Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قانونی جنگ ، قانونی طریقہ سے لڑی جائے

احمد آزاد۔فیصل آباد
9سال بعد آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ سے رہائی کا پروانہ مل گیا ۔یہ پہلا کیس تھا جس میں ملزم کو سزائے موت 295Cکے تحت سنائی گئی تھی ۔ضلع ننکانہ کے قریبی گائوں سے 2009ء میں شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج پورے پاکستان میں خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔جون 2009ء میں مقدمہ درج ہوا جس میں توہین رسالت( )قانون 295Cکے تحت آسیہ بی بی پر الزام لگایا گیا کہ اس نے کھیتوں میں اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین سے دوران بحث توہین رسالت ()کی ہے ۔2010ء میں سیشن عدالت ضلع ننکانہ کے فاضل جج نے295Cقانون کے تحت موت کی سزا سنادی ۔اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور 4سال بعد اکتوبر2014ء میں لاہور ہائیکورٹ نے بھی سزا کی توثیق کردی ۔آسیہ بی بی کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں جنوری 2015ء میں اپیل کی گئی ۔
3 رکنی بنچ نے ابتدائی سماعت شروع کی اور حتمی فیصلہ تک سزا پر عمل درآمدکو روک دیا۔اکتوبر2016ء میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمن نے مقدمے کی سماعت سے انکارکردیا کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے مشہور زمانہ کیس سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا مقدمہ سماعت کرچکے ہیں اور یہ کیس بھی اس سے کسی حد تک منسلک ہے اس لیے وہ سماعت نہیں کریں گے۔
8 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ کے 3رکنی بنچ نے کیس کی3 گھنٹے طویل سماعت کی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے3 رکنی بنچ نے متفقہ طور پر آسیہ بی بی کے خلاف کیس خارج کرنے اور اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔قانونی ماہرین کے مطابق آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کی بنیاد 4 وجوہ پر ہے۔ایف آئی آر درج کرنے میں دیر جس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں،گواہان کے بیانات میں عدم مطابقت،آسیہ بی بی کے غیر عدالتی اعترافِ جرم پر انحصاراور عدالتوں کی جانب سے آسیہ بی بی پر لگائے جانے والے الزامات کی صحت اور ان کے ماحول کے تناظر کو نظر انداز کرنا۔
معلومات کے مطابق پاکستان میں 1500 افراد پرتوہین رسالت کے الزامات لگے جن میں سے 1472 پر فرد جرم عائد ہوئی اور ٹرائل کورٹس میں 80 فیصدسزائیں ختم کردی گئیں۔ 62 افراد کولوگوں نے اپنی عدالت آپ کے تحت لگاتے ہوئے ماورائے عدالت قتل کر دیا۔آسیہ بی بی کے کیس کو لے کر پہلے تو احتجاج کی راہ اپنائی گئی جس میں سارے مسالک کے لوگ بغیر شک و شبے کے شریک تھے ۔اس فیصلے سے مسلمانان پاکستان کے جذبات مجروح ہونا فطری بات تھی کہ نبی کی محبت ایمان کا حصہ ہے ۔عدالت عالیہ نے فیصلے کی اردو کاپی کو جو 57صفحات پر مشتمل ہے، اپنی ویب سائٹ پر لگادی تاکہ عوام الناس اس فیصلے کو پڑھ سکیں ۔اردو طبقہ کی بہت کم تعداد ہوگی کہ جس نے اس فیصلہ کو پڑھا ہوگا اور اگر پڑھا بھی ہوگا تو قانونی موشگافیوں کی وجہ سے میری طرح فیصلے کوقانونی نظرسے سمجھنے سے قاصر ہوں گے۔ مجھے بذات خود اس فیصلے سے تحفظات ہیں جن کا اظہار میں برملا کرچکا ہوں۔احتجاج پُرامن ہوتو کاز کو فائدہ دیتا ہے ،آپ جس قدر بھی جائز حق کے لیے احتجاج کررہے ہوں۔ اگر آپ کے احتجاج میںتشدد کا عنصر شامل ہوجائے تو وہ ملک کو انتشار و بدامنی کی طرف دھکیل دیتا ہے جس سے اگلی منزل پھر خانہ جنگی کی شکل میں برآمد ہوتی ہے چاہے وہ مظاہرین کی طرف سے ہو یاپھر ریاست کی طرف سے ۔
حالیہ احتجاج میں جب تشددکا عنصر شامل ہوا تو مظاہرین میں سے اکثر پیچھے ہٹتے دیکھے گئے کہ اب یہ احتجاج نہیں رہا ۔مذہب اسلام قطعاًقومی وعوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور دوسروں کو تکلیف دینے کا حکم نہیں دیتا ۔بدقسمتی سے آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کیخلاف ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والا راستہ ہی اختیار کیا گیا جس سے معمولات زندگی میں خلل پڑنے، روز مرہ کے کام بند ہونے، دیہاڑی دار مزدوروں کیلئے روزگار کی مشکلات پیدا ہونے، سڑکوں پر ٹریفک بلاک ہونے سے شہریوں کی ذہنی اذیت میں اضافہ ہونے، ہسپتالوں میں مریضوں اور ان کے لواحقین کیلئے بے پناہ مشکلات پیدا ہونے اور ملازم پیشہ افراد بشمول خواتین کے اپنے دفاتر میں نہ پہنچ پانے کے باعث قومی معیشت و ترقی کو ہونے والا نقصان تو اپنی جگہ، اس وقت ملک اقتصادی بدحالی کے جن چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے اس کے تناظر میں بھی ملک پر تشدد ہنگامہ آرائی، گھیرائو جلائو اور قومی شاہراہیں اور راستے بند کرکے معاشرے کے کسی طبقے کی جانب سے کئے جانے والے احتجاج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔تشدد کو ایک طرح سے ہوا اس بات سے بھی ملی کہ حالیہ احتجاج میں جب ایک گدی نشین نے وزیراعظم پاکستان ،تینوں ججوں اور چیف آف آرمی سٹاف کیخلاف بے بنیاد الزامات لگائے اورفوجیوں کو فوج میں بغاوت کی اپیل کی ،اس سے سنجیدہ لوگ متنفر ہوئے اور دلِ مضطر لیے ہوئے ایک طرف ہوگئے کہ نبی کی حرمت و ناموس کی خاطر یہ احتجاج کرنے والے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی ماررہے ہیں ۔
قانونی نکات کو تو ماہرین قانون ہی جانتے ہیں کہ اس کیس میں کیا کچھ ہوا ہے ۔کہاں ہم سے غلطی ہوئی ہے اور کہاں ملزم کو فائدہ پہنچا ہے ۔عوامی احتجاج کو پُرامن ہونا چاہیے تھا اور فی الفور فیصلے کی نقول کو پڑھنے کے بعد مذہبی پیشوا ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھتے اور قانونی ماہرین سے ایک بار پھر اس کیس کو زیربحث لاتے اورقانون کے تحت رہتے ہوئے اپنا احتجاج آگے بڑھاتے اور قانونی چارہ جوئی کرتے لیکن یہاں تو الٹا ہورہا ہے ۔اس فیصلے کو لے کرپورے پاکستان کے دل اضطراب میں ہیں لیکن اس اضطرابی کیفیت کو کسی مثبت طریقے سے استعمال کیا جاتا تو قدرے بہتر ہوتا۔مذہبی طبقے میں سے ایک دو آوازیں ایسی اٹھی بھی ہیں جو کہ خوش آئند ہیں جنہوںنے پرامن رہتے ہوئے اپیل کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔جمعرات کو قاری سالم نے ایڈوکیٹ اظہر صدیق اور غلام مصطفی کی وساطت سے نظر ثانی کی اپیل کردی ہے (پہلے بھی قاری سالم ہی اس کیس کو سامنے لے کر آیا تھا)۔دشمن ہمارے چاروں طرف موجود ہے اور وہ اس طرح کے مواقع ڈھونڈتا ہے کہ کس طرح سے وہ ملک کو انتشار کی جانب دھکیل سکے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا پر کچھ اکائونٹس جو شدت پسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں دیار غیر سے آپریٹ کیے جارہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے قانونی جنگ کو قانونی طریقے سے ہی لڑا جائے ۔احتجاج کریں کہ آپ کا حق ہے لیکن احتجاج کی آڑ میں تشدد و تکفیرکرنااور دوسروں کے ایمان پر تشکیک پیداکرنا کسی طور پر بھی قبول نہیں ۔معاملات کو مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان ہم مسلمانوں کا ہے او ر ہم ہی اس کے معمار ہیں۔ہمیں اس مسئلہ پر سیاست کرنے اور سیاسی گرم بازاری کو روکنا ہوگا ۔نظر ثانی کی اپیل ہوچکی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فیصلے میں بتائی گئی کوتاہیاں دور کرکے بھرپور طریقے سے اپنا کیس لڑا جائے ۔حکومت و عدلیہ بھی کوشش کرے کہ معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہوجائے، کسی بے گناہ کو سزانہ ملے اور نہ توہین رسالت کی ملزمہ ثابت ہونے پر بری کیا جائے ۔
 

شیئر: