Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نبی اکرمﷺ کی تاریخ ولادت ، 9 یا12ربیع الاول ؟

* *  *محمد منیر قمر ۔الخبر * * *   
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے بعدارض وسماء کے روحانی تعلق اور رشتۂ وحی کو منقطع ہوئے کم وبیش 6 سو سال گزر چکے تھے۔پوری دنیا بالعموم ا ور ملک وقومِ عرب بالخصوص کچھ اس طرح کے مذہبی،اخلاقی،معاشرتی اورسیاسی انحطاط سے دوچار تھی کہ پورا عالمِ انسانیت ہی گھٹاٹوپ اندھیروں میں گھر چکا تھا۔ انسان کا ضمیر مرجھا چکا تھا، تاریکیوں نے ہر پہلو سے بنی آدم کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور روشنی کی کوئی کرن دُور دُورتک نظر نہیں آتی تھی۔خالق ِکائنات ،مالکِ ارض وسماء کو اپنی اس مخلوقِ انسانی کے حال پر ترس آگیا۔ رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور اس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کی رہنمائی کے لئے اولادِ ابراہیم خلیل علیہ السلام اور نسلِ اسماعیل ذبیح علیہ السلام سے نبی آخرالزمان رحمت للعالمین کو پیدا فرمایا۔آپ کی ولادت کے اُس یومِ سعید کے بارے میں علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں ’’چمنستانِ دہر میں بار ہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں،چرخِ نادرئہ کارنے کبھی کبھی بزم عالم اس سرو سامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہوگئیںلیکن آج (یعنی9ربیع الاوّل)کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیرکہن سال دہر نے کروڑوں برس صرف کردیئے۔ سیارگانِ فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے۔چرخِ کہن مدت ہائے درازسے اسی صبح ِجان نواز کیلئے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا۔ کارکنانِ قضاء وقدر کی بزم آرائیاں،عناصر کی جدت طرازیاں، ماہ و خورشید کی فروغ انگیزیاں،ابروباد کی تردستیاں،عالمِ قدس کے انفاسِ پاک،توحیدِابراہیم،جمالِ یوسف،معجزطرازیٔ موسیٰ،جان نوازیٔ مسیح (علیہم السلام) سب اسی لئے تھے کہ یہ متاع ہائے گراں قدر، شاہ ِکونین() کے دربار میں کام آئیں گے‘‘
    آج کی صبح وہی صبحِ جاں نواز،وہی ساعت ِہمایوں،وہی دورِ فرخ فال ہے۔ اربابِ سیر اپنے محدود پیرایۂ بیان میں لکھتے ہیں کہ ’’آج کی رات ایوانِ کسریٰ کے 14 کنگرے گر گئے،آتش کدۂ فارس بجھ گیا،دریائے ساوہ خشک ہوگیا‘‘(مگر یاد رہے کہ یہ ارہاصاتِ نبوت دلائل النبوۃ میں امام بیہقی نے اور طبقات میں ابنِ سعد وغیرہ نے ذکر کئے ہیں مگر علامہ محمد الغزالی نے اپنی کتاب’’فقہ السیرہ‘‘ میں ان تعبیرات کو غلط قراردیا ہے(فقہ السیرہ بتخریج الالبانی )
    آگے علامہ شبلی لکھتے ہیں’’ لیکن سچ یہ ہے کہ ایوانِ کسریٰ نہیں بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم اور اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے۔ آتشِ فارس نہیں بلکہ جحیمِ شر،آتشکدۂ کفر، آزرکدۂ گمراہی سرد ہو کر رہ گئے،صنم خانوں میں خاک اُڑنے لگی،بت کدے خاک میں مل گئے،شیرازۂ مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراق ِخزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑگئے، توحید کا غلغلہ اُٹھا،چمنستانِ سعادت میں بہار آگئی،آفتابِ ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں، اخلاقِ انسانی کا آئینہ پر توقدس سے چمک اُٹھا (یعنی) یتیمِ عبداﷲ،جگر گوشئہ آمنہ، شاہِ حرم، حکمرانِ عرب، فرمانروائے عالم، شاہِ کونین، عالم قدس سے عالم مکان میں تشریف فرمائے، عزت واجلال ہوئے (سیرت النبی علّا مہ شبلی)
     یہ تحقیق ہم آگے چل کر پیش کر رہے ہیں کہ ہیئت دانوں، مؤرخوں اور سیرت نگاروں نے صحیح ترین تاریخِ ولادت9ربیع الاوّل عام الفیل،20 اپریل571ء بروز پیر کو ہی صحیح قرار دیاہے۔ ترمذی شریف میں قیسؓ  بن مخرمہ کے الفاظ ہیں’’میں اور رسول اللہ عام الفیل میں پیدا ہوئے ‘‘اسی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان ؓنے قباث ؓ بن اشیم سے پوچھا’’تم بڑے یا رسول اﷲ  ‘‘ تو انہوں نے کمال ِادب سے جواب دیا’’ مجھ سے بڑے تو رسول اﷲ ہی ہیں البتہ میں آپ سے پہلے پیدا ہوا تھا‘‘ (ترمذی مع تحفۃ الاحوذی)آپ کی ولادت کے بعد سیّدہ آمنہ نے آپ کے دادا عبدالمطلب کو پیغامِ مسرت بھیجا، وہ خوشی خوشی گھر آئے۔ اپنے عنفوانِ شباب میں داغِ مفارقت دے جانے والے بیٹے کی نشانی کو گود میں لیا اور خانہ کعبہ میں لے گئے،وہاں دعا ء مانگی اور واپس لائے، دادانے ہی اپنے اس دُرِّیتیم کا نام محمد رکھا۔سیرت ابن ہشاؒم میں لکھا ہے کہ آپ کے دادا نے آپ کی ولادت کے ساتویں دن آپ  کا حسبِ دستور ختنہ کیا، ساتویں دن ہی آپ  کا نام بھی رکھا۔
     عید میلاد النبی منانے یا نہ منانے کے مسئلے سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت کب ہوئی؟ اور آپ نے کس دن وفات پائی؟ تاکہ کہیں غلطی سے آپ کی وفات پر خوشیاں منانے کا نادانستہ جرم نہ کرتے رہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات تو تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں میں متفق علیہ ہے کہ آپ کی ولادتِ با سعادت کا دن پیر ہے۔ اصحابِ تاریخ و سیر پر ہی بس نہیں،خود نبی اکرم کی ایک صحیح حدیث مسلم شریف میں موجود ہے، حضرت ابوقتادہؓ  بیان کرتے ہیں کہ نبی سے پیر کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا’’یہ وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور اسی دن میں مبعوث ہوا یا مجھ پر وحی نازل کی گئی‘‘ایک متکلم فیہ سند والی روایت میں حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ  فرماتے ہیں’’ نبی اکرم پیر کے دن پیدا ہوئے اور پیر کے دن نبوت کا اعلان کیا اور پیر کے دن ہی وفات پائی اور پیر کے دن نبی اکرم مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کیلئے روانہ ہوئے اور پیر کے دن مدینہ منورہ پہنچے اور پیر کے دن حجراسود کو اٹھایا‘‘امام الہیثمی نے’’ مجمع الزوائد‘‘ میں اسے مسند امام احمد اورالطبرانی فی الکبیر کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے کہ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں ’’فتح بدر بھی پیر کو حاصل ہوئی اور سورۃ المائدہ بھی پیر ہی کو ناز ل ہوئی جس کی آیت3 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے ‘‘لیکن اس روایت کی سند میں ابن الہیعہ ہے اور وہ ضعیف ہے کیونکہ اس نے اس حدیث میں اپنی سماع کی صراحت نہیں کی بلکہ عن سے روایت بیان کی ہے جبکہ دوسرے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں( الفتح الربانی للعلامہ احمد عبدالرحمن البنا)
    رہا معاملہ تاریخِ ولادت کا تو اس کے بارے میں خود آپ سے تو کوئی روایت نہیں ملتی البتہ سیرت ابن اسحاق کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ جس سال ہاتھی والے ابرہہ اور اس کے لشکر نے بیت اﷲ شریف پر حملہ کیا اور غضبِ الٰہی کا شکار ہوئے تھے۔وہ روایت یوں ہے کہ قیس بن محرمؓ کہتے ہیں’’میں اور رسول اﷲ ایک ہی سال عام الفیل میں پیدا ہوئے‘‘اور امام سہیلیؒ نے نقل کیا ہے کہ’’ ابرہہ ماہ ِ محرم میں مکہ آیا تھا اور آپ  اس واقعہ کے 50 دن بعد پیدا ہوئے ‘‘ جبکہ  امام سہیلی ؒاور محمدؒ بن اسحاقؒ کے بقول جمہور اہلِ علم کا مسلک یہی ہے (الفتح الربانی للبنا )مشہور مفسر اور مورّخ ِکبیر حافظ ابن کثیر ؒ نے اپنی تاریخ ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں لکھا ہے کہ جمہور اہلِ علم کا مسلک یہ ہے کہ آپ ماہِ ربیع الاوّل میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپاس ماہ کے اوّل ، آخر، و سط یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اسکے بارے میں مؤرّخین اور سیرت نگاروں کے بکثرت اقوال نقل کئے ہیں، کسی نے 2ربیع الاوّل کہا ہے، کسی نے8، کسی نے 10، کسی نے12، کسی نے17اور کسی نے18اور بعض نے22 ربیع الاوّل کہا ہے اور ان سب میں سے راجح قول دو ہیں،ایک12 ربیع الاوّل کا اور دوسرا 8 ربیع الاوّل کا۔ صاحبِ البدایہ نے 8 ہی کو راجح قرار دیا ہے جو امام حمیدی نے ابن حزم سے نقل کیا ہے اور کئی دیگر ائمہ نے اسی کی تائید کی ہے ۔امام طبری ؒ اور امام ابن خلدونؒ نے 12 ربیع الاوّل کو اختیا ر کیا ہے ۔ امام ابن الجوزی ؒ نے الوفا باحوال المصطفیٰ میں10 ربیع الاوّل کو اوّلیت دی ہے جبکہ ماضیٔ قریب کے دو عظیم سیرت نگاروں میں سے علامہ قاضی سلیمان منصور پوری نے اپنی کتاب’’ رحمۃ للعالمین‘‘ میں اور علامہ شبلی نے ’’سیرت النبی‘‘ میں9ربیع الاوّل بمطابق20اپریل571ء کو از روئے تحقیق جدید صحیح ترین تاریخِ ولادت قرار دیا ہے ۔
     اسی تاریخ کو محمد طلعت عرب نے تاریخ ’’دول العرب‘‘میں صحیح قرار دیا ہے ۔ مصر کے معروف ماہرِ فلکیات اور معروف ہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب ’’التقویم العربی قبل الاسلام و تارییخ میلادِالرسُول و ہجر تِہ ‘‘میں دلائل ِریاضی کی رُو سے متعدد زائچے بنا کر ثابت کیا ہے کہ عام الفیل ماہِ ربیع الاوّل میں یوم الاثنین کی صحت کے پیشِ نظر اور فرزندِ رسول حضرت ابراہیم ؓکے یومِ وفات پر سورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو آپ کی ولادت کی صحیح تاریخ9ربیع الاوّل ہی آتی ہے جبکہ شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے آپ  کی ولادت کا وقت 20اپریل571ء بروزِ پیر کی صبح بنتا ہے۔محمود فلکی نے جو استدلال کیا ہے وہ کئی صفحوں میں آیا ہے،اس کاخلاصہ یہ ہے:
    ’’صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؓ (آنحضرت کے صغیر السن صاحبزادے) کے انتقال کے وقت آفتاب میں گہن لگا تھا اور یہ10 ہجری تھا اور اس وقت آپ کی عمر کا 63واں سال تھا۔ ریاضی کے قاعدے سے حساب لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ10ہجری کا گرہن 7جنوری632 ء کو8 بج کر 30 منٹ پر لگا تھا۔ اسی حساب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر قمری 63 برس پیچھے ہٹیں تو آپ کی پیدائش کا سال571ء ہے جس میں ازروئے قواعد ِہیئت ربیع الاوّل کی پہلی تاریخ12 اپریل571ء کے مطابق تھی۔ تاریخ ِولادت میں اختلاف ہے لیکن اس قدر متفق علیہ ہے کہ وہ ربیع الاوّل کا مہینہ اور دوشنبہ یعنی پیر کا دن تھا اورتاریخ8 سے لے کر 12تک میں منحصر ہے۔ ربیع الاوّل مذکور کی ان تاریخوں میں دو شنبہ کا دن صرف نویںتاریخ کو پڑتا ہے۔ ان وجوہ کی بناء پر تاریخ ِ ولادت قطعاً 20اپریل571 ء تھی اور ربیع الاوّل کی نو تاریخ ۔ 12ربیع الاوّل کی روایت مشہور تو ہے مگر وہ حساب سے صحیح ثابت نہیں ہوتی۔اس سب تفصیل سے معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش12ربیع الاوّل کو نہیں بلکہ صحیح تاریخ9ربیع الاوّل ہے۔ ہاں آپکی وفات ضرور12ربیع الاوّل کو ہوئی تھی جیسا کہ معروف کتب ِتاریخ و سیر سے معلوم ہوتا ہے جس کی مفصل تحقیق کا یہ موقع نہیں۔ یہاں صرف ہمیں اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ ہمارے بھائی جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں ،وہ نبی کریم   کا یوم ِپیدائش نہیں بلکہ یوم ِوفات ہے۔
مزید پڑھیں: - - - - مرتد کی سزا قرآن وحدیث کی روشنی میں

شیئر: