Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمارا د ین ، اسلام ، ایمان اور احسان کا مجموعہ

جس قدر ایمانیات محکم ہونگی اسی قدر اسلام کے احکام پر عمل کی توفیق ہوگی ، اس کے نتیجے میں احسان کا اعلیٰ درجہ نصیب ہوگا
 
* *  *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * *

    ہمارے دین کے 3 عناصر ہیں جن کے مجموعے سے دین بنتاہے لفظ عناصر اور کلمہ مراتب بظاہر ان میں فرق یہ ہے کہ عناصر سے کسی شئی کی ہیئت وماہیت تشکیل پاتی ہے جس میں ایک عنصر کے عدم سے کل معدوم ہوجاتاہے ۔
    لفظ مراتب میں اس طرف ایماء ہوتاہے کہ اس شئی کے کئی درجات ہیں ۔بعض اعلیٰ اور بعض ادنیٰ مگر ہر درجہ اور مرتبہ میں شخص اس  شئی کے دائرے سے نہیں نکلتا۔اندر ہی رہتاہے ،جیسے علم کے مراتب اعلیٰ اور ادنیٰ ،مگر ہر مرتبہ میں شخص عالم ہی رہے گا ۔عالم کے دائرے سے باہر نہیں جائے گا۔
    احسان کے درجات :اعلی اور ادنیٰ۔ جو جس مرتبہ میں ہوگا احسان کے دائرے سے باہر نہیں نکلے گامگر ارکان مراتب سے کچھ یوں مختلف ہوتے ہیں کہ ایمان کے ارکان پورے ہوں گے تو بندہ مؤمن ہوگا۔
    کسی عنصر یا رکن کے نہ ہونے سے ایمان معدوم ہوجائے گا۔اب دین کے3 رکن جن سے ہمارے دین کی ہیئت ترکیبیہ تشکیل پاتی ہے ، اس کا تذکرہ حدیث جبریل میں موجود ہے۔
    حدیث جبریل حدیثی مجموعہ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور تمام جامعین سنن اور محدثین نے اس کو خصوصی مقام دیا ہے کیونکہ یہ حدیث ہمارے پورے دین کی نمائندہ حدیث ہے ۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے حضرت جبریل علیہ السلام نے سوال اور جواب کی صورت میں اور بہت ہی سہل اور آسان طریقے سے دین کے سمجھنے ،سمجھانے اور افہام وتفہیم کی ایک رہنما لائن پیش کی ہے اور وہ یہ کہ حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام ایسی صورت میں تشریف لائے جو کہ سب کیلئے حیرت کن تھی۔سفید لباس میں ملبوس، جہاں ان پر سفر کا کوئی اثر ظاہر نہ ہوتاتھا اور نہ ہی صحابہ کرامؓ میں سے انہیں کوئی جانتے تھے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں :
    ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے۔ایک شخص آیاجس کا انتہائی سفید لباس تھا اور اس پر سفر کے آثار بھی نہیں تھے کیونکہ اتنا سفید لباس عرب کے ماحول میں جہاں گرد وغبار تھا ، کسی مسافر کا نہیں ہوسکتا تھا۔ طویل سفر کے اندر لباس کا سفید حالت میں رکھنا ناممکن ہے۔اس طرح کے اسفار میں چہرے اور لباس پر سفر کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور اسے ہم میں سے کوئی جانتا بھی نہیں تھا، یعنی وہ ہم میںسے بھی نہ تھا،یعنی وہ شخص ایک اجنبی اور غریب الوطن لگتا تھا کیونکہ اگر مدینے کا ہوتا تو ہم میں سے کوئی نہ کوئی اسے ضرور جان لیتا۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انتہائی ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا قریب ہوگیا کہ اجنبی بھی نہیں لگتا تھا۔پھر وہ نبی علیہ السلام سے اس انداز سے مخاطب ہوا کہ وہ کوئی انتہائی قریبی تعلق والا ہے اور اس نے یہ سوال کیا کہ : ایما ن کیا ہے؟اور دوسرا سوال کہ اسلام کیا ہے؟اور تیسرا سوال کیا کہ احسان کیا ہے؟
    در اصل یہ 3سوالات دین کے وہ 3 عناصر ہیں جن سے دین اپنے مکمل شکل میں ایک خوبصورت شریعت کی صورت میں واضح ہوجاتاہے  ۔میری نظر میں ان عناصر کو دین کے ارکان کہنا ایک جامع اور مانع تعبیر ہے ۔
    آئیے ہم حدیث جبریل کی تفصیل کی طرف جاتے ہیں :
    حضرت جبریل علیہ السلام نے سب سے پہلا سوال ایمان کے بار ے میں کیا کہ: ایمان کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوال کے جواب میں ارکان ِ ایمان بتلائے جو کہ یہ ہیں :(1) اللہ تعالیٰ پر ایمان(2)اس کے فرشتوں پر ایمان(3)اس کی کتابوں پر ایمان(4)اس کے رسولوں پر ایمان(5)یومِ آخرت پر ایمان(6) تقدیر پر ایمان(7)موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان۔
    اس کا دوسرا سوال اسلام کے متعلق تھا کہ : اسلام کیا ہے؟
    اس کے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے مکمل ارکان خمسہ بیان فرمائے جو کہ یہ ہیں :(1)شہادتین،یعنی اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان(2)نمازکی ادائیگی(3)زکوٰۃکی ادائیگی(4)روزہ(5)حج بیت اللہ جو صاحبِ استطاعت ہو۔
    پھر اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ احسان کیا ہے؟
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ آپ ایسے عبادت کریں جیسے کہ آپ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ کیفیت نہ حاصل ہوتو کم سے کم یہ ہو کہ یہ استحضار رہے کہ وہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔
    اب یہ تینوں چیزیں جب بیان ہوگئیں تو ہر سوال کے جواب دینے پر وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ۔ اس کی یہ با ت بھی اس کے دیگر امور کی طرح لوگوں کو حیران کررہی تھی، کہ یہاں کا مقامی شخص بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کوئی اسے جان پاتا، نہ اس پر سفر کے آثار تھے کہ کوئی اسے مسافر جان کر مطمئن ہوجاتا اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ اپنے سوالات کا جواب پاکر اس کی تصویب بھی کرتاجارہاہے جبکہ عموماً یہ سائل کا طریقہ نہیں ہوتا،تو  اس سائل کی ہیئت ، اس کا مجلس میں بیٹھنا، سوالات کرنا اور بے تکلف انداز گفتگو …یہ تمام امور تعجب خیز تھے کہ کیسے ہم اسے نہیں جانتے اور اس قدر سفید لباس میں ہے کہ اسے مسافر بھی نہیں تصور نہیں کیا جاسکتاہے اور آپ صلی اللہ علیہ سے اتنا قرب جس کا عموماً صحابہ کرام ؓمیں معمول نہ تھا۔ بعض روایات میں آتاہے کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زانوئے مبارک پر رکھے ہوئے تھے۔تو یہ آمد،ہیئت اور جس کیفیت سے وہ داخل ہوا وہ سب چیزیں باعث حیرت تھیں۔
    اس کے بعد اس نے ہر سوال کے جواب میں (صدَّقت) کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب فرمائی کہ : آپ صحیح فرمارہے ہیں۔
    اس کا یہ موقف بھی قابل استغراب تھا کہ سائل بھی اور تصدیق کنندہ بھی۔
    پھر جب وہ تینوں سوالوں کے جواب لے چکا تو اس نے چوتھا سوال کیا کہ: قیامت کب واقع ہوگی؟
    اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: جواب دینے والا ، پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔
    پھر اس نے قیامت کی علامات اور نشانیوں کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں بتایا کہ :جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور جب سیاہ اونٹوں کے چرواہے مکانات کی تعمیر میں باہم ایک دوسرے سے بازی لے جائیں ۔
    اس کے بعد وہ شخص چلاگیا تو حضور علیہ السلام نے صحابہ کرا مؓ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ یہ شخص کون تھا ؟ صحابہ کرامؓ نے لاعلمی کا مظاہر ہ فرمایا ۔ بعض روایات میں آتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے کہاکہ : جاؤ اور اسے ڈھونڈ کر لاؤ۔جب صحابہ کرامؓ اسے تلاش کرکے واپس آئے تو انہوں نے کہاکہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تو اسے نہیں پایا۔حضور علیہ السلام نے فرمایاکہ: یہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔
    اس حدیث جبریل ؑ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین3 چیزوں سے عبارت ہے۔
    ایمان۔جملہ ایمانیات کے ساتھ ۔ اور اسلام  پوری اسلامی شریعت  اور اس کے احکامات  جن پر عمل کرنا واجب ہے۔نواہی جن سے اجتناب ضروری ہے ۔ان سب کو اسلام شامل ہے۔ اور احسان اپنے درجات کے ساتھ ۔ اس کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ بندہ جب عباد ت کرے تو یہ سمجھے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔اور اگر وہ اللہ کو نہیں دیکھ رہا ہے تو کم سے کم یہ سمجھے کہ اللہ تو  اسے ہر حال میں دیکھ رہا ہے ۔
    اس حدیث جبریل سے مسلمانوں کو یہ واضح درس ملتاہے کہ ہمارا دین جسے اسلام کہتے ہیں اس کے 3 عناصر اور اجزاء ہیں ۔ اور جزء اس چیز کو کہتے ہیں کہ اگر وہ مفقود ہوجائے تو کل ہی مفقود ہوجاتاہے۔تو یہ تینوں اجزاء ہمارے دین کی ہیئت ترکیبیہ ہیں۔دین کی تشکیل ان 3 چیزوں کے مجموعے سے ہوتی ہے ۔ تو اس لئے ہمیں ایمان میں کمال، اور اسلام پر اس کے تمام احکامات کے ساتھ عمل  اور احسان کو اس کے جملہ درجات کے ساتھ اپناتے ہوئے اللہ سے مانگنا چاہئے تاکہ ہمیں  ان میں اعلیٰ درجات حاصل ہو۔یہی ہمارا دین ہے۔
    یہ ہمارا دین ہے۔اور یہ مکمل ہے۔ اور اس میں کوئی چیز دوسرے سے الگ نہیں ۔
    ایمان کے جملہ ارکان اور اسلام کے تمام ارکان اور احسان کے دونوں مرتبے ،ان سب کے مجموعہ کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دینکم) تمہارے کا نام دیا ۔
    لہذا یہ ہمارے دین کے عناصر ہیں ۔ ہر مؤمن کو اپنے باطن کو ایمانیات سے اور ظاہر کو اسلامیات سے مزین کرناہے ۔ان تمام سے آراستہ ہونا شرعاً ہم سے مطلوب ہے۔
    اگر ایسا نہ ہو تو ہم کیسے دین دار ہوں گے اور ہمارے دین کی ہم پر تطبیق کیسے ہوگی؟
    اسی طرح ایمان واسلام کے بعد تیسر ی چیز احسان ہے یعنی احسان کیلئے محنت کرنا اور جدوجہد کرنا اور اسے ہی اہل علم نے تزکیہ ، سلوک اور باطنی طہارت کہاہے کیونکہ یہ چیز باطن سے تعلق رکھتی ہے۔کسی شخص نے اللہ تعالیٰ کو دنیا میں دنیا کی آنکھ سے نہیں دیکھا بلکہ قرآن نے کہا کہ :لا تدرکہ الأبصار وہو یدرکہ الابصار۔ اسے کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور وہ دیکھتاہے۔تو یہ ساری چیزیں  باطن سے تعلق رکھتی ہیں۔ بصیرت سے تعلق رکھتی ہیں ۔اور انسان کے اندر کی صفائی سے تعلق رکھتی ہے۔یہ مستقل  ایک محنت ہے جو اہل اصلاح  وتزکیہ اور اہل سلوک کرتے ہیں ۔
    اور یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واجبات نبوت میں سے تھا ( یزکیہم) آپ صحابہ کرام اور امت کا تزکیہ فرماتے تھے۔
    ہم میں سے ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان تینوں عناصر پر عمل پیر ا ہو اور ایمان اسلام اوراحسان کا حصول اس کا ہدف ہو ۔پھردین کی ایسی کیفیت کہ اہل علم کا جو شرعی فریضہ ہے کہ وہ عوام الناس میں اس کی محنت کریں۔
    پہلی چیز ایمان کو ہی دیکھ لیجئے ۔جملہ ایمانیات کا انسانی اخلاق کی بلندی اور انسان کے اندر کا تزکیہ اور باہر کی اصلاح جس قدر ایمانیات میں ہے۔اللہ کی عظمت کا استحضار۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام رسالت۔مقام اطاعت۔ اور اسوہ حسنہ ہونا۔یہ استحضار ہے۔جملہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے اطاعت گزاروں کا ہی کامیاب ہونا اور ان کے ساتھ دشمنی  اور عناد رکھنے والوں کے قصے جو قرآن حکیم نے بیان کئے ہیں  ۔ ان سب کا تفصیلی بیان سے مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اطاعت کرنے  اور نافرمانی کرنے والوں کے انجام کو دیکھ کر اطاعت کریں اور نافرمانی سے گریز کریں ۔
    قرآن حکیم کا مستقل درس ہے ۔تذکیر بایام اللہ ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے مطیعین اور مکذبین نے جو جو سلوک کیا ۔ یہ ایمان بالرسل کا تقاضا ہے۔
    پھر اس کے بعد ایمان ہی کا حصہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں پر ایمان لایاجائے ۔ انسان کو یہ پتہ ہو کہ ہما وقت 2 فرشتے میرے ساتھ ہی رہتے ہیں جو میرے اعمال کا حساب لگارہے ہیں اورپھر اللہ تعالی کے کتنے فرشتے ہیں جو میری حفاظت پر مامور ہیں ۔ کتنے فرشتے ہیں جو کھیتیوں کو اگانے اور بارشوں کے برسانے  اور مختلف غیبی نظام کو چلانے پر مامور ہیں  ۔
    اسی طرح آخرت پر ایمان یعنی اللہ اور اس کے رسولوں اور پھر آخرت کا وہ عظیم دن ۔جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کئی الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔سورہ فاتحہ میں اسے" یوم الدین" کہا ہے ۔اس دن کے وقوع کو کبھی" القارعہ" کہا ۔کہیں "الحاقہ" کہا۔کہیں اسے "یوم العظیم" کہاہے۔اس یوم ِ عظیم کا تصور پھر انسانوں کو اللہ کے سامنے پیشی اور اپنی زندگی کا حساب دینا۔
    یہ تمام چیزیںانسان کو لگام میں رکھ کر اللہ سے جوڑے رکھتی ہیں ۔ وہ اسے مجبور کرتی  ہیں کہ وہ اللہ کے حدود میں تعدی اور زیادتی نہ کرے۔
    پھر ایسے ہی انسان اس دنیا کے اندر کسی چیز کے کھونے اورپانے  میں خوش یا غمگین ہوتاہے۔اب دیکھیں کہ ایمان بالقدر انسان کے اندر سے اس کے اطمینان اور سکون کا ذریعہ یوں  بنتاہے کہ جب وہ یہ سمجھتاہے کہ اللہ نے جو میرے لئے لکھا ہے وہ ہر حال میں  مجھے ملنا ہے اور جو اس نے نہیں لکھا میں کبھی اسے حاصل نہیں کرسکتا۔پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو نفع یا نقصان میرے لئے مقدر فرمایا ہے پوری دنیا مل کر بھی اس نفع کو نقصان میں اور نہ نقصان کو نفع میں بدل سکتی ہے۔
    ایمانیات کے یہ تصورات اصل میں انسان  کیلئے اس دنیا میں لگام کا کام دیتی ہے۔پھر جب ایسا انسان  اللہ کی حدود کو پہچانتاہے ۔سمجھتاہے اور ایمان کی لگام اسے لگی ہوئی ہے تو اس کیلئے اسلام کے جملہ ارکان  پر عمل کرنا آسان ہوجاتاہے۔ پھر یہ نماز اس کے اندر خشوع پیدا کرے گا اور نماز سے وہ خاشعین کے مقام پر پہنچے گا۔اسے نماز میں لذت محسوس ہوگی  اور وہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی جیساکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وقرۃ  عینی فی الصلاۃ۔ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔
    اسی طرح روزہ اسے قرب خداوندی کا ذریعہ نظر آئیگا۔یہ احکام اس  کے تزکیہ کے سبب بنیں گیں اور اسے ا ن میں لذت محسوس ہونے لگے گاجیسا کہ سلف سے مذکور ہے کہ : دنیا  میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس دنیا کی اصل لذت کو نہیں چکھااور وہ اصل لذت ان اعمال میں حلاوت کا احساس ہے۔
    حضور علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے : ثلاث منکن فیہا وجد بہن حلاوۃ الایمان۔ایمان کی شیرینی ہوتی ہے اور اعمال کا شوق ہوتاہے۔یہ اسے حاصل ہوگا۔اب یہ انسا ن واقعی احسان کے درجہ کے طرف گامزن اور راہی ہوگا۔اب اسے کونسا درجہ ملتاہے؟جس قد اسے ایمانیات میں قوت اور اسلامیات میں استقامت ہوگی اسی قدر اسے احسان میں درجہ حاصل ہوگا۔یا تو سب سے ا علی ترین درجہ کہ وہ ایسے عبادت کرے گا کہ گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہاہے  یا کم از کم یہ استحضار کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔
    دین کے ان مراتب میں حسین وجمال ہم آہنگی اور لطیف ترتیب ہے ۔ جس قدر ایمانیات محکم ہونگی اسی قدر اسلام کے احکام پر عمل کی توفیق اور استقامت حاصل ہوگی اور پھر ایمان محکم اور اسلام مستحکم کے نتیجے میں احسان کا اعلیٰ درجہ نصیب ہوگا۔
     اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کامل کی دولت اور مکمل اسلام پر عمل کی توفیق اور احسان کا عالی درجہ عطا فرمائے،آمین۔
 

مزیدپڑھیں:- - -  -نبی رحمت ، سراپا عفو و درگزر

 

شیئر: