Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نماز ، ایمان کا مظہر ، د ین کا مقیاس

ہماری نماز ایسی ہو جو ہمیں ہر بدخُلقی سے بچادے، حسن خلق سے آراستہ کرے، وہ ہماری طاعتوں میں مددگار ہو
* * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ* *    
اسلام درحقیقت اپنے آپ کو مکمل طورپر سپرد کردینا ،اللہ کے حوالے کردینا، اسی کیلئے سر تسلیم خم کردینے کا نام ہے ۔ یہ تسلیم باطن سے بھی ہو کہ بندہ احکام شریعت کو دل سے ماننے والا ہو اور ظاہر سے بھی کہ وہ ان احکام شریعت کو پابندی سے مطلوبہ طریقہ سے اداکرنے والا بھی ہو ۔  
    اولاً :  یوں اسلام وتسلیم بھی ہو(پھر اس کے بعد)۔
    ثانیاً:  یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ احکام شریعت کی تعمیل، ایک طرف تو بندے کو بندگی میں کمال بخشتی ہے کہ یہ معبود برحق کا وفاشعار بندہ ہونے کی دلیل ہے،ساتھ ہی یہ بندے کے صالح فرد ہونے کی بھی علامت ہے۔ گویا احکام ِ شریعت کی تعمیل سے اصل فائدہ اور نفع بندے ہی کا ہے کہ وہ اسے کامل عبد اور صالح فرد بنادیتے ہیں۔
    ثالثًا:  یہ بھی علم رہے کہ بندگی اور اصلاح میں کمال، یعنی اللہ کے احکام کی تعمیل کا کامل نمونہ اورصالحین کاملین عباد الرحمن حضرات انبیائے علیہ السلام ہوتے ہیںلہذا وہ عبودیت اور صلاح کے اعلیٰ درجہ اور مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ وہ مسلمین اولین، عبدیت میں کامل، صلاح میں اعلیٰ وافضل، پھرجس قدر امتی ان کی اتباع میں ان کے قریب ہوگا، اسی قدر حصہ عبدیت اور صلاح میں اسے حاصل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اپنے اول المسلمین ہونے کا اعلان کرتا ہے کیونکہ وہ اسی بات کا مامور ہوتاہے۔ سید الرسل ،خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اسی کمال اسلام کو یوں بیان فرماتے ہیں اور اللہ انہیں اسی اعلان کا یوں حکم دیتے ہیں:
    ’’آپ یہ کہہ دیجئے کہ میری نماز ،میری قربانی،میری حیات ،میری موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ،میں اس کا مامور ہوں اور میں اول المسلمین میں سے ہوں۔‘‘
    اس ضروری امر پر مشتمل تمہید کے بعد احکام شریعت کے اصلاح انسان اورصلاح عالم کے حوالے سے یہ امر واضح ہوگیا کہ احکام شریعت کی تعمیل کا ثمر، حضرت انسان ہی وصول کرتاہے ،دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہاں کی فانی زندگی میں بھی اور وہاں کی حقیقی اور ابد الآباد کی زندگی میں بھی ،پھر بندہ اپنی خوشی سے ،کمال قناعت سے اپنے قلب وقالب، اپنے ظاہر وباطن اور مکمل اطمینان اور پوری بصیرت سے سر تسلیم خم کیوںنہ کرے؟ اپنے اُس رب کیلئے جو رب العالمین ہے، اعلم العالمین ہے۔اللہ کے رسول اور ان کی نیابت میں اہل علم جب اللہ کے بندوں کو ایسے اسلام کی دعوت دیں کہ اے لوگو ! اپنے آپ کو مکمل طورپر ظاہر وباطن سے اس ذات کے سپرد کردو جو ہر صفت میں صاحب کمال ہے ۔ تمہیں علم ہے مگر ناقص،لہذا تم خود کو علمِ کامل والے کے سپرد کردو۔ تمہارے اندر رحم ہے ،ہم مانتے ہیں ،مگر تم اپنے آپ کو ارحم الراحمین کے سپرد کردو۔تمہارے اندر یہ سمجھ ہے کہ تم اپنے مصلحتوں کو جانو مگر تم اپنے آپ کو اس ذات کے سپرد کردو جو تمہاری مصلحتوں کو تم سے زیادہ جانتاہے۔ تمہارے اندر قوت ہے مگر ضعف کے ساتھ ،تم اپنے آپ کو اس قوی ذات کے سپرد کردو جو ہر چیز پر قادر مطلق ہے لہذا جملہ اہل ایمان کو ،اہل دعوت کو،خواص وعوام کو، جملہ اہل اسلام کو اس بات کا استحضار رہے کہ جو کچھ اللہ نے ہمارے اندر علم، قوت، فہم، درک مصالح، در ک مفاسد وغیرہ جیسی علمی وفقہی صفات رکھیں ہیں ان میں کمال صرف اور صرف ہمارے رب ہی کیلئے ہے۔ ہمارا اپنے آپ کو اس کے سپرد کردینا اس میں ہمارا ہی نفع ہمارا ہی فائدہ اور ہماری ہی مصلحت ہے۔رابعاً:  یہ شعور بھی رہے کہ ہمیں اپنے آپ کو اللہ کی سپردگی میں، اسے حوالے کرنے میں، اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں جس قدر اتمام واہتمام ہوگا وہ ہمار ے لئے کمال عبدیت کا موجب ہے اور جس قدر اس میں نقص خلل ہوگا، کمی ہوگی، ضعف ہوگا وہ ہمارے مقام عبدیت میں نقصان ہے ،جو ہمارے اندر نقص شمار ہوگا۔ ہمارے سامنے کمال سر تسلیم اور کمالِ اسلام کا نمونہ وہ ذات عالی ہے جن کا اعلان ہم نے سنا کہ میری ہرچیز اللہ کیلئے ہے اور میں اول المسلمین ہوں۔ہمارے باطن کے کمال، باطن کی اصلاح، باطنی تسلیم، اس کی طہارت وتزکیہ کیلئے اسلام کے باطنی (یعنی ایمانیات واخلاقیات) کے بارے کچھ تحریر کرنے کے بعد اب ہم ظاہری احکام شریعت یعنی عبادات ومعاملات کے بارے کچھ عرض کرتے چلتے ہیں۔ یاد رہے کہ احکام شریعت کی تیسری قسم عبادات کہلاتی ہے۔ شہادت توحید ورسالت کے بعد اسلام کا دوسرا رکن اور عبادات میں اولین رکن نماز ہے جسے شارع علیہ السلام نے ’’عماد الدین ‘‘سے تعبیر فرمایا، کسی شیء کا’’عمود ‘‘یا ’’عماد‘‘ وہ ستون ہے جس پر اس شئ کا مدار ہوتاہے۔ جس کے تزلزل سے اس کی پوری عمارت میں تزلزل ہوتاہو۔
    نماز  غیبیات  کا مظہر:
    دین میں نماز کی اہمیت اورا س کے فضائل سے پہلے ہم اس عظیم رکن کی ہیئت و وضع کے بارے یہ عرض کریں گے کہ نماز اولاً ایمان بالغیب کا مظہر اتم ہے۔
    اولاً:  نمازبندہ مسلم کے دین کا میزان ومقیاس ہے ،آپ نماز کے ارکان میں فکروتامل کریں کہ یہ بندے اور رب کے مابین براہ راست رابطہ اور اظہار تعلق کا عظیم الشان مظہر ہے۔ نمازمؤمن کے باطن کی شہادت حق اور ایمان بالغیب کا عملی مظاہرہ ہے ۔ نمازی اس کا وقت آنے کے بعد تمام مخلوقات سے لا تعلق، جملہ مخلوقات کی عظمت دل سے نکال کر ہاتھ اٹھاکر اللہ کی کبریائی کا پکار کر زبان سے اعلان کرتاہے۔ وہ قلب سے نیت ،ہاتھ سے اشارہ، زبان سے ’’اللہ اکبر ‘‘ بول کر جب اپنی نماز میں داخل ہوتاہے تو لوگ مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ  تمام مخلوقا ت سے کٹ کر اپنے اشغال سے نکل کر، اپنے اقوال، اپنے افعال اور اعمال سے کلی طورپر فارغ ومتفرغ ہوا، اب رب العالمین اور مالک الملک کے دربار میں کھڑا ہے، اس کا احکم الحاکمین کے دربار میں پہنچنا بغیر تکلیف کے ،بغیر تکلف کے، بغیر پروٹوکولز کے مراحل سے گذرے ہوا، پھر نمازی فوراً مالک الملک سے مخاطب ہوتاہے ۔ہاں اس کیلئے صرف اتنا ضروری ہے کہ لباس طاہر ہے، جسم طاہر ہے، رخ اس کا قبلہ طاہرہ کی طرف ہے، اللہ کی پوری سرزمین اس کیلئے مسجد ہے۔ نہ طویل وعریض تکلفات نہ تکالیف مادیہ۔ غور کریں نماز میں نمازی اپنے رب سے ایسے گفتگو کررہاہے جیسے متکلم اپنے حاضر وموجود مخاطب سے ہم کلام ہے۔ خطاب کے الفاظ بول رہا ہے۔ وہ اسی سے تو ’’سبحانک‘‘ سے مخاطب ہے، اسی سے ’’بحمدک‘‘ کہہ رہا ہے، اسی سے ’’ تبارک اسمک‘‘ کہہ رہا ہے۔ اسی کو ’’لا إلٰہ غیرک‘‘ سے پکاررہا ہے۔ ’’إیاک‘‘ سے خصوصی طورپر مخاطب ہے۔
    الغرض نماز ایمان بالغیب کا مظہر اتم ہے جس کا مشاہدہ ہر ایک کرتاہے۔ ہر نمازی جو مرید ہے اور اللہ اس کا رب اسکی مراد ہے ،اپنی اس عظیم عبادت میں وہ اپنے اور دیگر تمام بندوں کے آغاز ومبدأ کے استحضار کے ساتھ داخل ہے،وہ غافل نہیں، نماز میں اسی اللہ کی ربوبیت کا اعلان کررہاہے پھر وہ اس کے بعد اپنی زندگی کے تمام آئندہ کے مراحل اور زندگی کے جملہ مواقف کو سامنے رکھ کر اس اللہ سے صراط مستقیم پر استقامت مانگ رہا ہے ،وہ بات صرف یہاںکی ہی نہیںکررہا بلکہ آگے کی بھی ہے وہ تو ’’یوم الدین‘‘ کے تصور کے ساتھ ہے وہ نماز میں اپنے منتہا کو بھی سامنے رکھے ہوتاہے ۔نماز میں انسان کے مبدأ ،انسان کا منتہا اور ان دونوں کے مابین یہ دنیا کی پوری زندگی میں اسی کے بتائے ہوئے طرزحیات کا نقشہ رسم ہوتاہے ۔لہذا نماز انسان کے اندر کی شہادت کا کامل ترین مظہر ہے۔ ہر موقف پر بندے کی طرف سے حق پر استقامت کے عہد وپیمان کا اعلان ہے۔ اور ان سب امور میں اللہ ہی سے لینے کا، اسی کی معیت کے حصول کا آسان ترین راستہ ہے۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دین کا ستون ہے۔
    گویا دین اسلام کی جملہ عبادات کا اسی پر مدار ہے، نماز کی اقامت میں دین کی اقامت ہے ۔
    پھر قرآن حکیم نے جہاں نماز کا ذکر کیا یا نمازیوں کا ذکر کیا تو انہیں ’’أقیموا‘‘۔ قائم کرو۔ ’’یقیمون‘‘۔ وہ قائم کرتے ہیں۔ ’’والمقیمین الصلاۃ‘‘۔  وہ نماز قائم کرنے والے ہیں۔ کہا ۔
    اقامت صلاۃ میں یعنی اس عمود کی درستگی سارے دین کی درستگی کی کفیل ہے، ضامن ہے۔ مگر تب جب نماز کی اقامت ہو محض رسماً پڑھنا یا اعمال کی بغیر ایمان کے استحضار کے ادائیگی نہ ہو۔ بلکہ قرآن حکیم نے تو نماز پر ایمان کا اطلاق بھی فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
    ’’اللہ تعالیٰ تمہار ے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ۔‘‘
     یہاں پر مراد صحابہ کرام کی وہ نمازیں ہیں جو انہوں نے بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کے حکم سے پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے اداکی تھیں۔ تو لفظ ’’ ایمان ‘‘ کا نماز پر اطلاق بتاتا ہے کہ تمہارے ایمان بالغیب کا مظہر اتم یہ نماز ہے۔ یہ غیبیات کے پورے سلسلے کے استحضار کا مقام ہے۔ نمازی اپنے رب سے اسے آنکھ سے دیکھے بغیر مخاطب ہے۔ وہ اسے بغیر دیکھے اس کی ان دیکھی جہنم سے پناہ طلب کرتاہے{رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ} کی دعاکرتاہے۔ وہ اسے بغیر آنکھ سے دیکھے اس کی ان دیکھے جنت کا طالب ہے اور {وأدخلنا الجنۃ مع الأبرار}۔ سے اپنی طلب پیش کرتاہے۔ وہ اسے بغیر دیکھے اس کی ان دیکھی قیامت کے دن ’’یوم الدین‘‘ کا بار بار ذکر کرتاہے ۔نمازی نماز میں آغاز سے آخر تک ثناسے سلام تک غیبیات  کے عالم میں ہوتاہے ۔
     سورہ فاتحہ میں غیبی امور کا ذکر ہے۔فاتحہ کے بعد قرآن کی جو سورت اختیار کرے گا اس میں غیبی امور (ملائکہ، جنت، جہنم، رسل، کتب، ایام اللہ، اقوام سابقہ کے ساتھ سنت اللہ) اس بات کی دلیل ہے کہ نماز جملہ ایمانیات کا نقطہ ارتکاز ہے۔
    پھر یہی نماز ایمان وکفر کے مابین اسی وجہ سے حدِ فاصل ہے۔ توحید وشرک کے مابین بھی اسی وجہ سے حد فاصل ہے۔ اسی اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    ’’بندے اور کفر کے مابین نماز ہی ہے۔‘‘
    جب غیبیات کا ماننا ہی ایمان وتوحید ہے تو ترک نماز غیبیات سے غفلت نہیں تو اور کیا ہے؟ نماز میں مشغولیت در اصل مشاہدات سے نکل کر غیبیات میں داخل ہوناہے، جس کو مخاطب ہو۔ دیکھتے نہیں ہو مگر بقول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ایسے عبادت کررہے۔ ’’کَأَنَّکَ تَرَاہٗ‘‘۔ ’’گویا اسے دیکھ رہے ہو‘‘۔جو مانگ رہے ہو وہ غیب، جس سے پناہ مانگ رہے ہو وہ بھی غیب، یہ پورا سلسلہ غیبیات ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز حدفاصل ہے بندے کے کفر اور ایمان کے درمیان۔
    نیزفرمایا: یہ حد فاصل ہے بندہ کی توحید اور شرک کے درمیان۔
    اقامت صلاۃ میں مؤمن کے ایمانیات، موحد کی توحید کا اسے ایسا استحضار رہتاہے۔ جس کا مشاہدہ دیگر لوگ بھی کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں: ’’فلاں اس وقت نماز میں ہے‘‘۔ یعنی اب وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی یہی کیفیت امہات المؤمنین بیان فرماتی ہیں کہ وہ بحالتِ نماز ایسے ہوتے ہیں جیسے ہمارے اندر نہیں ہیں۔
    سلف صالحین کی نماز وں کی بھی یہی کیفیت سیرت کی کتب میں مذکور ہے۔ نمازی کو یہ شعور ہوتاہے کہ وہ کس سے کٹ کر کس سے مربوط ہوا؟ وہ کس ذات کے حضور کھڑا ہے۔ جس مالک الملک اورخالق کون، قادر مطلق سے مخصوص الفاظ سے نمازی مخاطب ہوتاہے، وہ ان کے مفہوم ومطالب سے بھی آشنا اور واقف ہے۔
    ایسی اقامت صلاۃ دین کا عمود ہے وہ خود مضبوط ہے۔ ایک وزن والی ہے۔ قوت والی نماز ہے۔ شخصیت پر اثر کرنے والی نماز ہے۔ اس لئے کہاگیا کہ: { إِنَّ  الصَّلَاۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ}’’ یہ نماز اسے بے حیائی اور برائی سے روکنے والی ہے‘‘۔ یہی اس کے دین کی قوت واستقامت کا بھی باعث ہے، یہ تو نماز کے ایمان کا مظہر ہونے کے متعلق عرض ہے ۔
    نماز کے بارے دوسرا یہ امر کہ وہ معیار ہے،وہ میزان ومقیاس ہے بندۂ مؤمن کے ایمان کا اور اس کے دین کو جانچنے کا کہ نماز درست تو اس کا دین درست، اگر اس میں خلل تو دین میں نقص۔ نما ز کی اس حیثیت کا ادراک بھی ضروری امر ہے تاکہ نماز کا نمازی کی سیرت وکردار پر کنٹرول رہے۔ نماز کی محافظت اور اس کی اقامت سے بندے کے دین کی محافظت رہے، اسی لئے دین میں اقامت صلاۃ مطلوب ہے، محض ایسی نماز نہیں جو رسماً  چند عادات کو یا اعمال کو پورا کرنا ہوکہ نہ نمازی کو اول تا آخر کوئی شعور، نہ جو کہہ رہا ہے اس کا ادراک، نہ جو کررہاہے اس میں کسی کا استحضار نہ کوئی روحانی کیفیت حاصل، نہ وہ یہ جانتا ہو کہ کس سے لا تعلق ہوا؟ کس سے نماز میں رابطہ ہوا؟ وہ کس سے مخاطب ہے؟ کیا کہہ رہا ہے؟ کیا قول وقرار کررہاہے؟ کیا عہد وپیمان دے رہا ہے؟ جب ارکان کی ادائیگی درست نہیں، دل کا قبلہ درست نہیں، اہتمام نہیں، یہ کوتاہ، سست، کمزور، روح سے خالی صرف ظاہری صورت، باطنی اخلاص سے خالی محض ظاہری عمل بغیر استحضار کے ایسی غفلت والی نماز، اس کے بارے میں قرآن نے فرمایا: ’’ہلاکت ان نمازیوں کیلئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں‘‘، ’’جو ریا کار ہیں‘‘۔ ایسے لوگوں کی حالتِ نماز یوں ہے کہ{وإِذَا قَامُوا إلی الصَّلاۃِ قَامُوا کُسَالٰی}   ’’جب نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو سست کھڑے ہوتے ہیں‘‘۔ یعنی شعور نہیں، ادراک نہیں، استحضار نہیں، ان امور کا جن امور کا ہم نے نماز ی کی نماز کے لئے ذکر کیا ہے ۔
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ:نماز کی حیثیت سمجھیں کہ اولاً: وہ ایمان بالغیب کا مظہر اتم ہے۔
    ثانیاً:  وہ دین کیلئے مقیاس ومعیار ہے ۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو جب دین کا عمود فرمایا تو یہ بھی فرمایا کہ اس کو گرانے والا دین کو گرانے والا ہے۔ ہماری نماز اگر ایمان بالغیب کا مظہر اتم نہیں اور اس کی ہماری عملی زندگی کی اصلاح میں قوت تاثیر نہیں تو نماز کے اس ضعف سے یقینا ہمارے دین میں خلل اور نقص واقع ہوگا۔
    نماز کو اسلام کے ارکان کے بیان میں اولین حیثیت اس وجہ سے حاصل ہوئی ہے کہ یہ خالق کی معرفت، خالق کی نعمتوں کا شکر اور بطور بندہ خالق کے حق ِ عبودیت کے قیام کی آسان ترین روز مرہ کئی بار پریکٹس (یعنی عملی اظہار) ہے جسکا خود کرنے والا اور دیگر بندے مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ یہ نماز تو دیگر لوگوں کو معبود برحق کے اعتراف کی عملی دعوت بھی ہے۔ نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرنے کا حکم کیوں ہے؟ نماز سے قبل اذان کا حکم کیوں ہے؟ یہ مؤمن کو بیداررکھتی ہے۔ اس کے ماحول کو روحانی بناتی ہے۔ فضا کو معطر ومطہر بناتی ہے۔ وضو سے گناہوں کا معاف ہونا، جسم کے ساتھ ساتھ خطاؤں کا دھلنا، اذان سے ابلیس لعین کا بھاگنا، نماز ہی کی خاطر وضوہے، کپڑوں کی طہارت جسم کی طہارت ہے، دلوں کی طہارت ہے، قلب کا اخلاص ہے، قالب کی استقامت ہے۔ وضو سے، اذان سے، مساجد میں جماعت سے، اقامت سے، پھر ایک بار نہیں ایک ہی دن میں پانچ بار ،پھر ہفتہ وار بڑا  جمعہ کا اجتماع ہے۔ وہ بھی نماز ہے۔ اس پورے سلسلے کی فضیلت، وضو کی فضیلت، اذان کی فضیلت، امامت کی فضیلت، مساجد بنانے کی فضیلت، یہ پورے کے پورے سلسلے اس رکن عظیم کی خدمت میں ہیں۔
    جس قدر اقامت صلاۃ میں ہمارے اندر ایسا شعور وجدان پیدا ہوگا ہمارا قلب وقالب اللہ کی طرف متوجہ ہوگااسی بقدر یہ نماز کامل ہوگی ۔ہمارا دین کامل ہوگا ۔ پھر فائدہ بھی کامل، جس قدر اس میں غفلت اس قدر نما ز کے اجر میں کمی ،منافع میں کمی ،فوائد میں کمی۔
مزید پڑھیں:- - - - -محرم الحرام ، تاریخ کے آئینے میں

شیئر: