Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میاں بیوی کے رشتے میں اناشامل ہو تو زنگ لگ جاتا ہے ، غوثیہ جاسم

 ہم آہنگی ہو تو دکھ سکھ، نشیب و فراز آسانی کے ساتھ عبور کرلئے جاتے ہیں،جاسم اختر
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
شادی ایک ایسا خوبصورت اور مقدس بندھن ہے جس میں پیار ،محبت و انسیت کی جو مٹھاس ہے، اس کی لذت کسی اور رشتے میں محسوس نہیں کی جاسکتی۔ یہ حقیقت ہے کہ مردو زن کے درمیان پنپنے والا یہ رشتہ نازک اور نا پائدار بھی ہوتاہے کیونکہ جتنا انسان خود کو مضبوط سمجھتا ہے وہ درحقیقت غیر یقینی صورتحال میں گھرا ہوتا ہے تاہم یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر بنانے میں عورت کا کردار زیادہ اہم رہا ہے ۔ عورت چاہے تو گھر کو پرسکون بناسکتی ہے اور وہ چاہے تو اسے مثل جہنم بنا دے۔ 
قدرت نے عورت کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی سے بڑی تکلیف برادشت کرکے خاندان کو جوڑے رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صنف نازک ہونے کے ناتے اس کے اندر پیار ، اپنا پن، صبر ، جذبہ قربانی اور سب سے بڑھ کر بے لوث محبت اور ممتا بے انتہاءپائی جاتی ہے۔ انہی صفات کی مالک ہونے کی وجہ سے وہ اپنے میکے کے ساتھ ایک پرائے گھر یعنی سسرال کے انجان ماحول میںاجنبی لوگوں کے ساتھ چند دنوں کی مدت میں خود کو ہر رنگ و روپ میں ڈھال لینا اس کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ وہ مرتے دم تک تمام فرائض اور ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیتی ہے ۔وہ اینٹ اور پتھر سے بنے مکانوں کو خوبصورت دھنک رنگ میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ عورت کا خاصہ ہوتاہے ۔ انہی خصوصیات کی حامل ایک شخصیت جو گونا گوں صلاحیتوں کی مالک ہیں ، آج ہوا کے دوش پر اردو نیوز کی مہمان ٹھہری ہیں۔ آپ کی ملاقات کراتے ہیں :
میرا پورا نام غوثیہ تسنیم ہے جو شادی کے بعد غوثیہ جاسم میں تبدیل ہوگیا ۔ میرا تعلق عروس البلاد کراچی سے ہے۔ ابتدائی تعلیم کراچی میں ہی حاصل کی ۔میٹرک ، انٹر اور پھر بی ایس سی کرتے ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئی۔ زمانہ طالبعلمی سے ہی ذہین ہونے کے ساتھ شریر طبیعت کی مالک تھی۔ کچھ نمایاں رہنے کا شوق تھا۔ اس لئے اسکول میں مجھے ہیڈ گرل بنا دیاگیا۔ میری ذہانت کو دیکھتے ہوئے اکثر مجھے کالج میںکلاس کا نمائندہ بھی بنا دیا جاتا تھا ۔ یہ ذمہ داری میں بخوشی قبول کرلیتی تھی۔ فطرت میں کچھ کر دکھانے کی عادت تھی ۔اس کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔ 
اسے بھی پڑھئے:منگنی کے بعد شادی میں تاخیر کاانجام، راہیں جدا
کالج کے دور میں این سی سی یعنی” نیشنل کیڈٹ کور“میں بھی شامل رہی۔ اسی زمانے میں ہم سہیلیوں کا ایک گروپ ہوا کرتا تھا جو SGAFSUM کے نام سے مشہور تھا ۔یہ ، ہمیشہ اساتذہ کی نظروں کا مرکز بنا رہتا تھا۔
جاسم اختر بحیثیت سول انجینیئر سعودی عرب میں شادی سے پہلے سے ہی ایک کمپنی میں اعلیٰ عہدے پرفائز ہیں۔ اس لئے شادی کے فوراً بعد ہی میں سعودیہ آگئی ۔ ابھی میں اپنے اس رتبے کو پوری طرح محسوس بھی نہیں کر پائی تھی کہ اللہ کریم نے میری زندگی کو مزید حسین بنا دیا، بڑے بیٹا منیب دنیا میں آگیا ۔ماشاءاللہ ،ایک سال کے بعد ہی میرے دوسرے بیٹے صہیب نے ہماری زندگی میں قدم رکھا۔ دونوں بچوں کی وجہ سے تمام دن کیسے گزر جاتا، مجھے اس کا اندازہ ہی نہیں ہوپاتاتھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ میںجڑواں بچوں کو پال رہی ہوں۔ دونوں بیٹوںکے بعد اللہ کریم نے ایک اوربیٹے سے نوازا جس کا نام ہم نے محب رکھا۔ ظاہر ہے تینوں بیٹوںکی پرورش کرنے میں شوہر نے بھی میری بڑی مدد کی۔ ابتداءسے ہی ہمارے ذہنوں میں بچوں کا تصور ایک کامیاب شخصیت کے طور پر ابھرتاتھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری خواہش پوری ہوئی۔ بچوں نے بھی ہمارے خوابوں کو عملی جامہ پہنایا۔ میرے بچے ماشاءاللہ ،بہت ذہین اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ بچوں کی پیدائش کے بعد زندگی کا محور صرف اور صرف گھر اور بچے ہی رہے۔ اس بات کا احساس شوہر کو بھی بڑی شدت سے تھا لہٰذا جب بڑے بیٹے کو نرسری میں داخل کروانے کیلئے پرائیویٹ اسکول میں لے گئی تو اسکول پرنسپل نے مجھے جاب کی پیشکش کی جو میں نے فوراً مان لی۔ یہیں سے زندگی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
اسکول اور کالج کے زمانے سے ہی مجھے ایئر ہوسٹس بننے کابہت شوق تھا مگر گھر والوں کی طرف سے کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی لیکن جب یہاں جاب آفر ہوئی تو فوراً حامی بھر لی۔ دو سال کے بعد پاکستان اسکول ،ریاض جوائن کرلیا۔ 22 سال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیتی رہی۔ سروس کے دوران بہت نمایاں اساتذہ میں نام لیا جاتا رہا۔ اسی دوران انٹرنیشنل ریلیشنز میںماسٹرز بھی کرلیا۔ بعدازاں، الحمدللہ، کالج ونگ کی ہیڈ مسٹریس کے طور ہر چارج سنبھالا۔ اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ 2012 ءمیں چند ناگزیر وجوہ کی بناءپر اسکول سے استعفیٰ دینا پڑا۔ مجھ میں ہار ماننے والی صلاحیت نہیں۔ گھر بیٹھنے کی بجائے آجکل سری لنکن انٹرنیشنل اسکول کی وائس پرنسپل کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہوں۔ ہاں یہ بات بتاتی چلوں کہ جب میں دونوں قومیت کے بچوں کا موازانہ کرتی ہوں تو مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ پاکستانی بچے کسی چیز میں پیچھے نہیں۔ہمارے پاس وسائل کی کافی کمی ہے ، تعلیم بہت ہی محدود خطوط پر دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود بچوں میں صلاحیتوں کمی نہیں۔ سری لنکن اسکول میں ہر قومیت کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں لہٰذا ان کے نصاب میں اردو کا بھی اضافہ کیا۔ الحمدللہ، اس اسکول کی مجھے پہلی خاتون وائس پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ 
غوثیہ تسنیم کہتی ہیں کہ والدین کا تعلق آزاد کشمیر کی بٹ فیملی سے ہے۔ دو بھائیوں اور چار بہنوں میں میرا نمبر چوتھا ہے۔ والدین بھی ماشاءاللہ، ہر والدین کی طرح بچوں کا بہت خیال رکھنے والے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہماری کوئی فرمائش کبھی رد کی گئی ہو۔ گو کہ والد صاحب سعودیہ میں 20 سال رہے لیکن فیملی کراچی میں تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھی۔ والدہ گو کہ ہم سب ہی کا حد درجہ خیال رکھتی تھیں لیکن بظاہر بہت سخت گیر طبیعت کی مالک تھیں۔ بچپن بہت اچھا اور بھرپور گزرا۔ جب سب بہن بھائی اکٹھے ہوتے تو خوب موج مستیاں کرتے، لطف اندوز ہوتے۔
غوثیہ تسنیم نے کہا کہ ہم نے بہت کم عمری میں دونوں بڑے بیٹوں کو کیڈیٹ کالج حسن ابدال بھیج دیا تھا۔ اتنی چھوٹی عمر سے بچوں کوعلیحدہ کرنا آسان نہیںتھا مگر ان کے مستقبل کی خاطریہ فیصلہ کرنا پڑا۔ اس سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگیا۔ صلاحیتوں میں چار چاند لگ گئے۔ انکی تربیت میں گھڑ سواری اور سوئمنگ شامل تھی۔ انہوں نے تقریباً تمام کھیل سیکھے۔ بڑے صاحبزادے کراچی سے سی اے کرنے کے بعد آسٹریلیا سے ماسٹرز کررہے ہیں۔ دوسرے نمبر کے صہیب جاسم بھی نسٹ سے انجینیئر نگ کے بعد آسٹریلیا میں مینجمنٹ میں ماسٹرز کررہے یں۔ تیسرے صاحبزادے محب جاسم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سول انجینیئرنگ سے وابستہ ہوئے۔ وہ بھی دونوں بڑے بھائیوں کے ساتھ آسٹریلیا میں ہی زیر تعلیم ہیں۔ دوبڑے بیٹوں کی منگی کردی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ بہوﺅں کے روپ میں مجھے اللہ کریم نے دو بیٹیاں نصیب فرمائی ہیں۔ مجھے بیٹیوں کا بہت ارمان تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹیوں کی شکل میں بہوئیں عطا فرما دی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے لوگ اللہ کریم کی مخلوق سے بہت محبت کرنے والے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر حال میں وہ دوسروں کی مدد کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک واقعے کاذکر کرنا چاہونگی۔2005ءمیں جب پاکستان میں شدید زلزلہ آیا تھا اس وقت میں پاکستانی اسکول میں ملازمت کر رہی تھی ۔ وطن عزیز میں زلزلہ زدگان کو امداد کی سخت ضرورت تھی۔ ہمارے ساتھی اساتذہ نے مل کر چیریٹی مینا بازار کا انعقاد کیا جس میں ریاض کے تقریباً تمام اسکولوں بشمول انڈین اور بنگلہ دیشی اسکولوں نے بھی حصہ لیا۔ اس طرح خطیر رقم امداد کی شکل میںجمع کرکے ہم نے زلزلہ زدگان کیلئے روانہ کی۔ اس وقت میرے بڑے صاحبزادے حسن ابدال میں زیر تعلیم تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ زلزلہ آیا ہے ، میں بچوں سے رابطہ نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ مواصلاتی نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ آج بھی جب اس وقت کو یاد کرتی ہوں توروح کانپ جاتی ہے۔ 
سسرا ل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بہت اچھا اور ملنسار ہے۔ ساس ،سسر کا تعلق یوں تو بنارس سے رہا لیکن تقسیم کے بعد وہ لوگ پاکستان آگئے تھے۔ شوہر کے 8 بھائی اور 3 بہنیں ہیں۔ بڑی فیملی ہونے کی وجہ سے گھر میں خوب رونق رہتی ہے۔ کبھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔تمام سسرالیوں سے تعلقات بھی بہت اچھے ہیں ،خاص کر ساس سے۔ وہ بہت ہی نفیس طبیعت کی مالک ہیں۔ بڑے رکھ رکھاﺅوالی ہیں۔ انہیں روایتی بہوئیں بہت پسند آتی ہیں جو ہمیشہ سر پر آنچل رکھ کر ساس ،سسر کے سامنے آئیں اور گھر میں خوب سارے زیورات پہن کر رہیں۔ آہستہ آہستہ میں ان کے مزاج کو سمجھ گئی، خود کو اسی کے مطابق ڈھال لیا۔ 
ایک سوال کے جواب میں غوثیہ تسنیم نے کہا کہ میاں بیوی کا رشتہ بہت خوبصورت ہوتاہے تاہم اس رشتے میں اگر انا شامل ہو جائے تو اسے زنگ لگنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ زن و شو کے مابین روابط میں انا نام کی کوئی چیز نہیں آنی چاہئے ورنہ زندگی کی گاڑی سبک رفتارنہیں رہتی ۔ اس رشتے میں دولت بھی وہ خوشی نہیں دے سکتی جو اس ناتے کی ضرورت ہے۔ محبت، عزت، صبر ،شکر سے اپنے ساتھی کے ہر دکھ درد میں ساتھ دینے سے ہیازدواجی بندھن میں مضبوطی آتی ہے۔ 
گفتگو جاری تھی کہ غوثیہ کے شوہر جاسم اختر دفتر سے آ گئے ۔ انہیں جب معلوم ہواکہ اردو نیوز کیلئے انٹرویو لیا جارہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ دونوں نے اردو نیوز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم مشکور ہیں کہ ہمارا انتخاب کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ، اردو نیوز کو دن دگنی، رات چوگنی ترقی دے۔ غوثیہ جاسم نے کہا کہ میں بہت مشکور ہوں اپنے شریک سفرکی،جن کی رہنمائی اور سہارے کے بغیر میں اس مقام تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ جاسم اختر سے سوال کیا گیاکہ آپ اپنی شریک سفر کو کیسا پاتے ہیں، انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ زندگی کی گاڑی ذہنی ہم آہنگی سے ہی چلتی ہے ۔ میری اہلیہ میری معاون ثابت ہوئی ہیں۔ اگر میاں اور بیوی میں ہم آہنگی ہو تو دکھ سکھ، نشیب و فراز آسانی کے ساتھ عبور کرلئے جاتے ہیں۔ راستے یقینا آسان اور سہل ہوجایا کرتے ہیں۔ 
غوثیہ جاسم سے ادب کے بارے میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ دوران تعلیم شعروشاعری میں کافی دلچسپی لیتی تھیں مگر اب وقت کی کمی کے باعث اس شوق میں کمی تو آئی ہے لیکن جب بھی وقت ملتا ہے،میں اکثر کتابیں پڑھتی ہوں۔ ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گی کہ میںجس کالج میں پڑھتی تھی ،وہاں پروین شاکر اور شاہدہ حسن جیسی شخصیات پروفیسر تھیں۔ ظاہر ہے مجھے پروین شاکر بہت پسند تھیں۔ ان ہی کی ایک غزل آپ کی نذر کرتی ہوں:
مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے
دستارپہ بات آگئی ہوتی ہوئی سر سے
کل رات جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے
 چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
محنت مری آندھی سے تو منسوب نہیں تھی
 رہنا تھا کوئی ربط شجر کا بھی ثمر سے
خود اپنے سے ملنے کا تو یارانہ تھا مجھ میں
 میں بھیڑ میں گم ہوگئی تنہائی کے ڈر سے
بے نام مسافت ہی مقدر ہے تو کیا غم
منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے
نکلے ہیں تو رستے میںکہیں شام بھی ہوگی
سورج بھی مگر آئے گا اس راہ گزر سے 
 
 
 

شیئر: