Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کا نسلی امتیاز ہر قانون سے بالاتر

ڈاکٹر امین ساعاتی ۔ الاقتصادیہ
جولائی 2018ءکے دوران اسرائیل نے اپنے وحشیانہ کارناموں میں ایک اور کارنامے کا اضافہ کردیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے 19 جولائی 2018ءکو معمولی اکثریت سے ”قومیت کا قانون “ منظور کرلیا۔ اس کے تحت اسرائیل کو یہودی ریاست بنادیاگیا۔ اسرائیل کا یہ قانون بین الاقوامی قانون کے سراسر منافی ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے اسکی منظوری دیکر اپنے یہاں یہودی ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ 1948ءکے عربوں کے سراسر خلاف ہے جن کی تعداد 1.8ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ اسرائیل کی کل آبادی کا 20فیصد ہیں۔
اس قانون کے اجراءپر فلسطینی دفتر خارجہ نے اسرائیل او راسکے نئے نسلی قانون کےخلاف عالمی رائے عامہ کے سامنے متعدد سیاسی و قانونی مسائل پیش کردیئے۔ فلسطینی دفتر خارجہ نے واضح کردیا کہ نسلی تفریق کااسرائیلی قانون بین الاقوامی برادری کے منظور کردہ متعدد قوانین کے منافی ہے۔ یہ اس جمہوریت کے اصولوں سے بھی میل نہیں کھاتا جس کا گانا اسرائیل گاتا رہتا ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے نسلی تفریق کے قانون کی منظوری کے فوری بعد ہی خبررساں اداروں نے اطلاع دی کہ فلسطینی حکومت اسرائیل کی جانب سے القدس کو اپنا دارالحکومت قرار دینے اور قانون قومیت کے حوالے سے مکمل مہم چلانے کی تیاری کررہی ہے۔
نہ جانے کیوں اچانک فلسطینی حکومت نے چپ سادھ لی۔ فلسطینی عہدیداروں کے بیانات پر گرد چھا گئی۔ فلسطینی دفتر خارجہ منظر سے غائب ہوگیا۔فلسطینیوں کے اختلافات کا حل اسکی اولیں ترجیح بن گیا۔ 
اگر ہم یہودی قومیت کے قانون پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اسکی پہلی دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل میں حق خود ارادیت صرف اور صرف یہودی عوام کو حاصل ہے۔ ا سرائیلی حکومت دنیا بھر سے صرف اور صرف یہودیوں ہی کو اسرائیل لاسکتی ہے۔ اسرائیلی قومیت کے قانون میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو اسرائیل میں جمع کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی گئی ہے۔ اس قانون کے بموجب نہ صرف یہ کہ فلسطینی عوام کے حقوق اور قابض طاقت کے خلاف طویل جدوجہد کے انکے حق کا خاتمہ کردیاگیا ہے بلکہ نسلی تفریق پر پابندی عائد کرنے والی بین الاقوامی دستاویز اور فیصلوں پر بھی حرف تنسیخ پھیر دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت عدل ، انصاف اور برابری کے اصولوں کو بھی ملیا میٹ کردیا گیا ہے۔ قانون کی تیسری دفعہ میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ القدس اسرائیل کا ہی دارالحکومت ہے۔ یہ حصہ بھی عالمی برادری کی جملہ قراردادوں کے منافی ہے جس میں مشرقی القدس کو فلسطینی دارالحکومت کا حصہ مانا گیا ہے۔ یہودی قومیت کے قانون کی دفعہ 4میں عربی زبان کو بھی نظر انداز کردیا گیا ہے کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ عبرانی زبان ہی ریاست کی زبان ہوگی۔ ہزاروں برس سے چلی آرہی عربی زبان جو اس علاقے کے باشندوں کی حقیقی زبان ہے،اسے زندہ درگور کردیا گیا۔ ساتویں دفعہ میں تحریر کیاگیا ہے کہ نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔ پہلے سے موجود بستیوں کی تجدید ہوگی۔
بین الاقوامی برادری یہودی آباد کار ی کے حوالے سے بہت ساری قراردادیں منطور کئے ہوئے ہے۔ نئے اسرائیلی قانون نے اس سے بھی منہ موڑ لیا ہے۔1947ءکے دوران فلسطین کی تقسیم کا بین الاقوامی فیصلہ اور دسمبر2017 ء کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد کو بھی پس پشت ڈال دیاگیا۔
قانون قومیت دراصل قابض حکام کے عملی اقدامات کو قانونی شکل دینے کی ایک کوشش ہے۔ قانون میں جو کچھ کہاگیا ہے، اسرائیلی حکام برسہابرس سے وہی سب کچھ کررہے ہیں۔ اسرائیل نے قانون بناکر مسلسل 7عشرو ں پر محیط 170سے زیادہ بین الاقوامی قراردادوں کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اسرائیل میں فلسطینیوں کے خلاف 65سے زیادہ نسلی تفریق کے قوانین موجو ہیں۔ نیا قانون ان سب سے بہت آگے چلا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس قانون کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کا موقف کیا ہے؟ کیا عالمی برادری جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق کے نظام کے خلاف جو اقدامات کرچکی ہے آیا وہی قوانین اسرائیل کے خلاف بھی نافذ کریگی یا اسرائیل ہر بین الاقوامی قانون یا دستاویز سے بالا تر رہیگا؟ سیکولر ازم، جمہوریت اور کثیر ثقافتی معاشروں کے دعویدار بڑے ممالک اس قانون پر چپ سادھے رہیں گے؟ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: