Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کویت میں ”غیر ملکیوں“ کا مسئلہ

سمیر عطا اللہ ۔ الشرق الاوسط
میں ایسے بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں جو نوجوانی میں کویت آئے تھے اور اب وہ ریٹائر ہوگئے ہیں۔ اب وہ اپنے وطن میں اجنبی بن گئے ہیں۔ نہ وہاں انکا کوئی دوست ہے اور نہ ہی جاننے والا اور نہ اپنے وطن سے انکی کچھ یادیں وابستہ ہیں۔ آپ انکے ساتھ کیا کریں گے؟ کیا آپ ا نہیں طویل المدتی اقامہ یا شہریت دیں گے یا انہیں کویت میں سب کچھ چھوڑ کر اپنے وطن واپس جانے کا حکم دیں گے یا انہیں مکمل شہریت سے کم درجے کا دائمی اقامہ عطا کرنے پر اکتفا کریں گے؟
یہاں ایک اور گروہ ہے جو زیادہ اہم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کویت میں پیدا ہوئے ،یہیں تعلیم حاصل کی۔ یہیں ملازمت کرتے رہے۔ آخر میں انہیں اپنے آباﺅ اجداد کے وطن واپسی پر مجبور ہونا پڑا۔ شرم الشیخ میں ہونے والے دنیا بھر کے نوجوانوں کے فورم میں کویت کی نمائندگی ڈاکٹر سارہ ابو شعر نے کی۔ انہوں نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور انکی بیگم کے سامنے تقریر کی۔ انکی تقریر نہ صرف یہ کہ اپنے رفقائے کار کی ترجمانی پر مشتمل تھی بلکہ ہر جگہ معذور نوجوانوں کے حقوق کی نمائندگی بھی انکی تقریر کا حصہ تھی۔
سارہ ابو شعر نے2 کہانیاں بیان کیں۔ پہلی کہانی کا تعلق اس دن سے تھا جب وہ کویت کی جنگ آزادی کے بعد 7برس کی بچی تھیں۔ اس وقت انہوں نے امریکی صد ر جارج بش سینیئر سے مصافحہ کیا تھا۔ صدر بش نے جھک کر ننھی بچی سے پوچھا تھا کہ تم مستقبل میں کیا بننا چاہتی ہو؟ اس بچی نے بلا تردد یہ جواب دیا تھا کہ میں ”امریکہ کی صدر “ بننا چاہتی ہوں۔ صدر بش نے اس کا جواب یہ کہہ کر دیا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو اپنا ووٹ میں تمہیں دونگا۔
چند برس بعد سارہ ہارورڈ گئی۔ وہاں انہوں نے وائٹ ہاﺅس میں سیاسی تربیت کا کورس کیا۔ انہوں نے اپنی شامی نانی کو جب یہ بتایا کہ وہ حکومت میں شامل ہونے کا خواب دیکھ رہی ہیں تو نانی نے اس کے سینے پر اپنا ہاتھ جڑتے ہوئے شامی لہجے میں کہا کہ ”تم اپنی قبر اپنی ہاتھ سے کیوں کھود رہی ہو؟ کوئی اور خواب دیکھو“۔ احمد الصراف نے نوجوانوں کے میلے میں سارہ کا خطاب سن کر القبس اخبار میں سوال اٹھایا کہ کیا کویت میں نشوونما پانے والی اور ہارورڈ میں سن بلوغت کو پہنچنے والی سارہ کو شہریت سے محروم کیا جاسکتا ہے؟ نیا قانون ہی اس کا جواب دے گا جو شہریت کے حقداروں اور غیر حقداروں کا فیصلہ کریگا۔
عبداللہ بشارہ کہتے ہیں کہ 15برس قبل انکی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی تھی۔ اس نے اپنا تعارف یہ کہہ کر کرایا تھا کہ میں لبنانی نژاد کینیڈین ہوں۔ اس نے بتایا کہ2ہفتے کے دورے پر آیا ہوا ہوں۔ ایک سال بعد اس نوجوان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا کہ اس نے اپنا قیام کچھ عرصے کیلئے بڑھا لیا ہے۔ چند روز قبل ایک شخص نے اس کے بازو کو تھپتھپایا اور نوجوان نے اس کی جانب دیکھا۔ کینیڈین نے کویتی لہجے میں سوال کیا کہ ”بھائی ابو معتز کیسے ہو۔ ابو معتز کو یہ سن کر حیرت ہوئی کہ کیا کوئی ایسا کوئیتی بھی ہوسکتا ہے کہ جس کی آنکھیں نیلی ہوں اور اسکی رنگت کینیڈا کے شہریوں جیسی ہو۔ ابو معتز کو ایسا لگتا کہ اسکے ساتھی پر کویت کا جادو چڑھ گیا ہے اور شدید درجہ حرارت نے اسے تبدیل کردیا ہے۔
خلیج کے تمام ممالک میں کویت واحد ملک ہے جس نے عرب تارکین کے مسئلے کا سامنا ٹھوس بنیادوں پر کیا۔ 5لاکھ افراد کویت کی شہریت کے طلب گار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بدون کہا جاتا ہے۔ بدون سے مراد ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس کسی ملک کی شہریت نہیں ہوتی۔ کویت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان سب لوگوں کو اپنے یہاں کیونکر بسا سکے گا ۔ مشکل یہ ہے کہ کویت کا صرف 8فیصد علاقہ رہائش کے قابل ہے اور باقی 92فیصد پیٹرول اور گیس وغیرہ کے ذخائر سے معمور ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جیسے جیسے کویت ترقی کرتا جائیگا خوشحالی اور استحکام آئیگا۔ اتنا ہی زیادہ کویت سے اچھی امیدوں کا سلسلہ بڑھتا چلا جائیگا۔ کویتی وزیراعظم شیخ جابر المبارک کا کہناہے کہ ہماری دنیا بدلتی رہتی ہے البتہ قانون اپنی جگہ پر اٹل ہے، وہ نہیں بدلتا۔ ہمارا پورا علاقہ صحراءتھا اب قصر الحکم مشرق کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔ ریاست لوگوں کی زندگی منظم کرسکتی ہے ۔ انہیں انکے حقوق دے سکتی ہے تاہم اپنی آرزوﺅں کو لگام نہیں لگا سکتی۔
********
 
 

شیئر: