکستان میں حاصل ہوتی ہے ، وہ دنیا کے کسی خطے میں ممکن نہیں۔ تمام ترمشکلات اور مسائل کے باوجود اپنائیت اور چاہت کا احساس وطن کی مٹی سے ہی ملتا ہے۔ عزت ، نام ، مرتبہ، عہدہ، دولت، شناخت اور وقار صرف اور صرف پاکستان کے ہی دم سے ہے۔ پاکستان ہماری پہچان ہے لیکن افسوس کہ ہم اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہمارے ملک کی آبادی ویسے تو 20 کروڑ سے زائد ہے مگر عوام میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو صحیح معنوں میں اس ملک کی قدر کرتے ہیں۔ کرپٹ اور نااہل صاحبان اختیار کے باعث ہماراملک آج اس حال کو پہنچا ہوا ہے۔ 
یہ بات سب ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا ملک رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا اور زرخیز ہے لیکن یہاں کے چارموسموں، معدنیات کے ذخائر اور دیگر اجناس سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتاجس طرح اٹھایا جانا چاہئے ۔یہ بھی دراصل حب الوطنی کی کمی کی دلیل ہے ۔ ظاہر ہے وطن کی محبت بغیر عوام کے دلوں میں نہ ہو توکوئی ملک پنپ نہیں سکتا۔ ہماری نئی نسل خاص طور پر اس احساس سے نابلد ہے کہ ہمارے بزرگوں نے کتنے مصائب و آلام اور قربانیوں کے بعد یہ خطہ حاصل کیا۔ اس کیلئے انہوں نے کس طرح سر دھڑ کی بازی لگائی۔یہ نئی نسل کو معلوم ہی نہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پاکستان وہ ملک ہے جس کی جتنی قدر کریں کم ہے۔ پاکستانیوں کو دنیا بھر میں مہمان نواز اور دریا دل قوم تصور کیا جاتا ہے جو خوش آئند ہے۔ غربت کے باوجود یہاں کے باشندے ایک دوسرے کی دل کھول کرمدد کرتے ہیں۔ 
سیروسیاحت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا ملک دنیا کے خوبصورت ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے خوبصورت مقامات عطا فرمائے ہیں۔ مری، سوات، وادی نیلم، کوئٹہ، کھیوڑہ میں نمک کی کانیں اور پھر وادی کشمیر کے نظارے انسان کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ بس کمی ہے تو سیاسی استحکام کی ، اگر یہ میسر آجائے تو ہمارا وطن کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ امن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث بیرونی ممالک کے سیاح پاکستان جانے سے کتراتے ہیں۔ کہنے کو تو ہمارا ملک ایٹمی طاقت بن چکا ہے مگر معاشی طور پر تاحال مستحکم نہیں ہوسکا جس کا ہر پاکستانی متمنی ہے۔ 
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ کہیں اور کی ہیں وطن عزیز کے معروف شہر فیصل آباد کی ہے جہاں ایک چوک پر دیوہیکل چائے دانی کچھ اس طرح نصب کی گئی ہے کہ دیکھنے میں وہ فضا میں معلق دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ٹونٹی سے چائے نکلنے اور ک پیالی بھرنے کا منظر ،درحقیقت فوراہ ہے جو دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے۔ اس خوبصورت منظر سے لطف اندوز ہونے والوں کی چوک پر بھیڑ لگی رہتی ہے جو اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف ایک چوک پر ہی ایسا بندوبست کیوں کیا گیا جسے دیکھنے لوگ آئیں۔ پورے شہراور ملک کو ایسا صاف ستھرا بھی تو رکھا جا سکتا ہے ۔ گلی کوچوں کو خوبصورت بنا نے کی سعی بھی تو ہوسکتی ہے تاکہ ملک کا ہر کونہ اور گوشہ خوبصورت دکھائی دے۔ ہمارا ملک ہماری آن ، شان ، بان ہے۔ اسے سنوارنا، سجانا ، صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا اسی طرح سب پر فرض ہے جس طرح اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھا جاتا ہے۔زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچا جاسکتا ہے ۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور جگہ جگہ بکھرا کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں جس کے انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جہاں حکومتی سطح پر ماحول کو صاف رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہیںہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر کا کچرا لاپروائی سے سڑک پر پھینک دیا جاتا ہے۔ ایسے میں چند میٹر کے فاصلے پر کوڑا دان دکھائی نہیں دیتا۔ 
مذہب اسلام میں بھی صفائی اور پاکیزگی کی نہ صرف تعلیم فرمائی گئی ہے بلکہ اس پر خاص زور بھی دیاگیا ہے کیونکہ صاف ستھرا رہنے اور ماحول کو گندگی سے محفوظ رکھنے سے بے شمار بیماریوں سے بچاجاسکتا ہے۔ جب ماحول صاف ہوگا تو بیماریاں اور انواع و اقسام کے امراض خود بخود اپنی موت مر جائیں گے۔ ماحول کو بہتر بنانے کیلئے ہریالی بہت ضروری ہے ۔ اس ضمن میں ہر شہری کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ ہرے بھرے باغات اور پھول پودے دیکھ کر خوشگوار احساس جنم لیتا ہے۔ انسان کا موڈ تبدیل ہوجاتا ہے۔
حکومتی سطح پر کئی مرتبہ شجرکاری مہم شروع کی گئی مگر یہ چند روزہ مہم جس جوش و خروش کے ساتھ زور شور سے شروع کی جاتی ہے، اسی حیرت و استعجاب کے ساتھ کسی وجہ کے بغیر ہی خاموشی سے ختم بھی ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو پودوں سے محبت کا درس دیا جائے، درخت لگانے کی ترغیب دی جائے ۔ اگر ہر شخص اپنے حصے کا ایک پودا لگا لے تو پورا ملک ہرابھرا ہوسکتا ہے۔ یورپ ، امریکہ، کینیڈا وغیرہ میں بے شمار لوگ درخت لگانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ درخت کاٹنا یا انہیں نقصان پہنچانا قابل سزا جرم ہے۔ ظاہر ہے اس طرح وہاں آلودگی کم کرنے میں مدد ملی اور اس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں ۔صحت منداور آلودگی سے پاک معاشرہ ہی جدوجہد حیات اور ترقی کی رفتار میں زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکتا ہے۔ 

شیئر: