Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے نئے فتوئوں کا اجراء ناگزیر

نجیب حسام یمنی
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں گزشتہ ماہ افتاء کی چوتھی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی ۔ 73ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ اس کا مقصد دہشتگردی کے سوتے خشک کرنا تھا۔کانفرنس کے شرکاء نے اس امر پر زور دیا کہ دہشتگردتنظیموں کے خاتمے کیلئے نئے فتوئوں کا اجراء اشد ضروری ہے ۔ زمان و مکان کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر نئے فتوئوں کا اجراء انتہا پسندوں کی جانب سے پھیلائی جانیوالی تاریکی چھاٹنے کیلئے لازمی ہے ۔ نئے فتوے غیر متزلزل اور تغیر پذیر احکام کے درمیان فرق کر کے جاری کئے جائیں۔ناقابل تغیر احکام وہ ہوتے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہوں ۔ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے دو ٹوک انداز میں ثابت ہونیوالے احکام ناقابل تغیر ہوتے ہیں ۔ ان کی پابندی لازم ہے ۔ انہیں نظر انداز کرنا جائز نہیں۔ان احکام پر عمل کے سلسلے میں زماں و مکاں کا کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس قسم کے احکام میں بنی نوع انسان کی صلاح و فلاح ، رحم دلی اور عدل و انصاف کے اصول آتے ہیں ۔ یہ نہ جگہ کی تبدیلی سے بدلتے ہیں اور نہ وقت کے آنے جانے سے متاثر ہوتے ہیں ۔بعض احکام ایسے ہوتے ہیں جو زماں و مکاں کی تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں ۔ 
اسلامی شریعت چونکہ جامع بھی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نازل کی گئی ہے لہٰذا تمام احکام ایسے نہیں ہو سکتے جن میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہو ۔ ایسے تمام مسائل جن کے امکان زمان و مکاں کی تبدیلی سے بدلتے ہوں ان کی بابت ناقابل تغیر احکام جاری نہیں کئے جا سکتے ۔ اسلامی فتوحات نے اسلام کی عمل داری کا دائرہ جزیرہ عرب سے نکال کر دنیا بھر تک پھیلا دیا۔ایسی اقوام اور ایسے ممالک دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جن کا رہن سہن اور رسم و رواج جزیرہ نمائے عرب کے باشندوں کے رسم و رواج اور رہن سہن سے مختلف تھا۔ اسلام کی بقاء اور اس کی تاثیر کو برقرار رکھنے کے حوالے سے حلقہ بگوش اسلام ہونے والی نئی اقوام اور ان کے رسم و رواج بڑا چیلنج بنے ۔ فقہائے امت نے زماں و مکاں کی تبدیلی کو مدِ نظر رکھ کر نئے فتوے دئیے ،اسلام میں موجود لچک سے فائدہ اٹھایا اور دنیا بھر کے لوگوں کا اسلام سے رشتہ پختہ اور مضبوط کیا ۔ 
امت کے فقہا نے کسی بھی شے یا کسی بھی عمل کو حرام گرداننے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ انہوں نے اس سلسلے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ۔ عصرِ حاضر میں ہمیں سیاسی اسلام کی علمبردار جماعتوں نے مختلف مسائل سے دوچار کر دیا۔یہی تنظیمیں ہیں جن کی کوکھ سے دہشتگرد گروپوں نے جنم لیا ۔ ان گروپوں نے جبرو قہر ، قتل و غارت گری ، آبروریزی ، آتش زنی کو رائج کیا ۔جنت میں داخلے اور دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے فرمان جاری کئے ۔ ان تنظیموں نے بندگان خدا کی گردنوں کا کاروبار بڑے پیمانے پر کیا ۔ ان تنظیموں نے جائز اشیاء کو ناجائز قرار دینے کا نیا رواج ڈالا ۔ مسلم معاشرہ داعش ، القاعدہ اور الاخوان کے اسی رویے کی بدولت تفرقہ و انتشار سے دوچار ہو گیا ۔ان تنظیموں نے من مانی تشریحات کے ذریعے جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز قرار دیدیا ۔ ان کے95فیصد فتوے تشدد اور انتہا پسندی کو جائز ٹھہرا رہے ہیںجبکہ اقوام و ممالک کی دولت لوٹنے کے جواز بھی پیش کر رہے ہیں ۔ 
انتہا پسند جماعتوں کا راستہ روکنا، ان کی جہالت کو طشت ازبام کرنااور اسلامی احکام سے ان کی ناواقفیت کو منظر عام پر لانا اشد ضروری ہے ۔ رائے عامہ کو بتانا ہوگا کہ حلال و حرام سے متعلق ان کے فتوے ان کے اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر جاری کئے جاتے ہیں ۔ فتوے کی دنیا میں احتیاط کو متعارف کرانا پڑے گا ۔ دہشتگردوں اور انتہا پسندوں نے فتوے کو یرغمال بنا لیا ہے، ان سے فتوے کو آزاد کرانا پڑے گا ۔ 
(بشکریہ:عکاظ)
 

شیئر: