Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹانک سے سیشن جج کا اغوا، ’یہ کسی صوبے کا نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے‘

پولیس کا کہنا ہے کہ ’سیشن جج ٹانک سے ڈیرہ اسماعیل خان جا رہے تھے اور ڈیرہ روڈ بھگوال کے قریب سے انہیں اغوا کیا گیا۔‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں تعینات سیشن جج کو ٹانک سے مسلح افراد نے اغوا کر لیا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے مطابق سیشن جج شاکر اللہ مروت کو سنیچر کو اغوا کرنے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ’سیشن جج ٹانک سے ڈیرہ اسماعیل خان جا رہے تھے اور ڈیرہ روڈ بھگوال کے قریب سے انہیں اغوا کیا گیا۔ اغوا کار سیشن جج شاکر اللہ مروت کی گاڑی اور ڈرائیور چھوڑ کر انہیں ساتھ لے گئے ہیں۔‘
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ڈی آئی خان میں سیشن جج کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس کو جج کی بحفاظت بازیابی کی ہدایت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جج کو بازیاب کرانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں اور تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں۔‘
وزیراعلٰی نے مزید کہا کہ ’یہ قابل مذمت اور افسوسناک واقعہ ہے، اس میں ملوث عناصر قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے سیشن جج کے اغوا کو افسوس ناک اور تشویشناک قرار دیا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’وزیراعلٰی بتائیں کہ وہ قیامِ امن میں کیوں سنجیدہ نہیں جبکہ دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔‘
’میڈیا پر سیشن جج شاکر اللہ مروت کے اغوا کی خبر نے عوام میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ کیا ہے۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی حدود میں پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اس علاقے میں کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
گذشتہ اتوار کو نامعلوم مسلح افراد نے محکمہ کسٹم کے دو افسران کو گولی مار کے قتل کر دیا تھا۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس محمد عدنان نے اس واقعے سے متعلق بتایا تھا کہ اتوار کو کسٹم حکام چیکنگ کے لیے کھڑے تھے جب نامعلوم افراد نے گولیاں چلا دیں۔
گذشتہ ہفتے بدھ کی رات تحصیل درابن کی حدود سگو کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے کسٹم انٹیلیجنس کی چلتی گاڑی پر اندھا دُھند فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں چار کسٹم اہلکار موقع پر جان کی بازی ہار گئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ اس کے علاوہ اسی علاقے میں نجی چینل (اے آر وائی) کی ڈی ایس این جی وین پر بھی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اسی طرح عید سے ایک روز قبل محکمہ ایکسائز کے چند اہلکاروں کو مبینہ عسکریت پسندوں نے اغوا کر کے چند گھنٹوں کے لیے یرغمال بنایا تھا۔

وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے سیشن جج کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس کو ان کی بحفاظت بازیابی کی ہدایت کی ہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)

ان واقعات سے متعلق میڈیا سے گفتگو کے دوران خیبر پختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل اختر حیات خان گنڈا پور نے کہا تھا کہ ان حملوں کی مختلف زایوں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
22 اپریل کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان اور شمالی وزیرستان میں انٹیلیجنس بنیادوں پر آپریشن کیے گئے جن میں 11 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں شدید فائرنگ کے تبادلے میں 10 عسکریت پسند ہلاک ہوئے جبکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کےدوران ایک عسکریت پسند مارا گیا۔
پاکستان کے افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال حالیہ دنوں میں مزید خراب ہوئی ہے، جبکہ سکیورٹی اہلکاروں اور پولیس پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ان حملوں میں سے چند کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان قبول کر چکی ہے تاہم کئی حملوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیوں سے متعلق دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان واقعات کا ذمہ دار چند ایسے عناصر کو سمجھتے ہیں جن کی ڈور ہمسایہ ممالک سے ہلتی ہے۔
ان کے مطابق ’یہ ایسے علاقے ہیں جہاں پاکستان کی سرحد ہمسایہ ممالک سے لگتی ہے۔ سرحدی علاقوں میں کچھ جرائم پیشے عناصر کے ساتھ ساتھ لوگوں کے پالے ہوئے عناصر بھی ہوتے ہیں، جو ایسے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں اور یہ علاقے متنازع رہتے ہیں۔‘

پاکستان کے افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال حالیہ دنوں میں مزید خراب ہوئی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

جنرل (ر) نعیم خالد لودھی ان واقعات کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ عناصر پاکستان کے افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے یہ وہاں مسائل بناتے بھی ہیں اور پہلے سے لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کو مزید بڑھاوا بھی دیتے ہیں۔‘
ملک کے دیگر حصوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کچے کا علاقہ ہو یا پھر کراچی، تقریباً پورے ملک میں یہی صورت حال ہے۔
’اس کی بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اپنے کام کے بجائے دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہنا ہے۔‘
جنرل (ر) نعیم خالد لودھی سمجھتے ہیں کہ ان تمام مسائل کا ازالہ تب ہی ممکن ہے جب ایجنسیوں سمیت دفتر خارجہ اور دیگر اداروں کو اپنا کام کھل کر کرنے دیا جائے۔
’یہ کسی صوبے کا ذاتی مسئلہ ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے، اس لیے اس کے حل کے لیے قومی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

شیئر: