Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ ن میں قیادت کی تبدیلی مزاحمتی بیانیے کے دور کا آغاز ہے؟

مسلم لیگ ن 11 مئی کو جنرل کونسل اجلاس میں نواز شریف کو پارٹی صدر منتخب کرے گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
طویل عرصے کے بعد مسلم لیگ ن میں قیادت کی تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس عمل کا آغاز جمعے کے روز لاہور میں مسلم لیگ ن کے مرکزی دفتر میں پنجاب کی تنظیم کے اجلاس میں ہوا جس کی صدارت صوبائی صدر رانا ثناء اللہ نے کی۔
کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں پنجاب کی تنظیم نے ایک قرارداد منظور کی جس میں نواز شریف سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ پارٹی کی صدارت کا عہدہ سنبھالیں۔
اس قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’یہ سب اس لیے ہے کہ پارٹی نواز شریف کی قیادت میں مقبولیت کی نئی جہتیں طے کر سکے۔‘
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنی جنرل کونسل کا اجلاس 11 مئی کو طلب کر رکھا ہے جس میں پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب ہو گا، اور اس سے پہلے موجودہ پارٹی صدر اور ملک کے وزیراعظم شہباز شریف اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو جائیں گے۔
لاہور میں ہونے والے اجلاس کے اندر اور بعد میں ہونے والی پریس کانفرنس میں کئی باتیں قابل غور تھیں۔ پہلی یہ کہ اجلاس میں مرکزی پارٹی کے نائب صدر جاوید لطیف نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
ان کا کہنا ہے ’اجلاس میں شرکت کے لیے انہیں نواز شریف نے خصوصی طور پر کہا تھا۔‘
دوسری اہم بات پریس کانفرنس میں بیٹھنے والے مرکزی رہنما رانا ثنا اللہ، خرم دستگیر خان اور جاوید لطیف تھے۔ یہ تینوں رہنما 8 فروری کے انتخابات میں اپنی اپنی سیٹیں ہار گئے تھے اور انہیں نواز شریف کیمپ کے ارکان سمجھا جاتا ہے۔
جب ایک صحافی نے رانا ثنا اللہ سے اس حوالے سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ پریس کانفرنس کرنے والے تینوں رہنما الیکشن ہارے ہوئے ہیں اور نواز شریف کے قریب بھی سمجھے جاتے ہیں؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر موجود ہے، اور اس پر پارٹی کے اندر بھی متعدد بار بات ہو چکی ہے۔ اور آئندہ بھی اس موضوع پر بات ہوتی رہے گی۔‘
خیال رہے کہ کچھ عرصے سے رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف ایسے بیانات دیتے رہے ہیں جیسے وہ شہباز شریف حکومت کے کئی معاملات سے خوش نہیں ہیں۔

نواز شریف کی پارٹی صدر کے عہدے پر واپس لانے کی مہم میں شہباز شریف کہیں نظر نہیں آرہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

رانا ثنا اللہ مسلم لیگ ن کے ووٹوں سے آزاد حیثیت سے سینیٹر منتخب ہونے والے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور فیصل واوڈا سے متعلق بیان بھی دے چکے ہیں۔
جب رانا ثنا اللہ سے بار بار یہ سوال کیا گیا کہ نواز شریف پارٹی کی قیادت دوبارہ کیوں سنبھالنا چاہتے ہیں؟ کیا نواز شریف اپنا پُرانا مزاحمتی بیانیہ دوبارہ شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’پارٹی کا بیانیہ مفاہمتی ہو یا مزاحمتی، وہ نواز شریف کی مرضی سے ہی تشکیل پاتا ہے۔‘
رانا ثنا اللہ کے  مطابق ’اب بھی جب نواز شریف صدر بن جائیں گے تو بیانیہ وہی ہو گا جو وہ دیں گے۔ پارٹی پوری طاقت سے اُن کے ساتھ کھڑی ہو گی۔‘
اطلاعات ہیں کہ پارٹی کی چاروں صوبائی تنظیمیں باری باری اپنے اجلاس بُلا کر ایسی ہی قراردادیں منظور کریں گی۔
بعدازاں 11 مئی کو جنرل کونسل کے اجلاس میں چاروں صوبائی تنظیموں کی قراردادیں کونسل کے سامنے رکھی جائیں گی جس کے بعد جنرل کونسل اُن پر عمل کرتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کر لے گی۔
خیال رہے کہ 2017 میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد سپریم کورٹ نے ایک فیصلے کے ذریعے انہیں پارٹی صدر کے عہدے کے لیے بھی تاحیات نااہل کردیا تھا، تب سے پارٹی کی صدارت شہباز شریف نے سنبھال رکھی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق نواز شریف کے صدر بننے سے مستقبل میں پارٹی مریم نواز کے حوالے کرنے میں آسانی ہو گی (فائل فوٹو: مریم نواز فیس بُک)

نواز شریف کی پارٹی صدر کے عہدے پر واپس لانے کے لیے جس انداز سے مہم شروع کی گئی ہے اس میں مرکزی صدر شہباز شریف ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہے۔ 
سیاسی مبصرین کے مطابق نواز شریف کی طرف سے پارٹی کی قیادت دوبارہ سنبھالنے سے مستقبل میں پارٹی کی باگ دوڑ مریم نواز کے حوالے کرنے میں آسانی ہو گی۔ 
اس طرح نواز شریف مستقبل میں پارٹی کے مزاحمتی بیانیے کو دوبارہ زندہ کرنے کی راہ پر بھی گامزن ہوں گے۔
یہ سوال بھی اہم ہو گا کہ نئی تنظیم سازی میں سیکریٹری جنرل اور پنجاب کی صدارت کے عہدے کس کے پاس جائیں گے اور شریف پارٹی میں کون سا عہدہ لیں گے۔
تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق شہباز حکومت کی شروعات کچھ زیادہ مسحور کُن نہیں رہیں، اور پارٹی کی ساکھ کی بحالی ایک نہایت ہی اہم کام ہے۔‘
’میرا خیال ہے کہ نواز شریف نے پوری طرح سوچ سمجھ کر معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملکی سیاست کے حوالے سے  ابھی فوری طور پر تو شاید کوئی نئی بات سامنے نہ آئے لیکن قیادت کی تبدیلی کے اثرات بہرحال اب سے ہی پارٹی کے اندر  دکھائی دے رہے ہیں۔‘

رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف کے بیانات سے لگتا ہے وہ شہباز شریف حکومت سے خوش نہیں ہیں (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

انہوں نے کہا کہ ’یہ ابھی شروعات ہیں اور نواز شریف اب وہ بنیادیں رکھ رہے ہیں جو آئندہ ایک دو سال میں واضح ہوں گی۔‘
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’جہاں تک میں شریف خاندان کی سیاست کو سمجھتا ہوں اس کے مطابق شہباز شریف کو جب تک اجازت ملتی ہے وہ کُھل کر کھیلتے ہیں اور جب نواز شریف گیم اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو پھر وہ بڑے بھائی کے سامنے سرنڈر کر دیتے ہیں۔‘
اینکر پرسن اجمل جامی سمجھتے ہیں کہ ’اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ نواز شریف یہ بات بھانپ چکے ہیں کہ مصالحت کے بیانیے سے انہوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس لیے ایک بار پھر نواز شریف ڈرائیونگ سیٹ پر آرہے ہیں، البتہ اس چیز کا انتظار رہے گا کہ اس نئے بندوبست کے پیچھے جو محرکات ہیں وہ عملی صورت میں سامنے کب آتے ہیں۔‘ 
’یعنی مفاہمتی بیانیہ مزاحمتی بیانیے میں کیوں اور کیسے تبدیل ہوتا ہے لیکن ایک بات ضرور واضح ہو چکی ہے کہ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ اور مسلم لیگ ن کو اس کی قیمت کا بھی اندازہ ہے اور فوائد کا بھی۔‘

شیئر: