Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمان اور آزمائش ، لازم وملزوم

ایما ن ایسی قلبی کیفیت کا نام ہے جس کےدل میں موجود ہونے کا علم، صاحبِ ایمان کو بھی امتحان میں پڑنے کے بعد ہو تا ہے
* * *مولانا ابوالجلال ندوی۔ہند* * *
 
ارشاد ربانی ہے:
     ’’الم،کیا لوگوں کا یہ خیال ہے کہ محض آمنّا کہہ دینے سے وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کو پرکھا نہیں جائیگا؟ حالانکہ جو لوگ اس سے پہلے گزرے انکو پرکھا گیا تھا، ضرور ہے کہ اللہ سچوں کو جان لے اور ضرور ہے کہ جھوٹوں کو جان لے۔‘‘ (العنکبوت 3-1) ۔
     علمِ الٰہی :
    مذکورہ   آیتوں کا مفہوم مزید تشریح کا محتاج نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایامِ قدیم میں بھی مومنوں کے ایمان کو پرکھا گیا  اس لئے اب کے مومنوں کو پرکھنا ضروری ہے۔ اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو عالم ہے ہی  پھر یہ کیوں فرمایا کہ ضرور ہے کہ اللہ سچوں کو جان لے اور جھوٹوں کو جان لے؟ یہ تو ایسے کو کہنا چاہیے جو کہ پہلے سے نہ جانتا ہو۔ اس کا جواب علما ئے کرام نے یہ دیا ہے کہ علم قبلِ وقوع اور علم بعد وقوع میں حقیقت کے لحاظ سے بھی فرق ہے اور مآل(انجام) کے لحاظ سے بھی۔ عذاب یا ثواب کیلئے علمِ بعد وقوع ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے علم کی دلیل سے نہیں بلکہ محسن کو اس کے نیکوکار ہونے کا ثبوت اس سے لے کر ثواب بخشے گا اوربرے کو واقعاتی دلائل سے اس کے مجرم ہونے کا قائل اور معترف کردینے کے بعد سزا دے گا۔
     یہ جواب اہلِ علم نے دیا ہے۔ ہم جیسے سیدھے سادے لوگ اتنا جانتے ہیں کہ عربی میں علم کے2معنی ہیں… ایک جاننا ہے اور ایک امتحان لینا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بچوں کا بھی امتحان لیتا ہے اور بڑوں کا بھی۔ ایما ن ایک ایسی قلبی کیفیت کا نام ہے جس کے واقعتادل میں موجود ہونے کا علم، صاحبِ ایمان کو بھی امتحان میں پڑنے کے بعد ہو تا ہے۔  راقم نے بچپن سے سنا ہے کہ اسلام برحق دین ہے۔ والدین نے بتایا، برادری نے بتایا، اساتذہ نے بتایا، نیک مومنوں کی سیرتوں سے مجھے اسلام کے دینِ حق ہونے کا اندازہ ہوا۔ میں نے اسلام کے خلاف بحث کرنے والوں کی دلیلیں بھی سنیں جو میرے سمعی اور تقلیدی ایمان کو متزلزل نہ کرسکیں۔ میں نے خود بھی شکوک کے دلائل جمع کیے جو کمزور ہی نظر آئے  اس لئے مجھے گمان ہے کہ دین اسلام کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں ۔اللہ تعالیٰ نے ابھی تک مجھے آزمائش میں مبتلا نہیں کیا   جس سے معلوم ہوجاتا کہ میرے دل میں اسلام کس قدر مضبوط جما ہوا ہے۔ کوئی حرص، کوئی امید، کوئی خوف یا کسی برتر دماغ کی دلیلیں میرے ایمان کو قائم رہنے دیں گی یا نہیں اِس کا فیصلہ امتحان میں پڑنے کے بعد ہی کرسکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے آزمائش سے مامون ہی رکھے۔ کیا معلوم اس کا علم بعد وقوع مجھے مومن تسلیم نہ کرے۔ اپنے علم قبل وقوع کی دلیل سے تو مجھے سزا نہ دے گا  لیکن اگر وہ مجھے آزمائش میں ڈالنے کے بعد میرے سچے مسلمان ہونے کا فیصلہ کرے گا تو میں قطعی طور پر اس کی رافت و رحمت اور انعام کا حقدار ہوجاؤں گا۔
    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان پرکھا ہوا ایمان تھا۔ اللہ  تعالیٰ نے ان کے ذریعے دیگر بندوں کی اصلاح کا کام لینا طے کرلیا تھا اس لئے ان کو خوب اچھی طرح آزما کر دیکھ لیاکہ وہ ان فرائض کو انجام دینے کے لائق ہیں جو ان کے سپرد ہونے والے تھے۔ یہ آیتیں دراصل ان پکے مومنوں کے تردد کا جواب دیتی ہیں جو اسلام کیلئے اپنا سب کچھ نثار کرنے کو تیار تھے۔ ان کو کوئی تشدد اور کوئی تحریص راہِ حق سے نہیں موڑ سکتی تھی، پھر بھی ان کے ذہنوں میں یہ سوال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو اتنی طاقت کیوں دے رکھی ہے کہ وہ کمزوروں کو ارتداد پر مجبور کردیتے ہیں۔ ان مسلمانوں کو جواب دے کر اللہ تعالیٰ نے ظالم کفار کی بابت فرمایا:
    ’’جو لوگ  برائیاں کررہے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم پر سبقت لے جائیں گے؟ بُرا ہے جو فیصلہ وہ کررہے ہیں۔‘‘ (العنکبوت4)۔
    کفار کا فیصلہ :
    کفارِ مکہ نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اسلام کو عرب کے اندر کبھی جڑ نہ پکڑنے دیں گے  اس لئے وہ مسلمانوں پر طرح طرح کی سختیاں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ جبر و تشدد کے زور سے اپنے آبائی دین کو بچا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس خیال اور فیصلے کی بابت فرمایا کہ یہ بُرا فیصلہ ہے۔ ہم نے اسلام کو قائم کرنا طے کرلیا ہے، ہم کو وہ شکست نہیں دے سکتے۔
    اللہ تعالیٰ کا فیصلہ :
    اندازِ بیان اس آیت کا مختلف ہے مگر منطوق کلام اس آیت کا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کو ہدایت اور دین حق دیکر اسی لئے بھیجا ہے کہ اسے غالب کردے سارے کے سارے دین پر، اگرچہ یہ کافروں کو ناپسند ہی (کیوں نہ) ہو ( التوبہ 33، الفتح 28، صف 9  )۔
     اللہ تعالیٰ کی اس تجویز کو ان کفار کی کوششیں باطل نہیں کرسکتیں۔ کفار کے وہمِ باطل کی تردید کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    ’’جس کو اللہ کی ملاقات کی امید ہے، وہ جان رکھے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت ضرور آئے گا، وہ سنتا ہے، جانتا ہے  اور جو شخص مجاہدہ کرتا ہے وہ اپنے بھلے کیلئے مجاہدہ کرتا ہے،یقینا اللہ سارے جہانوں سے بے نیاز ہے  اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے، ہم ان سے ان کی برائیاں دور کر دیں گے اور ہم ان کو ان کے بہترین کام کی جزا دیں گے۔‘‘(العنکبوت7-5)۔
    بہترین بشارت :
    سورہ عنکبوت ،آیت   5 کا فقرہ {ھْوَ السَّمِیعْ العَلِیمْ }اشارہ کرتا ہے کہ ان آیتوں کا سبب بعض مومنوں کی دعا ہے۔ حضرت یوسف ؑ نے دعا کی تھی کہ’’ اے اللہ  مجھے جس کام کی طرف یہ عورتیں بلاتی ہیں اس سے زیادہ مجھے قید ہوجانا محبوب ہے‘‘۔
     یہ آیت اندازہ دیتی ہے کہ بعض مسلمانوں نے یہ دیکھ کر کہ کفار کا تشدد بعض لوگوں کو دین اسلام سے ارتداد پر مجبور کررہا ہے، اپنے دلوں میں یا زبانوں سے یہ دعا کی تھی کہ’’ اے  اللہ!   ہم کو اس ابتلا میں پھنسنے سے پہلے ہی موت دے کر اپنے پاس بلا لے‘‘۔
     اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ موت کی دعا تو ایک دن قبول ہوکر ہی رہے گی، وقتِ مقررہ آئے گا تو ضرور مر جاؤ گے لیکن تم کو اسلام کیلئے اپنی سکت بھر مجاہدہ کرنا چاہیے، اس سے تمہارا ہی بھلا ہوگا  ورنہ اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں، وہ ساری کائنات سے بے نیاز ہے۔ تم اگر ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری برائیوں کو تم سے دور کردے گا، تم سراپا نیکی بن جاؤ گے، پھر تمہارے برے اعمال سے چشم پوشی کرے گا، تمہارے بہترین عمل کا اجر دے گا۔ مومن مجاہد کیلئے یہ بہترین بشارت ہے کیونکہ مطلب اس کا یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح پر قائم رہنے کیلئے جو شخص بھی مجاہدہ کریگا وہ سراپا نیکی ہوجائے گا، اس سے پہلے جوبرائیاں اْس سے سرزد ہوئی ہیں وہ خارج از حساب ہوجائیں گی، اس کو صرف اْس کے اچھے اعمال کا اجر ملے گا، برے اعمال کی سزا نہیں ملے گی اس لئے یہ آیتیں مومنوں کیلئے بہترین بشارت ہیں۔
مزید پڑھیں:- - -  -ہم صنفی روابط ، غیر فطری اور گھناؤنا عمل

شیئر: