Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام کی وسعت اور امت کی میانہ روی

٭٭٭ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔مکہ مکرمہ٭٭٭
اسلام جو اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ حضرت انسان کیلئے دین ہے ،وہ اپنی اصل  صورت  اور منہج میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں مرغوب اور انسانی طبیعت سے ہم آہنگ ہے۔
دین اور انسان کی طبیعت کی ہم آہنگی یہ دونوں فطری امر ہیں ۔چونکہ دونوں یعنی دین اور انسان کا واضع اور خالق ایک ہی ہے تو یہ لازمی امر ہے کہ دونوں میں ہم آہنگی اور یکسانیت ہو۔
اب دین کیا چیز ہے؟
دین خالق کا وہ وضع کردہ نظام ہے جو انسان کی  پوری دنیوی اور اخروی زندگی کی سعادت کا کفیل ہے۔
یہاں دنیوی زندگی کے مقابلے  میں دینی نہیں بلکہ اخروی زندگی ہے ۔کیونکہ دنیا کا مقابل آخرت اور دین کا مقابل لادینی ہے۔
اب دین کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا وہ نظام جو دنیوی اور اخروی سعادت کا کفیل اور ضامن ہے۔
تو اسلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جوخوبصورتی اور جمال دیا ، وہ عین حضرتِ انسان کی جمالیاتی فطرت  اور اس کے ہم آہنگ ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :  فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا ۔یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر انکی خلقت ہوئی ہے۔
نیز فرمایا :ما جعل علیکم  فی الدین من حرج۔تمہارے دین میں ہم نے تنگی نہیں رکھی
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بعثتُ بالحنیفیۃ السمحۃ۔مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسی شریعت دی جس میں باطل سے علیحدگی اور اسکے اندر خوبصورتی  ہے۔
  اور دین کے بارے میں فرمایا کہ: اس میں وسعت ہے ،جو کہ انسانی طبیعت سے فطری طورپر ہم آہنگ چیز ہے۔
تو امت کی وسطیت  اور دین کی سماحت ، یہ دو ایسے خوبصورت وصف ہیں، جنہیں اہلِ علم کا فرض ہے کہ وہ انسانیت کے سامنے خوب بیان کریں ۔بڑوں کا فرض ہے کہ وہ چھوٹوں کے سامنے بیان کریں ۔مردوں کا فرض ہے کہ وہ عورتوں کے سامنے بیان کریں ۔
یعنی ہماری نسل در نسل بڑوںکا کام یہ ہے  کہ وہ آنے والی نسل کو اس چیز کی تربیت دیں کہ انسان کی فطرت کے  ہم آہنگ نظام حیات ہے اسی کا نام دینِ اسلام ہے۔
اب اللہ تعالیٰ جب قرآن حکیم میں یہ فرماتے ہیں کہ : ہم نے تمہیں امتِ وسط بنایا۔تو میانہ روی وسعت ہوا اور یہ کہ تمہارے  دین کواللہ تعالیٰ نے حنیفیت سمحاء بنایا ہے جس کے اندر کمال درجہ کا  جمال ہے اور کسی قسم کی تنگی  ہی نہیں ، تو اب اس کا کیا مطلب ہے؟
تو جہاں تک وسطیت کا سوال ہے تو اسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں بیان کیا : وکذالک جعلناکُم امۃ وسطا۔
تو وسطیت امت کے اندر ایک ایسا محمود وصف ہے جو مطلوب ہے ، اور غرض یہ ہے’’لتکونوا شہدا علی الناس‘‘  تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔
  تو یہ امت وسط بھی ہے اور یہ امت گواہ بھی ہے۔گواہ اس بات کی کہ یہ سابقہ امتوں پر گواہی دے گی کہ ان لوگوں نے اپنے اپنے انبیاء کی اور اپنے اپنے شرائع کی کس قدر اتباع کی اور کس قدر اپنے انبیاء علیہم السلام کی اطاعت نہ کی اور یہ بھی کہ کس قدر نافرمانی کی۔اب یہ شہادت تو امت دے گی اللہ تبارک وتعالیٰ کے بیان کے بعد۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو سابقہ اقوام کے جو احوال بتائے تو وہ ایسے نہیں بتائے کہ قصے کہانیاں ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ امت، ذمہ دار امت ہے اور یہ امت ان پر گواہ ہے۔
اور آگے فرمایا کہ :تمہیں امت وسط بنایا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول علیہ السلام تم پر گواہ ہوں۔
اب امت کی گواہی کا تو ہم نے ذکر کیا۔رسول اللہ کیا گواہی دیں گے؟
وہ امت کی استقامت کی گواہی دیں گے کہ میری امت نے کس حد تک شریعت کو اپنایا۔ کس قدر قرآن کریم کی تعلیمات کی اپنی عملی زندگی میں تطبیق کی؟
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بار ے میں یہ شہادت ہوگی جیسا کہ قرآن نے نقل فرمایا کہ رسول فرمائیں گے:
’’اے میرے پروردگار !ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مہجورا۔میری اس قوم نے اس قرآن کو ( جسے آپ نے نازل کیا تھا ۔جو ان کی زندگی کا نصب العین  قراردیا)انہوں نے اسے چھوڑدیا ۔‘‘
اب وسطیت کیاہے؟ وہ اس کا اعتدال اور میانہ روی ہے جوکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن کے ذریعے اور رسول اللہ نے اپنی سنت کے ذریعے امت کو اس پر ڈالا ۔
تو یہ وسطیت امت کی کیاہے؟
الوسط  ہو الخیار فی کلام العرب۔
جب کسی چیز کو  وسط کہاجائے کہ یہ چیز وسط ہے ۔ وہ اپنی نوع میں سب سے بہترین قسم ہوتی ہے۔درمیان والی چیز ہمیشہ سب سے بہتر ہوتی ہے۔
اسی طرح وسط اگر کوئی رائے ہو، عقیدہ ہو، کوئی عمل ہو ۔تو اس عمل میں وسطیت کا مطلب یہ ہے کہ اس میں شدت نہیں، اس میں  بیجانرمی نہیں ۔اس میں نہ افراط ہے اور نہ اس میں تفریط بلکہ ہم سے پہلے دو امتیں یہود اور نصاری  اور دونوں کا حال قرآن میں مذکور ہے ۔اور یہ بھی ذکر ہے کہ ایک امت کے اندر تفریط تھی  ، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی  شرائع کی پرواہ ہی نہیں کرتی تھی ۔ اللہ کے عہود کو توڑتی اور انبیاء اللہ کو ناحق قتل کرتی تھی اور ان پر بہتان باندھتی تھی۔یہ تو ایک امت کا حال تھا  جو اللہ کے احکام سے بے اعتنائی برتتی تھی۔ اسے تفریط کہتے ہیں،یعنی حقوق  اللہ میں کمی کرنا اور اس کی پاسداری نہ کرنا۔
اب افراط کیا ہے؟افراط یہ ہے کہ جو چیز آپ پر لازم نہیں ہے ۔آپ نے خود اپنے اوپر لازم کردی ۔
قرآن حکیم میں مذکور ہے: ورہبانیۃ ابتدعوہاما کتبناھاعلیہم(الحدید27)۔کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو پوری دنیا سے کنارہ کش کرلیا اور خود کو عبادت گاہوں میں محدود کردیا اور خود پر ان چیزوں کو لاز م کردیا جو اللہ کی طرف سے لازم نہ تھیں۔یہ افراط ہے۔
اب دیکھیں ،دنیاوی زندگی میں، ہماری عبادات ہوں، معاش ہو، معیشت ہو، اقتصاد ،ہو لوگوں کیساتھ معاملات ہوں، لوگوں کے ساتھ اخلاق ہوں ۔ جتنے زندگی میں دنیوی امور ہیں ۔جو ہماری اس زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، وہ آخرت سے متعلق ہوں ،یعنی عبادات ہیں یا معاشیات ہیں ۔ان سب میں اللہ کو اعتدال اور میانہ روی پسند ہے۔
میانہ روی ہر انسان کے اندر اس کی قدر اللہ نے پیدا کردی ۔انسان کی طبیعت اس سے ہم آہنگ ہے۔انسان جو میانہ روی اختیار کرنے  والا ہے وہ لوگوں کے ہاں بھی محبوب اور اس طرح زندگی گذارتاہے کہ لوگ اس کی طرف اشارہ نہیں کرتے ہیں۔تو میانہ روی اختیار کرنے والا انسان لوگوں میں پسندیدہ ہوتاہے۔
مسلمان وہ امت ہے جس میں  انبیاء علیہم الصلاوۃ والسلام کے بارے میں یہود کی طرح نا تفریط تھی ۔جیسے ان کا ذکر  قرآن میں ہے کہ ’’فبما نقضہم میثاقہم‘‘ )اللہ کے عہود کو توڑنا )اور’’وقتلہم الانبیاء بغیر حق‘‘(  اور ناحق انبیاء علیہم السلام کو قتل کرنا) یہ تفریط تھی یہود میں۔
اور دوسری قوم نصاری کاافراط یہ تھا کہ انہوں نے اپنے اوپر ایسے کام  واجب کر رکھے تھے اور اتنا مبالغہ کیا  اللہ کے انبیاء کی شان میں کہ انہیں الہ تک بنایا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ اور تین میں سے تیسرا ۔ اور یہ کہ اللہ ہی مسیح  ابن مریم ہیں۔
انبیاء علیہم السلام کی شان دین کی تعلیمات اور اپنے لئے بہت سی مشقتیں خود بخود گھڑ لینا ۔یہ افراط ہے۔
ایک قوم افراط کا شکار ہوئی اور دوسری تفریط کا۔
ہمیں اللہ تعالیٰ نے امت وسط بنایا ، جس میں اعتدال ہے ۔ اللہ کی عبادت میں بھی اعتدال اور دنیاوی امور میں داخل ہونے میں بھی اعتدال ۔دنیا سے نہ منقطع ہیں اور نہ پورے طورپر دنیا میں غرق کہ حقوق اللہ میں غفلت ہو اور اسکے فرائض واجبات میں بے توجہی ہو۔
اسلام امت مسلمہ کا ایسا منہج حیات ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے وسعت بنائی اور خود امت کو ہر معاملہ میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ۔تو امت کی خوبی یہ ہے کہ وہ میانہ روی اختیار کرے اور دین کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اعتدال ہے۔
اسلام کے جس قدر احکام ہیں چاہے وہ کرنے کے ہیں یا نہ کرنے کے ہیں ۔چاہے وہ واجبات ہیں یا منہیات ہیں ۔ سب کے اندر اللہ نے بندوں کیلئے  آسانیاں پیدا فرمائی ہیں  ۔ان میں اعتدال  اور میانہ روی ہے۔تو ان کو اختیارکرنے والی امت خود بخود ایک درمیانی امت بن جاتی ہے ۔ جن میں نہ افراط ہوتاہے نہ تفریط ۔
  بعض صحابہ کے بارے میں مذکور ہے کہ ان میں سے بعض نے کہاکہ ہم ہمیشہ روزہ رکھیں گے اور افطار نہیں کریں گے ۔بعض نے کہاکہ ہم ہمیشہ پوری پوری رات نماز پڑھیں گے اور آرام نہ کریں گے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو اسے پسند نہیں فرمایا۔
شارع حکیم جس نے  انسان کو پیدا کیا اور ہمارے لئے اسلام کو بطورِ دین وضع فرمایا، اس کی حکمت ہے کہ اس نے ہمارے لئے رسول اللہ کواسوہ حسنہ قرارد یااور فرمایا:لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔’’تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات بطور نمونہ ہے‘‘۔ تو جب آپ نمونہ ہیں ،تو آپ کی تعلیمات پر غور کرنا چاہئے کہ جب آپ نے دیکھا کہ بعض صحابہ نے شادی ترک کرنے اور رات کو سونا ترک کرکے سارا دن روزہ اور پوری رات کو جاگنے کا ارادہ کیا اور عورتوں سے بھی دور رہنے کا قصد کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع فرمایا اور انہیں کہاکہ:اے لوگو !میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ، اور سب سے زیادہ عبادت کرنے والا ہوں۔ میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتاہوں ۔نمازبھی پڑھتاہوں اور آرام بھی کرتاہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتاہوں (یعنی ان کے حقوق اداکرتاہوں)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ وسطیت کی بہترین مثال ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس تبتل اور تعطل اور اعتزال سے اور دنیاوی امور سے دور رہنے سے منع فرمایا ۔اور اپنے آپ کو بطور مثال پیش فرمایا۔اب جب نمونہ آپ ٹھہرے تو یہی وسطیت کا نمونہ ہے۔
اللہ کی سنت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وسطیت کے ساتھ مبعوث فرمایا اور ایسا دین دیا  جس کے اندر تنگی نہیںہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا منہج عطافرمایا کہ اس سے اعرا ض کرنا یہ حضور کی سنت سے اعراض ہے۔پھر آپ نے فرمایا کہ جو میری سنت سے اعراض کر ے گا وہ مجھ سے نہیں ۔
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر اس فرد کیلئے ہدایات ہیںجو آپ کی امت کا فرد ہے اور یہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کا معیار ہے لہذا ہم کہتے ہیں کہ اسلام پورے کا پورا عین وسطیت ہے۔
اب وسطیت سے ہرگز کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام کے احکام کو چھوڑنا، انہیں اختیار نہ کرنا ۔ اوامر کو بجا نہ لانا ۔یہ سہولت اور وسطیت ہے ۔ یہ نہ تو سہولت ہے اور نہ وسطیت بلکہ یہ تو عین تفریط اور اللہ کے احکام کی ناقدری ہے ،جیسے بعض اہل الحاد قدیم اورجدید زمانے میں کرتے ہیں۔
وسطیت یہ ہے کہ انسان رہبانیت اور مادیت دونوں کے درمیان رہے ۔افراط اور تفریط کے درمیان رہے۔
صحابہ کرام نے نہ رہبانیت اختیار کی نہ دین کے احکام سے اعراض فرمایا۔ نہ انہوں نے اپنے لئے ان چیزوں کوواجب کیا جو واجب نہ تھے بلکہ جن صحابہ نے یہ کرنا بھی چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا۔تو گویا جس طرح احکام شریعت میں اعراض اللہ کو پسند نہیں،اسی طرح ان میں شدت بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔دین کے  امور میں شدت کرنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : وہ مغلوب ہوگا۔
  دین کی قیود سے آزادی اور دین کے مطالبات سے زائد قیود اپنے اوپر لگانا۔یہ دونوں اسلام میں جائز نہیں ۔
اب وسطیت کا ہرگز یہ معنی نہیں ہے کہ ہم واجبات شرعیہ کی پرواہ نہ کریں ۔ان میں کوتاہی کریں۔اسلام کے اوامر ونواہی کے ساتھ بے اعتنائی ہو ۔یہ تو خواہشات کی  پیروی ہے، ہرگز  ہرگز وسطیت نہیں۔
ایسے ہی اپنے اوپر ان امور کو لازم کرنا جو اللہ نے لازم نہیں کئے یہ رہبانیت ہے جو کہ وسطیت نہیں ۔
اسلام تو پورے کا پورا وسطیت سے  ہی عبارت ہے اور تمام اعمال اسلام وسطیت اور اعتدال سے عبارت ہیں۔ 
اسلام اپنے ماننے والوں کو خیر، فضیلت ،شرافت کا اگر حکم دیتاہے تو ساتھ ہی انہیں ان میں غلو اور شدت سے اور اعمال واحکام میں اہمال وتقصیر ہر دو سے روکتاہے۔
لہذا وسطیت کی دونوں طرفیں رذائل میں سے ہیں ۔اسلام میں شدت اختیار کرنا، فضیلت میں شمار نہیں ہوتا۔غلو اسلا م میں منہی عنہ ہے جو اللہ کو پسند نہیں۔ جس طرح کہ احکام میں تقصیر واہمال یہ وسطیت سے ہٹ کر دوسری جانب ہے۔ تو شدت وتشدد اور اہمال ان دونوں جانبوں کے درمیان اللہ کی پسندیدہ  راہ ہ اسلام ہے ۔
اسلام پورے کا پورا وسطیت سے ہی عبارت ہے۔تو جب امت مسلمہ  درمیانی امت ہے اور اسلام وسطیت والادین ٹھہر ا تو امت  کو بھی اسلام کی طرح معتدل رہناہے ۔لہذا اسلام کا پیروکار وہ خود معتدل اور میانہ  روی اختیار کرنے والا ہے تو کسی  کیلئے یہ روا نہیں کہ  وہ اسلام کو شدت پسندی سے یا امت مسلمہ کو شدت پسندی اور دہشت گردی سے موصوف کرے۔اسلامیں نہ غلو  وعنف ہے نہ تطرف اور شدت ہے ۔اسلام اس وصف سے بری ہے اور اس کے پیروکار مسلمان بھی اس مذموم وصف سے بری ہیں۔
لہذا اہل علم ودعوت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پہلو کو خوب عیاں کریں اور  اسے ضرور بیان کریں اور اپنی امت کو ان مذموم اوصاف سے محفوظ کریں، کیونکہ اہل الحاد کے انحراف اور شدت پسندوں کا غلو ہر دو  دین کیلئے خطرناک ہیںاور یہ دونوں پہلو اسلام اور مسلمانوں کے اصل خوبصورت چہرے کی بدنمائی کا سبب ہیں ۔
ہمارا شرعی واجب ہے کہ اسلام اور امت ہر دو کی خوش نمائی کے نمائندہ ثابت ہوں لہذا اہل ِ علم کا شرعی فریضہ ہے کہ وہ اسلام کا منہج اعتدال کھل کر بیان کریں اور امت مسلمہ اپنی سیرت میں میانہ روی کو اختیار کرے تاکہ ہم خیر امت کے سچے نمائندہ اور اپنے دین کے حقیقی خیر خواہ ثابت ہوں ۔
حق تعالیٰ شانہ ہمیں اسلام اور امت کی اس عظیم خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
 
 
 

شیئر: