Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھیں

جہاں تعمیری تنقید کی جاتی ہو اور اسے قبول کیا جاتا ہو، وہاں خود احتسابی پیدا ہوتی ہے اور غلطیوں کو درست کرنے کا موقع ملتا ہے
 
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔حیدرآباد دکن

     عمومی طور پر مسلمانوں میں تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کے تمام طبقات اس مرض کا شکار ہیں۔ حلقۂ  تصوف میں تو پتہ نہیں کہاں سے یہ بات زبان زد عام و خاص ہوگئی کہ "پیرِ مغاں جو بھی کہہ دے مرید کو قبول کر لیناچاہئے: بہ مئے سجادہ رنگیں کن گرت پیرمغاں گوید" حالانکہ علمائے حقانی اور مشائخ ربانی اپنے مقتدیٰ سے بھی اختلاف کرتے رہے ہیں۔سرخیلِ صوفیاء شیخ اکبر امین عربی پر مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ نے جو تنقیدیں کی ہیں اور ’’ فصوص الحکم‘‘ کے مضامین پر نقد کیا ہے، وہ اہلِ علم پر مخفی نہیں ۔ نیز صحابہؓ سے بڑھ کر راہِ سلوک کا رہبر کون ہو سکتا ہے اور فقہاء  مجتہدین سے بڑھ کر دین و شریعت کا رمز شناس کیا کوئی اور ہو سکتا ہے؟ لیکن انہوں نے کبھی اپنے متبعین سے ایسی بے چون و چرا پیروی کا مطالبہ نہیں کیا۔
    مگر اب ملت کے ہر شعبہ میں یہی مزاج در آیا ہے، چاہے مذہبی و ملی تنظیمیں ہوں، مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں ہوں، تعلیمی و تربیتی ادارے ہوں، یہاں تک کہ مساجد کے نظم و نسق کے ذمہ دار ہوں، ہر جگہ یہی صورتِ حال ہے کہ ذمہ داروں کے اندر معمولی تنقید سننے کا بھی حوصلہ نہیں ۔ حد یہ ہے کہ اب یہ مزاج ہماری دینی درسگاہوں میں بھی پہنچ گیا ہے کہ بہت سے اساتذہ کو اپنے طلبہ کا سوال کرنا برداشت نہیں ہوتا۔یہ کسی بھی قوم کیلئے بہت ہی بدبختانہ بات ہے اور اس کے علمی و فکری زوال کا پیش خیمہ ہے کہ لوگوں میں برائی کو برائی کہنے کا حوصلہ باقی نہ رہے۔ وہ اہلِ اختیار کی خوشامد اور چاپلوسی کے عادی ہو جائیں، نہ صرف یہ کہ غلطی پر خاموش رہیں بلکہ اربابِ اختیار کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے رات کو دن اور دن کو رات کہنے کو بھی تیار ہو جائیںاور دوسری طرف اربابِ اختیار اپنے آپ کو تنقید سے بالا تر سمجھنے لگیں  اورمشورہ لینا اور مشورہ سننا ان کو بارِ خاطر ہو۔
    یقیناسربراہ کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس کی بھی حدود ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کے دن منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: میری بات سنو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ مجمع میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے، کہنے لگے: اللہ کی قسم! نہ ہم آپ کی بات سنیں گے اور نہ مانیں گے، یہ کوئی اور صحابی نہیں تھے بلکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی تھے۔ حضرت عمرؓ  کو ان جیسے صحابی کے احتجاج پر حیرت ہوئی اور انہوں نے حضرت سلمان فارسیؓسے اس کا سبب دریافت فرمایا۔حضرت سلمانؓ نے کہا:
    ’’اس لئے کہ آپ نے امتیاز سے کام لیا ہے، آپ نے ہم لوگوں کو ایک ایک چادر دی ہے اور خود 2چادریں اوڑھ رکھی ہیں، یہ چادریں بیت المال کی جانب سے تقسیم کی گئی تھیں۔‘‘
    حضرت عمرؓ نے فرمایا:
    ’’کہاں ہیں عبداللہ بن عمر؟ ‘‘
    حضرت عبداللہؓ  اٹھے۔سیدنا عمرؓ نے ان سے دریافت کیا:
     یہ دوسری چادر کس کی ہے ؟
     انہوں نے عرض کیا: میری۔
    پھر سیدنا عمرؓ نے مجمع کے سامنے وضاحت فرمائی کہ جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں، میں دراز قامت آدمی ہوں، میرے حصہ میں جو چادر پڑی تھی، وہ چھوٹی پڑ گئی، میرے بیٹے عبداللہ نے اپنے حصہ کی چادر بھی مجھے دیدی، میں نے ان دونوں چادروں کو ملا لیا ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے:     اللہ تعالیٰ کا شکر ہے امیر المؤمنین! اب ہم آپ کی بات سنیں گے بھی اور اس پر عمل بھی کریں گے: فقل، الآن نسمع ( اعلام الموقعین ) ۔
    یہ ایک بہترین مثال ہے اُس مزاج کی، جس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمائی تھی۔
     ایسا نہیں تھا کہ قوم کا سربراہ یہ سمجھتا کہ میں جو کچھ کہوں، قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے بے چون و چرا تسلیم کر لے اوراس کو حق نہیں ہے کہ مجھ سے حساب لے، نہ لوگوں کو اپنے سربراہ کو ٹوکنے اور روکنے میں تأمل ہوتا تھا، خواہ وہ کتنا ہی مقدس ہو۔یہی مزاج فقہاء تک پہنچا ، جو نہایت فراخدلی کے ساتھ اور کسی ناگواری کے بغیر اختلاف رائے کو سنتے تھے، اس پر غور کرتے تھے، اس کو اہمیت دیتے تھے اور اگر ان کی بات معقول محسوس ہوتی تو بے تکلف اسے قبول کرتے تھے اور جس نے غلطی کی نشاندہی کی ہو، اسے اپنا محسن سمجھتے تھے۔
     جہاں تعمیری تنقید کی جاتی ہو اور اسے قبول کیا جاتا ہو، وہاں انسان کے اندر خود احتسابی پیدا ہوتی ہے، اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع ملتا ہے۔اگر اس نے کوئی قدم غلط اٹھا لیا ہو تو وہ دبے پاؤں اس سے واپس ہو سکتا ہے، محروم ِمنزل ہونے سے خود کو بچا سکتا ہے، رفقاء کے درمیان باہمی اعتماد قائم رہتا ہے، دیر پا اتحاد پیدا ہوتاہے اور اگر افراد بدل بھی جائیں تو ادارے اور جمعیت باقی رہتی ہیں اس لئے ایسے واقعات سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اپنے دائرہ میں شفافیت اور کھلے پن کاماحول پیدا کریں، جبر و ظلم کے ذریعہ نہیں بلکہ محبت اور پاکیزگیٔ کردار کے ذریعہ اپنے ماتحتوں کا دل جیتیں اور اپنے مقصد کو اپنی شخصیت سے زیادہ عزیز رکھیں۔

مزید پڑھیں:- - - - -عقیقہ ، احکام مسائل اور فضیلت

شیئر: