Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ریاستداں‘‘

شہزاد اعظم
پچپن کے بعد ہمارے بچپن کی بات ہے ، مس شکیلہ ہمیں فرق سمجھا رہی تھیں، ہم سمجھ رہے تھے، وہ سنارہی تھیں، ہم سن رہے تھے، وہ لکھا رہی تھیں، ہم لکھ رہے تھے، وہ بَنا رہی تھیں، ہم بَن رہے تھے، وہ پڑھا رہی تھیں، ہم پڑھ رہے تھے، وہ چُنا رہی تھیں، ہم چُن رہے تھے، وہ بُنا رہی تھیں، ہم بُن رہے تھے۔ مختصراً یہ کہ حصول علم و آگہی کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔ اُس روز وہ ہمیں باور کرا رہی تھیں کہ ایک عام آدمی اور سیاستداں میں کیا فرق ہے۔ انہوں نے آج سے نصف صدی قبل جو کچھ فرمایاتھا، اس کا لب لباب یہاں بیان کیا جا رہاہے ، یقین جانئے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے عظیم مدرسہ نے اُس وقت ہی 50برس بعد کا نقشہ کھینچ دیا تھا۔ مس نے کہاتھا کہ:
اگر کوئی عام آدمی خواہ اسے کتنی ہی بھوک کیوں نہ لگی ہو،کسی ہوٹل، ڈھابے یا تندور وغیرہ سے روٹی اٹھا کر بھاگے تو اس کا یہ عمل چوری اور وہ خود چور کہلائے گا۔ اگر کوئی سیاستداں قومی خزانے سے اربوں روپے چُرا لے تو اس کا یہ عمل چوری کہلائے گا مگر اُسے چور نہیں کہا جا سکتاکیونکہ وہ سیاستداں ہے، اسے استثنیٰ حاصل ہے، اسے چور جیسے گھٹیا لقب سے پکارنا جمہوریت کی توہین ہے۔
 اگرکوئی عام آدمی کسی پر تشدد کرتا ہے تو اس کا یہ عمل ظلم اور وہ خود ظالم کہلائے گا ۔ اگر کوئی سیاستداں کسی معصوم پر بے جا تشدد کرے، اسے مار مار کر ادھ موا کر دے تو اس کا یہ عمل ظلم کہلائے گا مگر اسے ظالم نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ سیاستداں ہے، اسے استثنیٰ حاصل ہے، اسے ظالم جیسے گھٹیا لقب سے پکارنا جمہوریت کی توہین ہے۔
اگر کوئی عام آدمی تعلیم حاصل نہیں کرتاتو وہ جاہل کہلاتا ہے اور اس کا یہ عمل جہالت شمار ہوتا ہے ۔ اگر کوئی سیاستداں تعلیم  حاصل نہ کرے تو اسکا یہ عمل جہالت کہلائے گا مگر اسے جاہل نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ سیاستداں ہے، اسے استثنیٰ حاصل ہے، اسے جاہل جیسے گھٹیا لقب سے پکارنا جمہوریت کی توہین ہے۔
اگرکوئی عام آدمی دودھ میں پانی ملائے تو اس کا یہ عمل بے ایمانی اور وہ خود بے ایمان کہلائے گا۔ اگرکوئی سیاستداں دودھ میں پانی ملائے تو اس کا یہ عمل بے ایمانی کہلائے گا مگراسے بے ایمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ سیاستداں ہے، اسے استثنیٰ حاصل ہے، اسے بے ایمان جیسے گھٹیا لقب سے پکارنا جمہوریت کی توہین ہے۔
اگر کوئی عام آدمی لڑکی بیاہ کر لے آئے تو اس کا یہ عمل شادی اور وہ خود دولہا کہلائے گا۔ اگر کوئی سیاستداں لڑکی بیاہ کر لے آئے اس کا یہ عمل شادی کہلائے گا مگر اسے دولہا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ سیاستداں ہے، اسے استثنیٰ حاصل ہے، اسے دولہا جیسے عام جھام لقب سے پکارنا جمہوریت کی توہین ہے۔
اگر کوئی عام آدمی حقیقت کے برعکس بات کرے تو اس کا یہ عمل جھوٹ اور وہ خود جھوٹا کہلائے گالیکن اگر کوئی سیاستداں جھوٹ بولے تو اس کا یہ عمل جھوٹ کہلائے گا مگر اسے جھوٹا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ سیاستداں ہے، اسے استثنیٰ حاصل ہے، اسے’’جھوٹے‘‘ جیسے گھٹیا لقب سے پکارنا جمہوریت کی توہین ہے۔
 سیاستداں، استثنیٰ اور توہین کی تکرارسنتے سنتے ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، ہم سیخ پا ہوگئے اور زندگی میں پہلی مرتبہ ہم نے مس شکیلہ کو ’’ڈانٹ‘‘ پلا دی۔ ہم نے کہا ’’مس! اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہنے کی اجازت دے دیں‘‘۔ انہوں نے کہا جی جی بولئے۔ ہم نے کہا کہ ’’آپ اتنی دیر سے ہمیں عام آدمی اور سیاستداں کے مابین پایاجانے والا فرق سمجھا رہی ہیں، ہمیں خیال آیا کہ آپ ایک ہی موضوع پر گفتگو کرتے کرتے تکان کا شکار ہوگئی ہوں گی ، کیوں نہ موضوع کو ایک اور زاویے سے پرکھاجائے؟‘‘ انہوں نے ہمیں ا جازت عطا کر دی۔ ہم نے کہا کہ مس! اگر چوری کرنے و الے سیاستداں کو، ظلم کرنے و الے سیاستداں کوظالم،جہالت کے حامل سیاستداں کوجاہل، بے ایمانی کرنے و الے سیاستداں کوبے ایمان،شادی کرنے والے سیاستداں کو دولہا اورجھوٹ بولنے و الے سیاستداں کو جھوٹا نہیں کہا جا سکتا تواگرمجبوراً حقائق بیان کرنا پڑ جائیں تو عام آدمی کیا کرے، خاموش ہو جائے ، لب سی لے ،کیا کرے؟ مس شکیلہ نے کہا کہ ذرا اپنی حدود میں رہیئے ،یہ دیسی مرغے کی طرح ’’پھدک پھدک کر التجاء‘‘ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ کوکسی بھی ایسے سیاستداں کے بارے میں حقائق بیان کرناپڑ جائیں تو آپ چورکو’’منی لانڈرر‘‘قرار دے سکتے ہیں، ظالم کو ’’اصول پسند‘‘،جاہل کو ’’سادہ طبیعت‘‘، بے ایمان کو ’’اسمارٹ‘‘، دولہاکو ’’نیولی ویڈ‘‘اور جھوٹے کو ’’یوٹرن کا ماہر‘‘ کہہ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یاد رکھئے، سارے سیاستداں ایک جیسے نہیںہوتے، ان میں قابل ستائش بھی ہیں اور قابل آزمائش بھی۔ہم نے جھلا کر کہا کہ مس! وہ سیاستداںجو نہ چوری کرتا ہو،نہ ظلم، نہ وہ جاہل ہونہ بے ایمان اورنہ ہی وہ جھوٹ بولتا ہو،اسے کیا کہیں گے؟ مس شکیلہ نے تاریخی جواب دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر کوئی سیاستداںچوری، ظلم، جہالت، بے ایمانی اوردروغ گوئی جیسے عیبوں سے دور ہو تو اسے استثنیٰ کی ضرورت نہیں رہتی اور وہ لوگ جو استثنیٰ سے مستثنیٰ ہوں وہ صرف قابل قدر سیاستداں ہی نہیں بلکہ ’’ریاستداں‘‘ کہلاتے ہیں۔
 ’’ریاستداں‘‘ کے بارے میں مس شکیلہ سے سن تو لیاتھا مگر دیکھا نہیں تھا، آج پاکستان کواپنی تشکیل کے71 برس بعد بالاخر ’’ریاستداں‘‘  مل ہی گیا:
’’مرے وطن تجھے ہر دن نیامبارک ہو‘‘
 

شیئر:

متعلقہ خبریں