Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”غربت ایجاد کی ما ں ہے“

جس انسان کو دو وقت کی رو ٹی کی فکر ہو ،اسے کیا خبر قا نون کی
تسنیم امجد ۔ریا ض
ٹرا نسپورٹ کو ملکی و غیر ملکی ،انفرا دی و اجتما عی سطح پر بے انتہا ءاہمیت حا صل ہے ۔ملکی معیشت و معا شرتی خو شحالی کا انحصار اسی پر ہے ۔ دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر یقینا قا نون شکنی کی غماز ہے جسے عوام خود بھی جا نتے ہیںلیکن ان کی مجبو ر یا ں انہیں” اوو ر لو ڈنگ “کرنے پر مجبور کر تی ہیں۔ہمارے عوام حو صلہ مندی سے اپنے حالات کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔حال ہی میں ہم نے ایک ڈرا ئیور سے سوال کیا کہ یہ اتنی زیادہ اوور لو ڈنگ کیسے کرتے ہو ؟وہ کہنے لگا کہ اس کام کے دوران تو میں خود کئی بار گرتا ہو ں۔میرا بیٹا تو اس قدر ز خمی ہوا کہ اسے اسپتال لے کر جا نا پڑا ۔کیا کریں ۔سو چتے ہیں کہ ایک ہی پھیرے میں زیادہ سے زیا دہ پہنچا دیں ۔وقت کے سا تھ ساتھ ایندھن بھی بچے گا۔ رو ٹی کے سا تھ اور بھی ضرو ریاتِ زندگی ہیں ۔ہم تو جی خود بھی تھک چکے ہیں اس مز دوری سے ۔کیا کریں یو ں لگتا ہے ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے کہ بس پیٹ کی آ گ بجھا نے میں وقت گزار دیں ۔اس کے چہرے کی بے بسی پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ:
مفلسی حسِ لطا فت کو مٹا دیتی ہے
بھو ک آ داب کے سا نچو ں میں نہیں ڈھل سکتی
یہ حقیقت ہے کہ جس انسان کو دو وقت کی رو ٹی کی فکر ہو گی ،اسے کیا خبر قا نون کی ۔استطا عت سے بڑھ کر سفید پو شی کا بھرم رکھنا آسان نہیں۔ان حالات میں عقل بھی سا تھ چھو ڑ دیتی ہے ۔منی ٹرک بھی آ ئے دن ور کشاپ لے جا نے پڑتے ہیں۔مشینری بھی بے بس ہو جا تی ہے ۔اس طر ح ان کی بچت کہا ں ہو تی ہے، سب اسے ٹھیک کرانے میں لگ جا تی ہے ۔قا نون کی عملداری حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بد قسمتی سے اس پر تو جہ نہیں دی جا تی ۔قا نون کے رکھوالے بھی آ نکھیں مو ند لیتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں بھی اپنی ضروریات پو ری کرنی ہیں۔تنخوا ہیںاتنی کم ہیںکہ بغیر کچھ لئے گزا رہ مشکل ہے ۔ہمارے بچے ہمارا منہ دیکھتے ہیں ۔ان کی ضروریات سے آ نکھیں کیسے پھیر لیں۔
ہمیں اپنے معا شرتی رحجان کو دیکھ کر تکلیف ہو تی ہے ۔مسا بقتی دوڑ نے قنا عت چھین لی ہے ۔مذ ہب سے دوری بھی ان حالات کی بڑی وجہ ہے ۔ایک ٹرالی ڈرا ئیور نے بتا یا کہ وہ اور اس کے سا تھی اپنے اپنے حصے کی ر قوم اکٹھی کر کے ایک ساتھ پو لیس والے کو دیتے ہیں۔ اس طر ح اس کی طرف سے تسلی دے دی جا تی ہے ۔اکثر تو ہمیں کچھ اور بھی بڑی پیشکشیں ہو جا تی ہے ۔کچھ لوگ ہمیں ان گٹھروں کے نیچے چھپا کر مال بھی پہچانے کا کہتے ہیں۔اس طر ح ان کا بھی کام ہو جا تا ہے اور ہمارا بھی ۔کہتے ہیں کہ” ضرورت ایجاد کی ما ں ہے“ لیکن ہم تو یہ کہیں گے کہ ” غر بت، ایجاد کی ما ں ہے“۔ کیا ہم غریبو ں کو خوشیاں دیکھنے کا شوق نہیں؟کیا ہمارے اور ہمارے بیوی بچو ں کے جذبات و احساسات نہیں ہو تے ؟
یہ اوور لو ڈنگ یقیناحا د ثات کا با عث بنتی ہے،چا لان ہو تے ہیں، جر ما نے ہو تے ہیں اور اسی طر ح چھو ٹ چھٹا ئی بھی ہو جا تی ہے۔ ایک اندازے کے مطا بق 80 فیصدروڈ ایکسیڈنٹ ہو نے کی وجہ یہی غیر قانونی حرکات ہیں ۔ایسی ٹریفک کے لئے الگ را ستے یعنی روٹ ہو نے چا ہئیںتاکہ کچھ بچت ہو سکے ۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں قا نو ن پر عملدرآمد کا اندازہ وہا ں کی سڑ کو ں پر دو ڑ تی ٹریفک سے لگا یا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہا ں ٹریفک کے قوا نین کا ا حترام تقریباًناپید ہو چکا ہے ۔ٹا نگے ،چنچنیا ں ،رکشے ،سا ئیکل ،مو ٹر سا ئیکل،اونٹو ں و گد ھو ں کی قطاریں،چھو ٹی بڑی گا ڑیو ںکی ایک دو سرے سے با زی لے جا نے کیلئے دو ڑ بھی کیا کمال ہے ۔بے شعور بچے بھی بغیر لائسنس کے گا ڑ یا ں لئے پھرتے ہیں۔انہیں ٹریفک قوا نین کا بھی کو ئی شعور نہیں ۔ان کے وا لدین کسی نہ کسی طر ح پو لیس وا لو ں سے تعلق بنا لیتے ہیں۔بچو ں کو اس کا علم ہو تا ہے اس لئے دند نا تے پھرتے ہیں۔تیز رفتاری میں اپنی یا کسی کی جا ن جا تی ہے تو جا ئے ،کو ئی پر وا نہیں۔زند گی کا ارزاں ہو نا تو کو ئی یہا ں دیکھے ۔ کسی کا گھر بر باد ہو تو ہو ۔ہمیں بھی تو جلدی تھی، کیا کرتے؟ حادثات کے مر تکب ڈرا ئیوروں کو سزا دینے کا عمل اس قدر طویل اور صبر آ زما ہو تا ہے کہ انہیں بچ نکلنے کا یقین ہو جا تا ہے ۔
یہا ں یاد آ یا کہ اوور لو ڈ نگ کے ہم خود بھی عادی ہو چکے ہیں ۔اسکول وین میں بچو ں کا بے انداز بھرنا ہمیں برا نہیں لگتا ۔بچے بے چارے گھر واپسی پر شکا یت کرتے ہیں کہ ہمارا دم گھٹتا ہے لیکن ہم انہیں یہ کہہ کر خا موش کرا دیتے ہیں کہ بیٹا ہمارے پاس ا سکول لانے لے جا نے کا وقت نہیں ۔ماضی قریب میں ہی ایک دلچسپ خبر سنی تھی کہ کرا چی میں ایک کار میں ”19“خوا تین نے بیٹھ کر ور لڈ ریکا رڈ قائم کیا ۔یہ ہماری عملی انتہا پسندی ہے ۔
وطن میں حا لیہ تبدیلی کا او نٹ اب دیکھتے ہیں کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔کام بہت ہے اور وقت کم ۔عوام جلد سے جلدتبدیلیو ں کے منتظر ہیں جبکہ اس کے لئے وقت درکا ر ہے کیو نکہ 70 سال کی جمی ہو ئی میل کو کھر چنا آ سان نہیں۔حز بِ مخا لف تو آ ج بھی مخالفت اور سب ٹھیک ہے کا وتیرہ اپنا ئے ہو ئے ہے ۔عوام کی محرو میا ں انہیں بے بس کئے ہو ئے ہیں ۔کر پشن کی تشخیص تو ہو چکی اب علاج میں کچھ وقت درکار ہے۔
کسی ملک کی تر قی کا اندازہ اس کی فی کس آ مدنی سے لگا یا جا تا ہے ۔پا کستان میں یہ تقریباََ 540امریکی ڈالر ہے جبکہ تر قی یا فتہ ممالک میں یہ تقریباََ 18000ہے ۔اس کی وجہ غیر منا سب معا شی پا لیسیا ں ،وسا ئل کی نا قدری اورآ با دی میں تیزی سے اضا فہ ہے ۔
ہم مغرب کی نقالی میں پیچھے نہیں رہتے لیکن ان کے کچھ خا ص کام نہیں اپنا تے ۔وہاں عوام کو ٹریفک قوا نین کا ا حساس دلانا پو لیس کی ذمہ داری ہے ۔ڈی میر ٹ سسٹم کو اپنا یا جا تا ہے ۔اس کے تحت قوا نین تو ڑنے والے کے ڈی میرٹ پوا ئنٹس میں ا ضا فہ ہو تا چلاجا تا ہے اور ایک خا ص نمبر پر پہنچ کر اسے نا اہل قرار دیتے ہو ئے لا ئسنس منسو خ کر دیا جا تا ہے ۔اب وہ ڈرا ئیونگ تر بیت کا پا بند ہو جا تا ہے ۔یہ ایک لمبا اور مشکل عمل ہو تا ہے ۔
یو ر پین ٹرا نسپورٹ سیفٹی کو نسل کا کہنا ہے کہ یہ سسٹم ٹریفک کو بہتر کرنے میں نہا یت سود مند ثابت ہوا ہے ۔وطن میں اسی قسم کا نظام ہو تو یقینا سارے کا سارا نظام ہی صحیح ہو جا ئے ۔امید کی جا تی ہے کہ اب آ نے وا لی تبدیلی کی ہوا سے نتا ئج بہتر ہو ں گے ۔کر تا دھرتابھی خود کو عوام کی سطح پر لے آ ئے ہیں ۔قا نو نی مسا وات را ئج تو ہو چکی ہے ۔اللہ کریم ایسا کرے کہ نتا ئج کاقو س قزاح اپنے رنگ جلد دکھا ئے۔ہمیں اس مرحلے پر بے ا ختیاریہ شعریاد آ گیا:
 چاندنی کس کے تبسم کی در آ ئی اس میں
 زندگی پیار کے قا بل کبھی ایسی تو نہ تھی
یہ تو سبھی جا نتے ہیں کہ افراد سے قو میں بنتی ہیں۔انفرادی طور پر ہمیں اپنی ا صلا ح کی بہت ضرورت ہے ۔خا نگی زندگی سے لے کر معا شرتی زندگی تک ،خو بصورت اسلوب کی منتظر ہے ۔ وطن سے محبت ایمان کی دلیل ہے اور ہمیں اس کو ثا بت کر نا ہے ۔

شیئر: