Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حضرت امام حسینؓ کا بچپن

رسول اکرم اپنے دونوں نواسوںکو سینہ مبا رک پر بٹھاتے، کا ندھوں پر چڑھا تے اور مسلمانوں کو تاکید فر ماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو
 * * *حافظ محمد ہاشم صدیقی۔ جمشید پور،ہند * * *
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے لیکر شہادت عظمیٰ تک آپ کے فضائل میں بہت سی حدیثیں مو جود ہیں۔ پھر جو دو نوں شہزادوں حضرت امام حسن وحضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل میں احادیث کریمہ کے ذخیرہ میں موجود ہیں وہ الگ ہیں۔جب سے دنیا قائم ہے اس وقت سے لیکر آج کی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں، لیکن جس طرح کر بلا کی سر زمین میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اپنے جانثاروں کے ساتھ ہوئی اس طرح کی مثال پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔آپ کی ولادت سے لیکر شہادت تک کے واقعات کو پڑھ کرانسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ ؓکے بچپن کے واقعات بھی بہت ہی پیارے ہیں جن کو احا دیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
    اولاد علی اولاد نبی:
    حدیث پاک میں ہے:
    اِنَّ ا للّٰہَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ ذُرِّیَتہٗ کُلِّ نَبِیٍّ فِیْ صُلْبِہِ وَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ جَعَلَ ذُرِّیَتِ فِیْ صُلْبِ عَلِیِّ اِبْنِ اَ بِیْ طَا لِبٍ۔
    ’’ فر مایا بیشک اللہ عزو جل نے ہر نبی کی اولاد اُن کی پشت سے پیدا کی اور بیشک اللہ تبار ک و تعالیٰ نے میری اولاد علی ابن طالب کی پشت سے پیدا فر مائی۔‘‘( صواعق محر حقہ،خطبات کر بلا)۔
    ’’ سفا ف ا لرا غبین فی سیرۃالمصطفٰے( ) ‘‘میں ہے، جس کا تر جمہ اس طرح ہے:
    ’’ سیدہ فاطمۃ الز ہرا رضی اللہ عنہا کی اولاد حضور    کی اولاد وفرزند کہلاتے ہیں۔ہر ماں کی اولاد اپنے عصبہ(فر زند نرینہ) کی طرف منسوب ہوتی ہے جبکہ فاطمہ کی اولاد کا عصبہ اور ولی میںہوں۔‘‘
     ایک حدیث میں ہے کہ ہر ماں کی اولاد اپنے اولاد اپنے آبائی خاندان کی طرف منسوب ہوتی ہے، بجز اولاد فاطمہ کے جن کا ولی اور عصبہ میں ہوں۔
    آپؓ کی  ولادت:
    ابن علی(حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ) نبی رحمت  کے چھوٹے نواسے اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چھوٹے بیٹے تھے۔ آپکی ولادت مبار کہ5شعبان4ہجری،بمطابق8جنوری626ء کو مدینہ طیبہ میں ہوئی(10محرم 61ہجری بمطابق10اکتوبر680ء کر بلا، عراق میں شہید ہوئے) ۔حضور نے آپؓ کے کان میںاذان دی ،منہ میں لعاب دہن ڈالا اور آپ کے لیے دعا فر مائی۔ پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا۔ حضرت مفضل سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک حضور    نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔آپ ؓ کی کنیت ابوعبداللہ ولقب’’سبط رسول‘‘ و’’ریحا نۃ الرسول‘‘ ہے ۔حدیث شریف میں ہے، آپ  نے فر مایا کہ ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر وشبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کانام انہی کے نام پر حسن اور حسین رکھا(صواعق محرقہ )۔
     ایک حدیث میں ہے :
    اَلْحَسَنُ وَا لْحُسَیْنُ اِسْمَانِ مِنْ اَھْلِ الجَنَّۃِ۔
    ’’حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دونام ہیں۔‘‘
     عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ دو نوں نام نہیں تھے(صواعق محرقہ) ۔
    رسول اللہ نے آپ رضی اللہ عنہ کا عقیقہ ساتویں دن کیا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم  نے خودحسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا۔
    حضرت امام حسن  و حسین کی پر ورش:
     آقائے نعمت کی گود میں آپؓ کی پر ورش ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے، وہ ہستی جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کو راہ راست پر لانے کے لیے رسول بنا کر بھیجا، آپ کی نگہداشت میں جو بچہ پلے گا بڑھے گا اُس کی تر بیت کے کیا کہنے۔
    رحمت عالم ، امام حسین رضی اللہ عنہ سے بہت محبت فر ماتے اور آپ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خود تر بیت فر مائی تھی۔
    پیغمبر اسلام دونوں بچوں کی پر ورش میں لگے رہتے تھے۔ آپ ہی کے گہوارہ میں آپ دونوں پر وان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف نبی آ خر الز ماں ،جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاقِ انسانی کی تکمیل تھی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا: رسول اللہ   تمام انسانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اخلاق کے مالک تھے(مسلم )۔
    سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ حکم(خُذِا لْعَفْوَ) کو اختیار کرو کی تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں :نبی کریم کو حکم دیا گیا کہ وہ لو گوں کے بد اخلاقی میں عفو کو اختیار کریں( مسلم،باب عفو در گزر انتقام نہ لینے کا بیان) ۔
    آپ کے اخلاق کریمانہ کے سایہ میں اور دوسری طرف امیر المومنین علی ابن ابوطالبؓ جو اپنے عمل سے اللہ کی مرضی پر جانثار تھے، تیسری طرف فاطمۃالزہرا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر اسلام کی دعوت کو عملی طور پر پہنچا نے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں، اس پاک اور نورانی ماحول میںسیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پر ورش ہوئی۔
     نواسوں سے  رسول اللہ    کی محبت:
    حضرت محمد مصطفی اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ بہت محبت فر ماتے۔ سینہ مبا رک پر بٹھاتے، کا ندھوں پر چڑھا تے اور مسلمانوں کو تاکید فر ماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو،لیکن چھوٹے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کی محبت کا کچھ خاص امتیاز تھا۔آپ نماز میں سجدہ کی حالت میں تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ پشت(پیٹھ) مبارک پر آگئے یہاں تک کہ(بچہ) امام حسین رضی اللہ عنہ خود سے بخوشی پشت پر سے اتر گئے توآپ نے سر سجدے سے اٹھایا۔
    نبی کریم ارشاد فر ماتے ہیں:اَحَبَّ ا للّٰہُ مَنْ اَحَبَّ حُسَیْنًا۔’’ جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی۔‘‘(مشکوٰۃ)۔ اسی لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا حضور سے محبت کر ناہے اور حضور سے محبت کر نا اللہ تعا لیٰ سے محبت کر نا ہے ( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)۔
    حضرت امام حسین سے آقا ئے دوجہاں کی محبت کی بہت سی مثا لیں ہیں اور حدیثیں ہیں۔ایک دلپزیر حدیث مطا لعہ فر مائیں اور اپنے دل کو محبت حسین سے بھر لیں۔
     حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ رسو ل اللہ مسجد میں تشریف لا ئے اور فر مایا چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور حضور کی گود میں بیٹھ گئے اور اپنی انگلیاں داڑھی مبارک میں داخل کر دیں۔ حضور نے ان کا منھ کھو ل کر بوسہ لیا پھر فر ما یا:  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُحِبُّہٗ فَاَ حِبَّہٗ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہٗ۔’’ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فر ما اور اس سے بھی محبت فرما جو اس سے محبت کرے۔‘‘(نو را لا بصارص،خطبات محرم)۔
     نبی کریم کی تر بیت کا نتیجہ ہی تھا کہ آپؓ انتہاہی عابد و زاہد اور بہت فضیلت کے مالک تھے۔ کثرت سے نماز، روزہ،حج، صدقہ اور دیگر امورِ خیر ادا فر ماتے تھے۔آپ نے پیدل چل کر 25حج کئے۔اللہ،اللہ! نماز کی پابندی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی شہادت بھی سجد ے میں ہوئی۔ آپؓ کی چاہت و محبت کا دم بھر نے والوں کو نماز سے بھی محبت ہو نی چاہئے تبھی سچے حسینی کہلانے کے حق دار ہوں گے ور نہ دعویٰ بے دلیل صحیح نہیںہوتا۔ آپؓ کے محاسن و کمالات احادیث سے لیکر بزر گان دین کی بیاض وتاریخ کی کتا بوں میں بھرے پڑے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ آپؓ کے بچپن سے لیکر شہادت تک کے واقعات اپنے بچوں اور نئی نسلوں کو بتائیں تاکہ ان کے دلوں میں ایمانی حرارت پیدا ہو اور سچ وحق پر چلنے کی تر غیب ملے۔
     اللہ تعالیٰ ہمیں شہیدان کر بلا کی طرح سچ اور حق پر چلنے اور حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی سے سبق لینے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین۔
 

شیئر: