Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل ایک مرتبہ پھر من مانی پر آمادہ تھا

زینت شکیل۔جدہ
یوسف سکتے میں نظر آہا تھا جبکہ اوردوستوں کی بھی یہی حالت تھی کہ برابر والے گھر سے وہی گیت میوزک کے ساتھ سنائی دینے لگا :
 ”سارے سنسار کی شادی ہے
 آج میرے یار کی شادی ہے“
حیرت سے مبہوت ہوئے لوگ حرکت میں آگئے اور فوراً ہی دیوار کے اوپر پڑوسی کا چہرہ بھی نمودار ہوا جو بڑی لجاجت سے کہہ رہا تھاکہ ”معاف کیجیے گا، آپ لوگوں کی آوازیں اتنی غیر سریلی تھیں کہ میں نے سوچا اوریجنل گیت ہی لگا دوں۔ویسے مجھے شادی میں بلانا مت بھولئے گا ،آخر پڑوسیوں کا حق صرف پڑوسی پر تھوڑاہی ہوتا ہے ،ان کے دوستوں پر بھی ہوتا ہے خاص طور پر جب تقریب بھی شادی کی ہو۔ پھر شرمیلا بننے کی اداکاری کرتے ہوئے کہنے لگاکہ میں نے حال ہی میں جتنی شادیوں میں شرکت کی ہے ،وہاں سب ہی میرے اسٹیپس کو ویڈنگ ڈانس پارٹی کے اوپننگ آئٹم کے طور پر تالیوں سے سراہتے ہیں۔ وہاں کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں تھی کہ اس کی اوٹ پٹانگ باتوں میں دلچسپی لے سکے اور اسکی باتوں کی حقیقت جاننے کی تحقیق کرسکے۔
لمحوں میں یوسف نے گاڑی اسٹارٹ کی اور اسکے پیچھے سلمان نے چھلانگ لگا کر سیٹ پر اپنی جگہ بنائی۔ دوسروں نے بھی کار میں سوار ہونے میں دیرنہیں لگائی ۔ہاروت بھی اپنی گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ مین گیٹ تک پہنچتے، اچانک گیٹ ریموٹ سے کھلا اور ایک فوروھیلر روش پر آگے بڑھتی نظر آئی۔ کھلے گیٹ سے یوسف اپنی گاڑی تیزی سے نکال کرلے گیاجبکہ ہاروت نے اپنی گاڑی سے اتر کر آنے والے کو گلے لگاتے ہوئے کہاکہ عمر بھائی! آپ اتنے عرصے بعد یہاں آئے ہیں اور آپ کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ بتارہی ہے کہ بھائی کوئی خوش خبری سنانے آئے ہیں۔ وہ گلے لگ گیا اورکہاکہ بس اچانک ہی فیصلہ ہوگیا۔
ہاروت نے خوشی اپنے چہرے پر سجائی اور کہا ہاں عمر بھائی اس دنیا سے جانے والے کے ساتھ جا تو نہیں سکتے اور جو ہمارے والدین ہوتے ہیں انہیں خوش رکھنا بھی ثواب کا کا م ہے۔آپ نے سات سال لگا دئیے اس فیصلے تک پہنچنے کے لئے اور عمر کے ہاتھ سے شادی کا کارڈ لیکر پڑہنے لگا اور وہ جو میوزک بند کرچکا تھا اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اپنے لئے دعائیہ انداز میں گا رہا تھا:
”ارے میری بھی شادی ہو جائے
 دعا کرو سب مل کے“
عمر حیرت سے دیوار سے نمودار ہوتے اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہاتھا جس نے زندگی کی ابھی 20 بہاریں بھی شاید نہ دیکھی ہونگی۔ شاید اسی لئے زندگی کو قریب سے نہیں جان پایا تھا کہ شادی بھی کتنی بڑی ذمہ داری ہے ۔لوگوں کے لئے تو ایک ہفتے10دن کی تقریبات کا سلسلہ ہے اور کم عمر لوگوں کے لئے ایک تفریحی پروگرام کہ فلاں کی شادی میں اتنا مزہ آیا کہ کیا بتائیں تاہم ذمہ داریوں کی بابت کسی کوکوئی علم نہیں کہ گھر بنانا کتنی بردباری کا حامل اور صبرآزما کا م ہے ۔
موسیٰ فون پر خوش خبری سن کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔ اسی لئے پرجوش لہجے میں اس نے کہاکہ ”عمر بھائی، اتنی بڑی خبر سنائی ہے کہ سات سال کے بعد ہم سب وہیں ایک بار پھر جمع ہونگے جہاں بہت سے نئے رشتے بنے تھے ۔جانے انجانے میں ہی سہی، بھلا دل بھی کسی کی بات مانتا ہے کیا؟ وہ تو وہی کئے جاتا ہے جو وہ چاہتا ہے ۔دماغ سمجھائے تو اسے بھی اپنی جذباتی تقریر سے موم کر لیتا ہے۔ اب سب ہی کو انتظار تھا کہ اس اہم تقریب میں سب موجود ہونگے اور دل ایک مرتبہ پھر اپنی من مانی پر آمادہ تھا۔
٭٭جاننا چاہئے کہ ہر ایک کی قسمت لوح محفوظ پرمرقوم ہے۔
 

شیئر: