Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوگی؟

***احمد آزاد۔فیصل آباد***
سعودی عرب کی شکل میں اک ایسا برادر ملک موجود ہے جو پاکستان کے بڑے بھائی کا کردارنبھارہا ہے ۔جتنی قدیم پاکستان کی تاریخ ہے، اتنا قدیم ہی یہ رشتہ ہے ۔پاکستانیوں کی بھی سعودی عرب سے دوستی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔سعودی عرب میں مسلم امہ کی امیدوں اور محبتوں کے محور موجودہیں ۔سعودی عرب اس لیے بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کو پیارا ہے کہ وہاں حرمِ مکی و مدنی ہیں جوہم سب کو جہاں بھر سے پیارے ہیں ۔یہی بات ہے کہ جب بھی سعودی عرب کے حوالے سے کوئی تشویشناک بات سامنے آتی ہے تو مسلمانان پاکستان کی نظریں ہمہ وقت ادھر ہی جمی رہتی ہیں کہ حالات کس طرف جارہے ہیں ۔پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد کی صورتحال ہویاپھر اس سے قبل لگائی گئی پابندیاں، یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے بغیر کسی پیشگی معاہدے کے برادرملک ہونے کاثبوت فراہم کرتے ہوئے اپنے تیل کے ذخائر پاکستان کو دینے شروع کردئیے ۔مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب کا موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔سعودی عرب کھلے عام پاکستانی موقف کی حمایت کرتا ہے ۔1965ء کی جنگ میں بھی سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کی مدد کی گئی ۔اسلام آباد میں اپنی مثال آپ مرکزی جامع مسجد فیصل کے اخراجات شاہ فیصل مرحوم نے اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔1967ء میں ہوئے معاہدے کے بعد سے آج تک سعودی افواج کو تربیت فراہم کرنے کی ذمہ داری پاکستان کے پاس ہے ۔1971ء میں ہوے سانحہ عظیم کے بعد پاکستان کے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے بعد بھی سعودی عرب نے بنگلہ دیش کو الگ ملک تسلیم نہیں کیا ۔ یہ سعودی فرماں رواںشاہ فیصل کی پاکستان سے لازوال محبت کی اچھوتی مثال تھی جسے آج تک اہلیان پاکستان یاد رکھے ہوئے ہیں ۔میرے شہر لائل پور کا نام بھی سعودی فرماں رواںشاہ فیصل کے نام پر ’’فیصل آباد‘‘کہلاتا ہے ۔کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ کا نام شاہراہ فیصل کہلاتی ہے ۔قصہ مختصر سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی اور بھائی چارے کی فضاء ایسی ہے کہ دوملک (جسم)یکجان قالب ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت کو خزانہ خالی ملتا ہے اور وہ پہلے سال کے شروع میں ہی تگ ودو کرنا شروع کردیتی ہے کہ کسی جگہ سے قرض مل جائے اور عموماًآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شکل میں ہمیں قرضہ سخت شرائط کے ساتھ مل جاتا تھا جس سے کچھ ماہ امن وسکون سے گزرجاتااورپھر ماضی میں لیے گئے قرضوں کی اقساط واپس کرنے کے لالے پڑجاتے ہیں ۔تحریک انصاف کی حکومت کو بھی یہی حالت درپیش ہے۔گردشی قرضوں میں اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے اثرات روپے کی قدر پر منفی طورپر مرتب ہوئے جس سے ڈالر کی اڑان اوپر سے اوپر ہوتی گئی ۔اسی معاشی صورتحال اور سرمایہ کاروں میں پھیلتی مایوسی نے اسٹاک مارکیٹ کو مسلسل مندی کی جانب گامزن رکھا۔وزیراعظم پاکستان نے پہلے تو کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن ملکی معاشی صورتحال کی بتدریج ہوتی خوفناک گراوٹ نے حکوت کو مجبور کیا کہ وہ جلد سے جلد کوئی معاشی منصوبہ سامنے لائیں جس سے ملکی معیشت کو سنبھالا مل سکے۔وزیراعظم کے پہلے دورہ سعودی عرب سے بھی اگرچہ بھرپور امیدیں وابستہ کی گئیں اور حکومتی اطلاعات کے مطابق سرمایہ کاروں نے امیدوں کا معیار کافی بلند رکھا لیکن وہ اس حوالے سے کامیاب نہ ہوسکالیکن ودسرے دورہ سعودی عرب میں امیدافزاء اور اچھی خاصی سرمایہ کاری ملک میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔3ارب ڈالر کی فراہمی کے ساتھ 3سال کی موخرادائیگیوں پر3ارب ڈالر کا خام تیل فراہم کیے جانے کی حوصلہ افزاء خبروں نے سرمایہ کاروں کی امیدوں کو جلابخشی ہے ۔عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں بنفس نفیس وزیراعظم پاکستان کا شریک ہونا اور خطاب کرنا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔خطاب کے بعد سوالات و جوابات والے سیشن میں جس طرح سے وزیراعظم پاکستان نے پراعتماد لب و لہجے سے جوابات دئیے، اس سے پاکستانیوں کو مسرت و حوصلہ ملا ہے ۔ایک طرح سے وزیراعظم پاکستان نے مارکیٹنگ کے رحجانات کو سمجھتے ہوئے بہترین سفارتکاری کے جوہر دکھلائے ہیں جو آنے والے دنوں میں سرمایہ کاروں کو پاکستان کی جانب کھینچنے کاسبب بنے گا ۔عالمی سرمایہ کار کانفرنس میں جس طرح سے دنیابھر کے سرمایہ کار کمپنیوں نے ریاض میں اس کانفرنس میں شرکت کی وہ شہزادہ محمد بن سلمان کی ذات اور شخصیت پر اعتماد کا اظہار تھا ۔پاکستانی ا سٹاک مارکیٹ میں مثبت رحجان دیکھنے کو ملا اور ڈالر 2روپے تک سستا ہوا۔سعودی عرب کی جانب سے 3سال کے لیے ادھار پٹرول کی جو سہولت دی گئی ہے اس میں پہلے سال خام تیل کی فراہمی کے بعد ادائیگی کی جائے گی اور پھر اگلے سال کا خام تیل مہیا کیا جائے گا ۔اس کے بعد ایک اور حوصلہ افزاء خبر جو کہ اسی دورہ سے جڑی ہوئی ہے ،وہ ویزہ فیس میں کمی کی صورت میں ملی ہے جس سے سعودی عرب میں پاکستانی ورکروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔اس مالی ریلیف کے بعد اگرچہ ہمیں خاطرخواہ فائدہ ہوا ہے لیکن آئی ایم ایف کے پاس بہرحال جانا پڑے گا ۔چین کی یاترا کا بھی پروگرام بن چکاہے جس سے خاطر خواہ فائدہ ہوسکتا ہے اور برادر ملک سعودی عرب کی طرح دوست ملک چین بھی مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا نظرآتا ہے ۔پھر آئی ایم ایف کے پاس جانے کی صورت میں اگرچہ ان کی شرائط کافی سخت ہوں گی لیکن اقساط مع سود کم ہوجائیگا اور ان کی طرف سے مہنگائی کا طوفان آنے والا ذرا کم آئے گا جس سے پاکستانی عوام کو خاطر خواہ ریلیف ملنے کی امید واثق ہے۔
گزشتہ 20سالوں سے ملک کا پیداواری شعبہ بتدریج کم سے کم ہواہے۔بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے صنعتی مصنوعات کم ہوتی گئیں اور بین الاقوامی تجارتی منڈی میں مقابلے بازی کی فضاء میں ہم نچلی سطحوں پر براجمان ہوتے گئے ۔قالین،انجینیئرنگ مصنوعات،ٹیکسٹائل و گارمنٹس ،سرجیکل آلات،چمڑے سے بننے والی اشیاء اور کھیلوں کا سامان وغیرہ برآمد کیا جاتا تھا ۔تمام مصنوعات کی تیاری پر بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے سرمایہ کار دوسر ے ممالک میںاپنے صنعتی یونٹس کو منتقل کردیا گیا جس کی وجہ سے ملکی مصنوعات میں کمی ہوتی گئی ۔زراعت کے محکمے میں بتدریج کمی ہوتی گئی ۔کپاس کی فصل ہدف سے بہت کم ہونے سے کپاس کی برآمد 3ارب ڈالر کی کمی ہوئی ۔رپورٹس کے مطابق کپاس کی 43لاکھ گانٹھیں کم پیدا ہوئی ہیں ۔برآمدات کا حجم جس نسبت سے کم ہوتا گیا اسی نسبت سے درآمدات کا حجم بڑھتا گیا ۔گزشتہ حکومتوںنے اگر برآمدات کی کم ہوتی ہوئی شرح پر توجہ نہ دی تو دوسری جانب بڑھتی ہوئی درآمدات بھی خطرات کی گھنٹی بجاتی رہیں ۔اگر صنعت وحرفت کا وہ حصہ جو برآمدات بڑھانے میں کارآمدتھا اسے کچھ مراعات دے دی جاتیں اور پھر ان مراعات کے درست استعمال کی سختی سے نگرانی کی جاتی تو موجودہ معاشی مسائل پر کسی حدتک قابو پایاجاسکتا تھا مگر حکمران اشرافیہ نے ترغیباتی مراعات اپنے قریبی افراد کو نوازکرملکی معیشت کے نقصان پہنچانے کا باعث بنتارہا۔حکومت وقت جس طرح مخلص ہوکر ملکی معیشت کو سنبھالنے کی سعی کررہی ہے امید ہے کہ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو ملک میں لانے کے لیے کامیاب ہوجائے گی ۔
 

شیئر: