Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کیلئے مودی کو گھیرنا آسان نہیں

***سید اجمل حسین***
نوٹ بندش سے لے کر رافیل جنگی طیاروں کی خریدتک کے معاملات میں مودی حکومت کو گھیر نا اوراترپردیش میں انتخابی اتحاد کو حزب اختلاف نے 2019میں وزیر اعظم نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی سے ہی نہیں بلکہ ان کی پوری پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایوان اقتدار سے میلوں دور روک دینے کی کلید سمجھ لیا ہے۔ہر ہندوستانی کی جیب میں15لاکھ روپے پہنچانے،غیر ملکی بینکوں سے سارا کالا دھن وطن واپس لے آنے،لاکھوں کروڑوں لوگوں کو ملازمتیں اور روزگار بہم پہنچانے جیسے لا تعداد وعدے ادھورے ہی نہیں بلکہ پوری طرح سے فراموش کر دیے جانے کے باعث حزب اختلاف کو یہ بھی یقین ہو چلا ہے کہ اب نریندر مودی کے دور وزارت عظمیٰ کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ۔ بظاہر ایسا محسوس ہو بھی رہا ہے لیکن حزب اختلاف یہ بھول گئی کہ جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس منصب پر ساڑھے چار ہزار سے زائد دن گزارنے کے بعد پارٹی کے ہی کچھ لیڈروں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے تھے تب کانگریس ہی نہیں بلکہ معروف سیاسی ماہرین،صحافی یہاں تک کہ خود ان کی پارٹی یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ اب مودی وزارت اعلیٰ کی مسند پر نہیں بیٹھ سکیں گے۔ لیکن مودی نے ہولو گرافی  سے لے کر دیگر جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا خوبصورتی سے استعمال کرنے اور ہندو تو کے ایجنڈے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی پیش کردہ ٹوپی اور صافے اوڑھنے سے انکار کرنے کے بعد بوہرہ مسلمانوں کا دامن تھامے رکھ کر جس اچھوتے انداز میں اپنی اور پارٹی کی انتخابی مہم چلائی تھی اس سے انہوں نے تمام قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ایک با رپھر پارٹی کو قطعی اکثریت دلوا دی۔ یہ بات دیگر ہے کہ اس بار 2007کے مقابلہ میں اس کی سیٹوں میں کمی ضرور واقع ہوئی لیکن وہ کمی بھی آٹے میں نمک کے برابر جیسی تھی۔یعنی صرف 7سیٹیں ہی کم ہوئی تھیں۔ ایک بار پھر وزارت اعلیٰ کی گدی پر انہیں ہی بٹھایا گیا۔ان کے پارٹی کے لیڈر اورحزب اختلاف ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکی ۔لیکن جب خود انہوں نے چاہا کہ اب وہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر نہیں بلکہ اس سے کچھ اور اونچی کرسی پر  بیٹھا جائے تو انہوں نے 2014میں عام انتخابات میں دھماکہ خیز انداز میں اپنی آمد کا اعلان کیا جس طرح انہوں نے2012میں اپنے خلاف در ر پردہ سازشوں کے باوجود گجرات کے عوام کو امیدیں دلا کر اسمبلی میں شاہانہ انداز سے داخلہ حاصل کیا تھا بالکل ویسے ہی وعدے کر کے اور اچھے دن لانے کی امید ہی نہیں یقین دلا کر دہلی کے تخت پر قبضہ کر کے گجرات  میں بھی اپنی پسند اور ایک بے ضرر خاتون آنند بین پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنا  دیا۔ اس طرح مودی نے نہ صرف پارٹی میں اپنے  مخالفین و بد خواہوں کو خوار کر دیا بلکہ  پٹیلوں کی سیاست بھی زیرو کر دی۔اب2019کے انتخابات میں بھی کم و بیش کچھ ایسی ہی صورت حال نظر آرہی ہے۔بی جے پی کے اندر ہی مودی امیت جوڑی کو شرمندہ کرنے کے تانے بانے بنے جارہے ہیں۔ لال کشن اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، وجے کمار ملہوترا، جسونت سنگھ اور شانتا کمار جیسے معمر اور سینیئر رہنما  اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے ہیں اور شتروگھن سنہا ،یشونت سنہا اور کیرتی آزاد جیسے مودی مخالف بی جے پی عناصر کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ادھر یشونت سنہا، کیرتی آزاد اور نوجوت سنگھ سدھو کے بعد جسونت سنگھ کے بیٹے من وندرا سنگھ نے بھی مودی امیت جوڑی سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے  بی جے پی کو آخری سلام کرنے کا فیصلہ کر کے حزب اختلاف خاص طور پر کانگریس کو زبردست تقویت پہنچائی ہے۔ اس سے کانگریس راجستھان میں  اپنی پوزیشن مزید مستحکم ہوتی دیکھ رہی ہے۔علاوہ ازیںیہ بھی یقین کر لیا گیا ہے کہ اترپردیش میں چاروں پارٹیوں سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کے عظیم اتحاد اور اس پر پیس پارٹی جیسی کچھ چھوٹی بڑی پارٹیوں کے بگھار سے بی جے پی کا پتہ صاف ہو جائے گا۔لیکن مودی کی کیمسٹری  دوسری ہی ہے۔ایسی صورت میں حزب اختلاف کو صرف اترپردیش ہی نہیں بہار اور مغربی بنگال میں بھی اترپردیش جیسا عظیم اتحاد کرناضروری ہے کیونکہ صرف اتر پردیش سے بات نہیں بننے والی۔وہاں آج بھی ذات برادری کی بنیاد پر ووٹوں کی تقسیم ہوتی ہے۔مودی جانتے ہیں کہ اونچی ذات والے تو بی جے پی کو ہی ووٹ دیں گے۔بس ان کی ریاضی پسماندہ ذاتوں کو کچھ لیڈروں سے ضرب کر کے گھٹا جمع کرنے کی رہے گی ۔اور یہیں عظیم اتحاد مات کھا سکتا ہے کیونکہ دلتوں میں سے کچھ لیڈروں کو ٹکٹ دے کر اور دوسری جانب سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کے چچا شیو پال یادو کی مدد سے یادوؤں  کے خیمے میں  دراڑ ڈال کر مودی اپنی چال چل جائیں گے۔ جیتنے کے بعد انہیں ان دلتوں یا یادوؤں کو کوئی وزارت تو دینی نہیں ہے۔ انہیں تو وہ ایوان میں صرف بی جے پی کو سب سے بڑی واحد پارٹی بنوانے کے لیے استعمال کریں گے۔ مودی کی اس چال سے عظیم اتحاد کا فارمولہ ٹائیں ٹائیں فش ہو سکتا ہے اور شاید2019ایک بار پھر لوک سبھا کی دہلیز پر مودی سب سے بڑی واحد پارٹی کے قائد کے طور پر کھڑے نظر آئیں ۔
 
 
 

شیئر: