Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عقیقہ ، احکام مسائل اور فضیلت

جس شخص کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیا جیسا کہ عموماً ہندوستان اور پاکستان میںہے تو وہ یقینا اپنا عقیقہ کرسکتا ہے
 
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ریاض

عقیقہ کے لغوی معنیٰ کاٹنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ / بچی کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے اُسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ اور صحابہ کرامؓ سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے چند اہم فوائد یہ ہیں:
    o  زندگی کی ابتدائی سانسوں میں نومولود بچہ / بچی کے نام سے خون بہاکر اللہ تعالیٰ سے اس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔
    o  یہ اسلامی Vaccination ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض پریشانیوں، آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل جاتی ہے۔ ہمیں دنیاوی Vaccinations کے ساتھ اس Vaccination کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔
    o  بچہ/بچی کی پیدائش پر جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، خوشی کا اظہار ہوجاتا ہے۔
    o  بچہ / بچی کا عقیقہ کرنے پر کل قیامت کے دن باپ بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن جائے گا، جیسا کہ حدیث نمبر2میں ہے۔ 
    o  عقیقہ کی دعوت سے رشتے دار، دوست واحباب اور دیگر متعلقین کے درمیان تعلق بڑھتا ہے جس سے ان کے درمیان محبت والفت پیدا ہوتی ہے۔
    عقیقہ کے متعلق احادیث:
    (1) رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
    ’’بچہ /  بچی کیلئے عقیقہ ہے، اس کی جانب سے تم خون بہاؤ اور اس سے گندگی (سر کے بال) کو دور کرو۔‘‘ (بخاری)۔
    (2) رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
    ’’ہر بچہ / بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سرمنڈوایا جائے۔‘‘ (ترمذی،  ابن ماجہ ،  نسائی، مسند احمد)۔
     نبی اکرم کے اس فرمان کی شرح علماء نے بیان کی ہے کہ کل قیامت کے دن بچہ /  بچی کو باپ کیلئے شفاعت کرنے سے روک دیا جائیگااگر باپ نے استطاعت کے باوجود بچہ / بچی کا عقیقہ نہیں کیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حتی الامکان بچہ / بچی کا عقیقہ کرنا چاہئے۔
    (3) رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
    ’’لڑکے کی جانب سے 2بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے۔ ‘‘(ترمذی ،مسند احمد) ۔
    (4)رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
     لڑکے کی جانب سے 2 بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ہے ۔ عقیقہ کے جانور مذکر ہوں یا مؤنث ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا(یعنی بکرا یا بکری جو چاہیں ذبح کردیں)۔‘‘ (ترمذی ،مسند احمد)۔
     رسول اللہ   نے اپنے نواسوں حضرت حسن ؓ  اور حضرت حسین ؓ  کا عقیقہ ساتویں دن کیا، اسی دن ان کانام رکھا اور حکم دیا کہ ان کے سروں کے بال مونڈھ دیئے جائیں (ابو داؤد)۔
     مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ بچہ /بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا، بال منڈوانا، نام رکھنا اورختنہ کرانا سنت ہے لہذا باپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنے نومولود بچہ /بچی کا عقیقہ کرسکتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ نبی اکرم کی اس سنت کو ضرور زندہ کرے تاکہ عند اللہ اجرعظیم کا مستحق بنے،نومولود بچہ /بچی کو اللہ کے حکم سے بعض آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل سکے،  نیز کل قیامت کے دن بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن سکے۔
    کیا ساتویں دن عقیقہ کرنا شرط ہے؟عقیقہ کرنے کیلئے ساتویں دن کا اختیار کرنا مستحب ہے۔ ساتویں دن کو اختیار کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ زمانہ کے ساتوں دن بچہ / بچی پر گزر جاتے ہیں لیکن اگر ساتویں دن ممکن نہ ہو تو ساتویں دن کی رعایت کرتے ہوئے چودھویں یا اکیسویں دن کرنا چاہئے، جیسا کہ حضرت عائشہ  ؓرضی اللہ عنہا کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ساتویں دن کے بجائے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کرے تو یقینا عقیقہ کی سنت ادا ہوجائیگی، اس کے فوائد انشاء اللہ حاصل ہوجائیں گے، اگرچہ عقیقہ کا مستحب وقت چھوٹ گیا۔ 
    کیا بچہ / بچی کے عقیقہ میں کوئی فرق ہے؟بچہ / بچی دونوں کا عقیقہ کرنا سنت ہے، البتہ احادیث کی روشنی میں صرف ایک فرق ہے وہ یہ ہے کہ بچہ کے عقیقہ کیلئے 2 اور بچی کے عقیقہ کیلئے ایک بکرا  / بکری ضروری ہے لیکن اگر کسی شخص کے پاس بچہ کے عقیقہ کے لئے 2بکرے ذبح کرنے کی استطاعت نہیں تو وہ ایک بکراسے بھی عقیقہ کرسکتا ہے ، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے روایت ابوداؤد میں موجود ہے۔
    بچہ / بچی کے عقیقہ میں فرق کیوں رکھا گیا ؟اسلام نے عورتوں کومعاشرہ میں ایک ایسا اہم اور باوقار مقام دیا ہے جو کسی بھی سماوی یا خود ساختہ مذہب میں نہیں ملتا لیکن پھر بھی قرآن کی آیات :وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃ (سورہ البقرۃ 238)،  الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ (سورہ النساء 34) واحادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کیلئے مردوں کو عورتوں پر کسی درجہ میں فوقیت دی ہے،جیسا کہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک ہر قوم میں اور ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً حمل وولادت کی تمام تر تکلیفیں اور مصیبتیں صرف عورت ہی جھیلتی ہے لہذاشریعت اسلامیہ نے بچہ کے عقیقہ کیلئے 2اور بچی کے عقیقہ کیلئے ایک خون بہانے کا جو حکم دیا ہے ، اس کی حقیقت خالق کائنات ہی بہتر جانتا ہے۔
    کیاعقیقہ میں بکرا  / بکری کے علاوہ دیگر جانور کو ذبح کیا جاسکتا ہے؟:اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے مگر تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث نمبر (1 اور2) کی روشنی میں بکرا  / بکری کے علاوہ اونٹ گائے کو بھی عقیقہ میں ذبح کرسکتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں عقیقہ میں خون بہانے کیلئے نبی اکرم نے بکرا  / بکری کی کوئی شرط نہیں رکھی،لہذااونٹ گائے کی قربانی دیکر بھی عقیقہ کیا جاسکتا ہے ۔ نیز عقیقہ کے جانور کی عمر وغیرہ کیلئے تمام علماء نے عیدالاضحی کی قربانی کے جانور کے شرائط تسلیم کئے ہیں۔
    کیا اونٹ گائے وغیرہ کے حصہ میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے؟اگر کوئی شخص اپنے2 لڑکوں اور2لڑکیوں کا عقیقہ ایک گائے کی قربانی میں کرنا چاہے، یعنی قربانی کی طرح حصوں میں عقیقہ کرنا چاہے ، تو اس کے جواز سے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔علمائے کرام نے قربانی پر قیاس کرکے اس کی اجازت دی ہے البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ ہر بچہ / بچی کی طرف سے کم از کم ایک خون بہایا جائے۔
    کیا عقیقہ کے گوشت کی ہڈیاں توڑکر کھا سکتے ہیں؟بعض احادیث اور تابعین کے اقوال کی روشنی میں بعض علمائے کرام نے لکھا ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے احترام کیلئے جانور کی ہڈیاں جوڑوں ہی سے کاٹ کر الگ کرنی چاہئیں لیکن شریعت اسلامیہ نے اس موضوع سے متعلق کوئی ایسا اصول وضابطہ نہیں بنایا کہ جس کے خلاف عمل نہیں کیا جاسکتاکیونکہ یہ احادیث اور تابعین کے اقوال بہتر وافضل عمل کو ذکر کرنے کے متعلق ہیں لہذا اگر آپ ہڈیاں توڑکر بھی گوشت بناکر کھانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ۔یاد رکھیں کہ ہندوستان اور پاکستان میں عموماً گوشت چھوٹا چھوٹا کرکے یعنی ہڈیاں توڑکر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
    کیا بالغ مرد وعورت کا بھی عقیقہ جا سکتا ہے؟جس شخص کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیا، جیسا کہ عموماً ہندوستان اور پاکستان میں عقیقہ چھوڑکر چھٹی وغیرہ کرنے کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے، جوکہ غلط ہے لیکن اب بڑی عمر میں اس کا شعور ہورہا ہے تو وہ یقینا اپنا عقیقہ کرسکتا ہے کیونکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ کیا (اخرجہ ابن حزم فی "الحلّی"،  والطحاوی فی "المشکل")۔
      نیز احادیث میں کسی بھی جگہ عقیقہ کرنے کے آخری وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑی بچی کے سرکے بال منڈوانا جائز نہیں ۔ ایسی صورت میں بال نہ کٹوائیں کیونکہ بال کٹوائے بغیر بھی عقیقہ کی سنت ادا ہوجائے گی۔
    دیگر مسائل:
     قربانی کے جانور کی طرح عقیقہ کے جانور کی کھال یا تو غرباء ومساکین کو دیدیں یا اپنے گھریلو استعمال میں لے لیں۔ کھال یا کھال کو فروخت کرکے اس کی قیمت قصائی کو بطور اجرت دینا جائز نہیں ۔ قربانی کے گوشت کی طرح عقیقہ کے گوشت کو خود بھی کھاسکتے ہیں اور رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں۔ اگر قربانی کے گوشت کے3 حصے کرلئے جائیں تو بہتر ہے: ایک اپنے لئے ، ایک رشتے داروں کیلئے اور تیسرا حصہ غریبوں کیلئے لیکن یہ 3 حصے کرنا کوئی ضروری نہیں ۔ عقیقہ کے گوشت کو پکاکر رشتے داروں کو بلاکر بھی کھلاسکتے ہیں اور کچا گوشت بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔
    اگر بچہ /  بچی کی پیدائش جمعہ کے روز ہوئی ہے تو ساتواں دن جمعرات ہوگا۔
 

مزید پڑھیں:- - - -  --قرآن پر عمل ، ایک منفرد تجربہ

شیئر: