Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غفلت ، علامات، اسباب اور علاج

غفلت دنیا میں غرق ہو جانے اور آخرت کو بھلا دینے کا نام ہے، غافلانسان فانی دنیا کی آبادی اور ہمیشہ رہنے والی آخرت کی بربادی میں لگا رہتا ہے
قاری محمد اقبال عبد العزیز ۔ ریاض

    غفلت قلب انسانی کے لیے سخت نقصان اور ضرر کا باعث ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:  ’’ اور اپنے رب کو جی ہی جی میں صبح وشام یاد کرو، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور پست آواز سے اور غافلوں میں سے نہ بنو۔‘‘ (الأعراف  205)۔
     دلوں پر جو قحط اور خشکی نازل ہوتی ہے اسی کا نام غفلت ہے۔ غفلت ہی دلوں کی ویرانی اور بربادی ہے۔جب تک بندہ اللہ کے ذکر میں مصروف رہتا ہے اور اس کی طرف متوجہ رہتا ہے،تب تک رحمت کی پھوار اس پر ہلکی بارش کی طرح برستی رہتی ہے لیکن جب وہ ذکر الٰہی سے غافل ہوتا ہے تو ا س کی غفلت کے مطابق کم یا زیادہ اسے قحط وویرانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب غفلت دل پر غلبہ پا لیتی ہے اور مضبوط ہو جاتی ہے تو دل کی ز مین کو مردہ اور ویران بنا دیتی ہے اور اسے بنجرو خشک زمین میں تبدیل کردیتی ہے۔ شہوات کی آگ اس پر ہر جانب سے زہر یلے اثرات مرتب کرتی رہتی ہے۔
    دل کی غفلت کی کیا ہے؟:
    غفلت دنیا میں غرق ہو جانے اور آخرت کو بھلا دینے کا نام ہے۔ غافل انسان اس فانی دنیا کی آبادی اور ہمیشہ رہنے والی آخرت کی بربادی میں لگا رہتا ہے۔ غافل انسان اپنی نفسانی خواہشات اور شہوات ہی کے پیچھے چلتا ہے اور اپنے جسم کو انہی کاموں میں تھکاتا ہے۔ اپنا مال بھی شہوات ہی کی تکمیل میں لگاتا ہے۔ ایک بیدار دل یہ جانتا ہے کہ دنیا کی لذتیں عارضی اور آخرت کے مزے دائمی ہیں ۔ امام احمد سے پوچھا گیا: انسان کو راحت کب نصیب ہوگی؟ تو فرمانے لگے: عِنْدَ أَوَّلَ قَدَمٍ فِي الْجَنَّہ۔ ’’ جب وہ جنت میں پہلا قدم رکھے گا۔‘‘
    دل کی غفلت کی  علامات:
    « غفلت کی پہلی نشانی یہ ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سستی اور کسل مندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا دل نماز، تلاوت اور ذکر الٰہی میں تو نہیں لگتا البتہ فضول اور لغو کاموں فلموں،ڈراموں اور مزاحیہ پروگراموں میں خوب لگتاہے۔ کسی حاجت مند کو 10روپے دینا اسے دشوار لگتے ہیں لیکن ٹی وی ڈش انٹینا اور انٹر نیٹ وغیرہ میں ہزاروں روپے خرچ کرنے پر اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
    « غفلت کی دوسری نشانی یہ ہے کہ حرام کاموں کو وہ معمولی خیال کرتا ہے اور ان سے بچنے میں ٹال مٹول اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
    ’’مؤمن اپنے گناہوں کو ایک پہاڑ کی طرح دیکھتا ہے، وہ ڈرتا ہے کہ کہیں یہ پہاڑ اس کے اوپر نہ گر پڑے جبکہ فاسق وفاجر اپنے گناہوں کواُس مکھی کی طرح خیال کرتا ہے جو اس کی ناک کے قریب سے گزری اور اس نے یوں ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کیا۔‘‘(بخاری)۔
    « غفلت کی تیسری نشانی یہ ہے کہ آدمی نافرمانی سے محبت رکھتا ہے اوراس پر پشیمان ہونے کی بجائے اسے سر عام بیان کرتا ہے۔رسول اللہ فرماتے ہیں :
    ’’میری ساری امت کو معافی مل جائے گی سوائے ان کے جو علانیہ گناہ کرتے ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)۔
     علانیہ گناہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رات کو ایک گناہ کرتا ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالا ہوتا ہے لیکن صبح ہوتے ہی وہ کہنے لگتا ہے کہ اے فلاں! میں نے گزشتہ رات فلاں فلاں برا کام کیا ہے،رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپا رکھا تھا لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود پر دئیے گئے اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔
    « غفلت کی چوتھی علامت یہ ہے کہ آدمی فضول کاموں میں بہت وقت ضائع کرتا ہے۔ اللہ کے رسول ارشاد فرماتے ہیں:
    ’’ 2 نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے‘ ایک صحت اور دوسری فراغت۔‘‘(بخاری)۔
    حالانکہ دنیا کی اس زندگی کے ایک ایک منٹ کے بدلے وہ آخرت کی لاکھوں برس کی زندگی بہتر بنا سکتا ہے مگر اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے جیساکہ اقبال نے کہا ہے:
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
 اور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
    غفلت کے اسباب:
    دل پر غفلت کی تہہ چڑھانے میں چند بنیادی اسباب کارفرما ہوتے ہیں۔
    «  غفلت کا پہلا سبب ،حب دنیا :
    دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔ ضرورت کے لیے دنیا سے تعلق رکھنا منع نہیں ۔ جائز شرعی حدود میں رہ کر کاروبار کرنا، ملازمت کرنا اور محنت مزدوری کرنا شریعت اسلامی میں مشروع اور جائز ہے مگر دنیا کی ایسی محبت جو اللہ سے دل کی غفلت کا سبب بن جائے اس سے منع کیا گیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’ یہ لوگ دنیا کی زندگی کا ظاہر پہلوہی جانتے ہیں اور آخرت سے وہ بالکل غافل ہیں۔‘‘(الروم 7)۔
    یعنی دنیا میں اس طرح مگن ہو جانا کہ آخرت بھول ہی جائے ،ایسی دنیا مذموم ہے۔
    حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    ’’ان میں سے ایک شخص دنیا میں اتنا ہوشیار ہوتا ہے کہ درہم کو اپنے ناخن پر پلٹائے گا اور آپ کو اس درہم کا وزن بتا دے گا لیکن دین کے بارے میں اس کی حالت یہ ہے کہ اسے نماز پڑھنابھی نہیں آتی۔‘‘
    ایسے لوگ جب ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو ان کی ساری گفتگو دنیا ہی کے بار ے میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب مقدس میں فرماتے ہیں:
    ’’آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے،یہ کچھ کھا لیں،مزے اڑا لیں،انہیں لمبی چوڑی امیدیں غفلت میں ڈالے رکھیں،پھر جلد ہی انہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔‘‘(الحجر3)
    «  غفلت کادوسرا سبب، اللہ کی عدم معرفت:
    غفلت کے اسباب میں سب سے بڑا سبب اللہ تعالیٰ کی عظیم ذات وصفات اور اس کے اسمائے حسنیٰ سے ناواقفیت ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اپنے رب کی معرفت نہیں رکھتی۔ اگر وہ رب کو اچھی طرح پہچان لیں تو کبھی اس سے غافل نہ ہونے پائیں۔ نہ ہی وہ اس کے احکام اور نواہی سے غفلت کا شکار ہوں۔ اگر اللہ کی حقیقی معرفت حاصل ہو جائے تو انسان پھر اپنے مالک وخالق سے شرم کھاتا ہے کہ وہ اسے غفلت وعصیان کی حالت میں دیکھے۔
    «  غفلت کاتیسرا سبب گناہوں کی کثرت:
    ارشاد باری تعالیٰ ہے:
      ’’ہرگزنہیں! بلکہ ان کے برے کاموں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘ (المطففین 14)
    سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ  فرماتے ہیں:
    ’’بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے ایک سیاہ نکتہ ا س کے دل میں پڑ جاتا ہے۔ پھر جب اس نے چھوڑ دیا اور استغفار کر لیا اور توبہ کر لی ‘ اس کا دل پھر سے چمک اٹھا۔ اگر پھر گناہ پر گناہ کیا تو سیاہی بڑھ گئی یہاں تک کہ سارے دل پر چھا گئی۔ یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے۔‘‘(ترمذی)۔
    «  غفلت کا چوتھا سبب برے لوگوں کی صحبت:
    جو شخص اہل غفلت اور نافرمانوں کی مجلس میں بیٹھتا ہے وہ ان کی اس بیماری سے متاثر ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ نافرمانیاں اس کی طبیعت کا بھی حصہ بن جاتی ہیں۔ قیامت کے دن غافل گنہگار حسرت وندامت سے اپنے ہاتھو ں کو دانتوں سے کاٹے گا اور کہے گا:
    ’’ہائے میری بد بختی! کاش! میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا، اس نے تو نصیحت آجانے کے بعد مجھے بہکا دیااور شیطان توانسان کو عین مصیبت کے وقت دغا دینے والا ہے۔‘‘ (الفرقان 28، 29)
    رسول اللہ نے فرمایا:
    ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ اسے خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔ یعنی نیک لوگوں سے دوستی اورمجلس اختیار کرے ،برے لوگوں سے دور رہے۔‘‘(ابو داؤد)۔
    کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
عَنِ الْمَرْئِ لَا تَسْأَلْ وَسَلْ عَنْ قَرِینِہِ
 فَکُلُّ قَرِینٍ بِالْمُقَارِنِ یَقْتَدِي
    ’’کسی شخص کے اخلاق وکردار کا پتہ کرنا ہو تو اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کا پتہ کرو، کیونکہ ہر شخص اپنے دوست ہی کے طریقے پر چلنے والا ہوتا ہے۔‘‘
    «  غفلت کا پانچواں سبب لمبی امیدیں:
    غافل انسان دنیا میں اس طرح رہتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اسے ہمیشہ یہاں رہنا ہے اور کبھی اسے موت نہیں آئے گی۔ وہ آخرت کو فراموش کر کے دنیا کی زینت وآسائش میں مگن رہتا ہے۔جیسے جیسے وہ بڑھاپے کی طرف جاتا ہے دنیا کی محبت اور زیادہ اس کے دل میں داخل ہوتی جاتی ہے۔ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے:
    ’’ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے مگر دو چیزیں اس میں جوان ہوجاتی ہیں: مال کی حرص اور لمبی عمر کی حرص۔‘‘(مسلم)۔
    سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
    ’’دنیا پیٹھ پھیر کر جا رہی ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے،ان دونوں میں ہر ایک کے طلب گار ہیں، تم آخرت کے طلب گار بنو،دنیا کے چاہنے والے نہ بنو، بلاشبہ آج عمل کا موقع ہے حساب نہیں اور کل قیامت کے دن حساب ہوگا اور عمل کا موقع نہیں ملے گا۔‘‘(البخاری تعلیقا)۔
    «  غفلت کا چھٹا سبب ذکر الٰہی سے خالی کثرت کلام:
    ہر ایسی مجلس جس میں اللہ کا ذکر نہ ہو کل قیامت کے روز انسان کے لیے حسرت وندامت کا سبب بن جائے گی۔ نبی کریم نے فرمایا:
    ’’جو لوگ کسی ایسی مجلس سے اٹھیں جس میں انہوں نے اللہ کا ذکر نہ کیا ہو تو وہ اس طرح ہیں جیسے گدھے کی لاش کے گرد سے اٹھے ہوں۔ یہ مجلس کل قیامت کے روز ان کے لیے حسرت کا باعث ہوگی۔‘‘ (ابو داؤد)۔
    یعنی تمنا کریں گے کہ کاش اس میں ذکر الٰہی کر لیتے۔
    علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’ذکر کی مجالس فرشتوں کی مجالس ہیں اور لغو ولہو کی مجالس شیطان کی مجالس ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دنیا اور آخرت میںجس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اسی کی مجلس اختیار کرے۔‘‘
    «  غفلت کا ساتواں سبب موت اور آخرت کو بھلا دینا:
    انسان دنیا کی زندگی میں مگن ہو کر اپنے انجام سے غافل ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں اپنی کتاب مقدس میں فرماتا ہے:
    ’’جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے، یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہتے تھے۔‘‘ (یونس8,7)۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے:    فرما دیجیے کہ کیاہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں کون لوگ ہیں؟وہ ہیں جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں ہی کھو گئی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔‘‘(الکہف  104,103)
(جاری ہے)

مزید پڑھیں : - - - - -روشنی کے تازہ شمارے میں کیا ہے؟

شیئر: