Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جہاں رہے وطن کی یاد آئی ، زیب النساءمیمن

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے شوہر نے میرے کسی کام میں کوئی تاخیر کی ہو،ہوا کے دوش پر گفتگو
زینت شکیل۔جدہ
مالک الملک اپنے ہر بندے کے دل کا حال جانتا ہے ۔ خالص نیت سے کیا جانے والا عمل مقبول ہے۔ ہر کام خلوص نیت سے کرنا چاہئے ۔روز مرہ کے معاملات میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں جو انسان کے درجات بڑھانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔عام لوگ اپنی چھوٹی چھوٹی بچت کے ذریعے مال کو جمع کرتے ہیں تو ایک یا دو دہائی میں ایک بڑی رقم کے مالک بن جاتے ہیں اور اپنی ذہانت پر مسرور بھی ہوتے ہیں کہ ہم نے پہلے ہی نوجوانی میں یہ سمجھداری کا کام کیا تو آج ایک بڑی رقم کے مالک بن گئے۔ بڑھاپے میں یہ ہمارے کام آئے گا اس میں کچھ حرج نہیں۔
اس مثال کو سامنے رکھیں تو یہ بات جاننا بھی آسان ہوجائے گاکہ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں جمع کرتے جائیں توہم اپنے اکاﺅنٹ میں اعمال صالح کاایک بڑا ذخیرہ کرلیں گے جو ہمارے کام آئے گا ۔ یہ فرمادیاگیا ہے کہ جو لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے مالک حقیقی قیامت کے دن اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
” ہوا کے دوش پر“ اس ہفتے ہماری گفتگو اس موضوع پر ڈاکٹر فضل الرحمان میمن اور انکی اہلیہ محترمہ زیب النسا میمن سے ہوئی۔ میمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی زیب النسا اپنے خاندان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے ماسٹرز تک کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انکے والد محترم محمد عمر کواپنی صاحبزادی کو تعلیم دلانے کے بہت شائق تھے۔ انہوں نے ہمیشہ تعلیم کی افادیت پر زور دیا۔ اسی طرح انکی والدہ صاحبہ بھی اپنی بیٹی کی تعلیم کی خواہش رکھتی تھیں ۔ان کو گھر پر تعلیم کے حصول پر تعریفی کلمات سے نوازا جاتا جو انکا حوصلہ بڑھاتے گئے۔
زیب النسا میمن نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول ،جھڈو ،تھرپارکر ڈسٹرکٹ سے حاصل کی جبکہ میٹرک سیکنڈری ہائی اسکول ڈیپلو سے کیا۔ صوبہ سندھ سے آرٹس گروپ میں ان کی سیکنڈ پوزیشن آئی۔ روٹری کلب میرپور خاص سے گولڈ میڈل ملا۔میٹرک کے بعد انہوں نے جھڈو کے گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول میں 1973ءمیں جاب شروع کی ۔ساتھ ہی اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محترمہ زیب النسا میمن نے تھرپارکر سے پانچویں جماعت کا اسکالر شپ امتحان فرسٹ پوزیشن میںپاس کیا۔ آٹھویں جماعت کا اسکالر شپ امتحان سیکنڈ پوزیشن سے پاس کیا۔ اس طرح وہ میٹرک تک اسکالر شپ لیتی رہیں۔ یہ ان کے لئے بڑا اعزاز تھا۔ اس کے بعد پرائیویٹ تعلیم حاصل کی۔ پہلے انٹر اور بی اے فرسٹ کلاس میں کیاپھر پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز بھی فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ انہوں نے اپنی جاب کے دوران اپنے گھر میں ان لڑکیوں کو مفت ٹیوشن دی جنہیں انکے گھر پر پڑھانے والا کوئی نہیں تھا۔
اسے بھی پڑھئے:عورت کی اولین ترجیح گھر اور بچوں کی تربیت ہونی چاہئے، تنویر طارق
زیب انسا صاحبہ کی شادی اپریل1982ءمیں ان کے ماموں زاد ڈاکٹر فضل الرحمان سے ہوئی، چونکہ ان کے ماموں کی فیملی حیدرآباد میںرہائش پذیر تھی اس لئے بارات دولہا کو لے کر جھڈو پہنچی اور دلہن کو رخصتی کے بعد ساتھ لے کر 6گھنٹے کا سفر طے کر کے حیدرآباد پہنچے ۔ سسرال جو انکے ماموں کا گھر ہی تھا، وہاں رسمیں ہوئیں۔ خاندان والوںکے بقول یہ ایک یادگار شادی تھی جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی تھی۔ 
حیدرآباد کا نیا گھر اس موقع پر مکمل ہوا تھا اور دلہن کوجھڈوسے وہیںلایا گیاتھا۔ سب نے شادی کے ساتھ نئے بنگلے کی مبارکباد بھی دی بعد ازاں ان کی تقریب ولیمہ عباس بھائی پارک میںہوئی ۔ اس موقع پر موسیقی کی محفل بھی سجائی گئی اور حاضرین میوزیکل گروپ کی کارکردگی سے محظوظ ہوئے۔
ماموں کے گھر میں کوئی اجنبیت نہیں تھی لیکن ایک نئی زندگی کی شروعات بذات خودبھاری ذمہ داری ہوتی ہے۔ خاندان بھر کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ نئی جگہ نئے ماحول میں گھر سنبھالنا ،پڑوسیوں سے، رشتہ داروں سے میل جول رکھنا، یہ سب کچھ ذمہ داری بڑھاتا گیا ۔
خاندان بھر کی جانب سے دعوتوں کا سلسلہ رہا لیکن گھر کی دیکھ بھا ل کی ذمہ داری کااحساس ہوا۔1983ءمیں بڑی بیٹی فاطمہ زہرہ نے زندگی کو مصروف کردیا پھر1985ءمیں دوسری بیٹی ”شفا“ نے گھر کی رونق میں اور اضافہ کیا۔ دونوں ننھی پریاں ”جڑواں“ ہی لگتی تھیں۔رنگین کپڑے اوران کے رنگ برنگے سامان کی شاپنگ ہوتی اور اس وقت سے یہی شوق آج بھی برقرار ہے کہ کلر فل کپڑے اور جیولری پسند ہے۔ان کے بعد 1989ءمیں صاحبزادے عباس رحمان کی آمد ہوئی اور 1991ءمیں سب سے چھوٹی بیٹی اس دنیا میں آئی جو میری سہیلی بھی ہے ۔
طائف کے کنگ فیصل اسپتال میں ڈاکٹر فضل الرحمان کی پوسٹنگ ہوئی، فیملی ویزا ملا اوریوں میں نے اپنی زندگی کا پہلا سفر اگست 1989ءمیں کیا ۔ الحمد للہ،پوری فیملی کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کا شرف حاصل ہوا ۔طائف میں ہم 3سال رہے۔1990ءمیں فریضہ حج ادا کیا۔ یہ سعادت ہمیں حاصل ہوئی ، اس پرہم مالک حقیقی کا جتنا بھی شکر اداکریں ،کم ہے۔ ہم جب تک طائف میں رہے ،ہر ہفتے مکہ مکرمہ جاتے تھے اور ہر مہینے عمرہ ادا کرتے تھے۔ ہر دوسرے مہینے مدینہ منورہ زیارت کے لئے جاتے تھے۔ 
ڈاکٹر فضل الرحمان جب انگلینڈ گئے تو وہاں بھی رہناہوا۔ لوگوں سے ملاقات ہو ئی لیکن یقین جانئے اپنے ملک کی ہر چیز پسندیدہ ہے ۔ہم جہاں رہے، اپنے ملک کی یاد آئی۔ اب کئی سالوں سے حیدرآباد میں ہی رہ رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب مختلف ملکوں میں سیمینار یا کانفرنس میں شرکت کے لئے جاتے ہیں، اس طرح کئی ممالک گھومنے کا موقع ملا۔ بچوں کی پڑھائی جاری رہی۔بڑی بیٹی نے جب اپنی ڈگری حاصل کی تو اس کا انٹرویو ہوا جس میں اس نے کہا کہ میری ماںنے ایک سندھی اسکول سے تعلیم حاصل کی لیکن ہم جو انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتے تھے،ہمیں ہماری ماں نے خود پڑھایا۔ کبھی ٹیوشن کے لئے نہیں بھیجا۔ یہ انٹرویو مقامی جریدے میں شائع ہوا۔
محترمہ زیب ا لنسا ءنے اپنے چاروں بچوں کی بابت بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی طرح سب ہی ذہین اور محنت کرنے والے ہیں۔ گھر پر پڑھائی کا ماحول رہا۔ سب نے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔اپنے رشتہ داروںمیں ہی انکے رشتے ہوئے ۔ یہ بات بڑی خوشی کا باعث ہے ۔
زیب النساءنے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ لوگوں کو اچھے مشورے دیتی ہیں ۔ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے وہ گویا ہوئیں کہ میں اکثر اپنی ماں کو دیکھتی تھی کہ محلے کی خواتین جب ان سے اپنی کوئی پریشانی بیان کرتیں اور مشورہ طلب کرتیں تو ماں ان کے مسائل حل کرتیں اور انکی بات کا کسی دوسرے وقت کسی سے بھی ذکرتک نہیں کرتی تھیں۔ہر ایک کی بات صرف صاحب معاملہ سے ہی کرتی تھیں اور آج جب میں اپنی اس عادت کو دیکھتی ہوں کہ جو کوئی بھی مجھ سے اپنے مسئلے کو میرے ساتھ شیئر کرے تو میں اپنی ماں کی طرح ہی جو ہوسکتا ہے، مشورہ دینے کی کوشش کرتی ہوں اور ان کی طرح کسی کی بات کو کسی تک نہیں پہنچاتی بلکہ ان کی بات کو امانت سمجھتی ہوں اور اپنی حد تک رکھتی ہوں کہ کسی کی بات بھی بلا شبہ امانت ہوتی ہے ،اس میں خیانت نہیں ہونی چاہئے۔ بچپن میں ہی ہم نے سیکھا کہ جو لوگوں کی پردہ پوشی کرتا ہے، مالک حقیقی اس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ 
ادب پر بات ہوئی توزیب النساءنے بتایا کہ میں نے کئی کہانیاں سندھی زبان میں لکھی ہیں جو مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس مقولے پر کہ لڑکیا ں پرائی ہوتی ہیں، والدین کے گھر سے اپنے شوہر کے گھر چلی جاتی ہیں ، میں نے ایک کہانی اپنی بیٹی کی شادی کے بعد لکھی کہ لڑکیا ں ہمیشہ اپنی ماں کے پاس موجود ہوتی ہیں ۔ماں کے گھر ان کی ہر ہر یاد موجود ہوتی ہے ۔وہ دور دراز رہ کر بھی غافل نہیں رہتیں۔ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے پاس ہیں ۔انہیں ہماری فکر ہے۔ لوگوں نے اس کہانی کو بے حد پسند کیا۔ 
دوسری کہانی ایک ایسے گھر کی لکھی کہ جہاں ہر کام کے لئے نوکر چاکر موجودتھے ۔ایک بار گھر کے سربراہ نے اس گھر کی خاتون سے استفسار کیا کہ جب ہر کام نوکر کرتا ہے تو وہ سارا دن کیا کرتی ہیں؟ وہ کہانی بھی خوب پسند کی گئی کہ جب کہانی کا کردار ”چھوٹو“کئی ماہ کے لئے گھر سے دور چلا گیا تو گھر پر سب نوکروں کی موجودگی میں بے ترتیبی نظر آتی۔کوئی کام وقت پر نہ ہوتا۔ پھر انہوں نے سمجھاکہ ”چھوٹو“ کا کردار جو علامتی تھا،گھر کو گھر بنائے رکھنے میں وہی سب سے اہم کردار تھا۔ 
زیب النساءصاحبہ اپنے شوہر کے بارے میں کہتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب زیادہ باتیں نہیں کرتے لیکن ہر کام میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہمارے ڈیپلو میں جب کالج نہیں تھا تو میں ماموں کے گھر حیدرآباد جاکر امتحان دیتی تھی ۔منگنی ہو چکی تھی، ایک ہی گاڑی میں ساتھ سفر کرتے
 لیکن زیادہ بات چیت نہیں ہوتی تھی ۔ڈرائیور مجھے کالج ڈراپ کرتا پھر ڈاکٹر صاحب اپنے اسپتال چلے جاتے۔ کبھی شاپنگ پر جانا ہوتا ہم ساتھ ہوتے۔ سب خواتین کو شاپنگ سینٹر ڈراپ کرتے اور خود اپنے کام سے چلے جاتے تھے لیکن انہیں جتنا بھی کام ہوتا ،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے کام میں کوئی تاخیر ہوئی ہو۔وہی طرز عمل آج بھی ہے۔ میرے ہر کام کو اپنی مصروفیت میں شامل کر لیتے ہیں اس لئے کبھی کسی بحث مباحثے کی نوبت ہی نہیںآتی ۔
میں کئی رفاہی اداروںکی ممبر ہوں۔ اپنے علاقے کے لیڈیز کلب کی رکن بھی ہوں جہاں ہر ممبر ایک فعال کردار ادا کر رہی ہیں کہ علاقے کے رہاشی اسکول اور دوسرے مسائل حل کئے جائیں۔ 
ڈاکٹر صاحب اپنی بیگم کے لئے تشکر کے جذبات رکھتے ہیں کہ زیب صاحبہ اپنے والدین کی فرمانبردار بیٹی، اپنے ماموں کی چہیتی اور سسرال بھر کی ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتیں۔ بچوں کا اتنا خیال رکھتی ہیں کہ انہوں نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود جاب سے زیادہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی ۔میں تو زیادہ وقت مصروف رہتا ہوں۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ مختلف علاقوں میں جہاں پانی کی کمی کا سامنا ہے، میری اہلیہ نے کئی واٹر پمپ لگائے اور لوگ بھی ایسے کاموں میں شامل رہتے ہیں۔پانی کی قلت شاید آج کا سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے ۔
 

شیئر: