Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

داعش کے حامی سے مکالمہ

***احمد الرضیمان۔الوطن***
مجھ سے کہا گیا کہ فلاں صاحب ہمارے قائدین کو کافر قرار دے رہے ہیں اور داعش کے حامی ہیں ۔ میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں سلام کیا اور دریافت کیا آپ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ آپ داعش کے حامی ہیں اور سعودی عرب کے قائد کو کافر سمجھتے ہیں کیا یہ بات درست ہے ؟
داعشی:جی ہاں
الرضیمان:آپ داعش کی کیوں حمایت کر رہے ہیں ؟
داعشی:حالات حاضرہ نے مجھے داعشی بنا دیا۔
الرضیمان:کیا حالات حاضرہ ہیں جنہوں نے آپ کو داعشی بننے پر مجبور کر دیا؟
داعشی:ہمارے قائدین اہل شرک کو دوست بنائے ہوئے ہیں اور مسلمانوں پر انہیں ترجیح دے رہے ہیں ۔یہ کفر کی علامت ہے ۔ ریاست مسلمانوں کے خلاف کفار سے تعاون کرے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں واضح کئے ہوئے ہے کہ جو شخص بھی اہل کفر کا والی بنے گا وہ بھی ان میں سے ایک شمار کیا جائیگا ۔ 
الرضیمان:کیا یہ آپ کی ایک دلیل ہے یا اس کے سوابھی اور دلائل ہیں ؟
داعشی:میری دلیل یہی ہے اس کے سوا کوئی اور نہیں ۔
الرضیمان:اب آپ مجھے سنئے۔آپ کے ذہن میں کوئی اشکال ہو تو اس کی وضاحت طلب کرنے کا آپ کا حق بنتا ہے ۔ میں اپنی بات کہہ چکو تو آپ اپنا اعتراض ریکارڈ کرائیں۔
داعشی:ٹھیک ہے۔
الرضیمان:سعودی ریاست کبھی بھی نہ کفر اکبر کی مرتکب ہوئی اور نہ کفر اصغر کی ۔آپ نے جو دعویٰ کیا ہے وہ سراسر غلط ہے ۔ سعودی حکومت نے جو کچھ کیا وہ شرعی فریضہ کے طور پر انجام دیا۔جہاں تک داعش تنظیم کا تعلق ہے تو وہ ہمارے ملک اور معاشرے کے خلاف برسر پیکار منحرف مجرم گروہ ہے ۔ داعش کے لوگوں نے مساجد میں نمازیوں کو قتل کیا ۔ بعض نے اپنی ماں ، اپنے ماموں اور اپنے چچازاد کا خون کیا ۔ ان میں سے کئی نے کثیر تعداد میں لوگوں کو ہلاک کرنے کیلئے خودکش دھماکوں کی کوشش کی ۔ ایسے عالم میں سعودی ریاست کا شرعی فرض یہی بنتا تھا اور بنتا ہے کہ وہ حملہ آوروں سے نمٹے ان کی بیخ کنی کرے ، سعودی حکومت نے یہی کیا ۔ ملک و قوم کی حفاظت سعودی ریاست کے فرائض میں شامل ہے ۔ اگر ہماری قیادت یہ کام انجام دے رہی ہے تو شرعی فریضہ پورا کر رہی ہے اس میں کفر کی کوئی بات آتی ہی نہیں ہے ۔ 
جہاں تک حملہ آور داعش کے خلاف کفار کے ساتھ اتحاد کا دعویٰ ہے تو یہ نہ کفر ہے نہ فسق ہے اور نہ کوئی غلط کام ہے ۔ اسلامی شریعت نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے ۔ دلیل رسول کا یہ ارشاد ہے کہ ’’تم لوگ اہل روم (نصرانیوں)سے امن مصالحت کرو گے ، تم لوگ اور تمہارے عقب میں موجود دشمن لشکر کشی کرینگے ۔ تم لوگ محفوظ رہو گے اور مال غنیمت حاصل کرو گے ۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حملہ آور کا حملہ روکنا شرعی فرض ہے ۔ حملہ آور مسلمان ہو یا غیر مسلم ۔ 
جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ جو ان سے تعلق استوار کریگا وہ انہی میں سے ہو گا ۔ آپ نے اس آیت سے جو استدلال کیا ہے وہ سراسر غلط ہے ۔ اس آیت کا تعلق جارح کی جارحیت روکنے کیلئے تعاون پر بندش سے نہیں ۔ مشترکہ مفادات میں دشمنوں کے ساتھ تعاون کیا جا سکتا ہے اور دشمنوں سے تعاون لیا جا سکتا ہے ۔ جو لوگ مشترکہ مفادات میں غیر مسلموں کے ساتھ عدم تعاون کو کفر گردانتے ہیں وہ خوارج ہیں اہل السنہ و الجماعہ نہیں ۔میں آـپ سے سوال کرنا چاہوں گا کہ اگر آپ اپنے زرعی فارم میں ہوں اور مسلم ڈاکو آپ پر حملہ آور ہو جائیں ، آپ کے یہاں غیر مسلم کارکن ہوں آپ ان کی مدد سے حملہ آور ڈاکوئوں کو پسپا کریں تو کیا ایسی صورت میں آپ ملت سے خارج کافر بن جائو گے؟
داعشی:خود کا دفاع اور حرمتوں کا دفاع کرنا شرعی فریضہ ہے ایسا کرنے سے مسلمان کافر نہیں ہو گا ۔
الرضیمان:اگر یہ بات درست ہے تو سعودی ریاست کا حملہ آور داعشیوں کے حملے پسپا کرنے کیلئے غیر مسلموں کے ساتھ تعاون یا غیر مسلموں کے ساتھ تعاون حاصل کرنا کفر کا باعث کیسے ہو سکتا ہے؟حملہ آور مسلمان ہو یا غیر مسلم دونوں ہی کا حملہ روکنا ضروری ہوتا ہے یا آپ ان دونوں میں کوئی فرق کرتے ہیں ؟
داعشی:جی دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
(باقی آئندہ)
 

شیئر: