Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رحمتِ، رحمۃ للعالمینﷺ

عالمین عالم کی جمع ہے اور لفظ عالم خود جمع ہے، اس کا عربی زبان میں کوئی مفرد نہیں، عالمین سے مراد خالق کی جملہ مخلوقات ہیں

 

ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔مکہ مکرمہ

 

گزشتہ سے پیوستہ
    قرآن کریم کی آیت’’ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘ میں باری تعالیٰ جل جلالہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت و رسالت کے عالَمین کیلئے رحمت ہونے کا بڑے فصیح وبلیغ اسلوب بیان میں اعلان فرمایا ہے بلکہ آپ کی بعثت کا رحمت برائے عالمین میں حصر فرمادیا ہے کہ آپ کا وجودِ مسعود عالمین کے لئے سراپارحمت ہی رحمت ہے۔
    عالَمین کی تفسیر میں ہم نے گزشتہ قسط میں اہل تفسیر کے 2 قول ذکر کئے تھے۔اولاً یہ کہ عالمین سے مراد تمام مؤمنین ہیں جو زمانہ بعثت سے تاقیامت امت اجابت بن کر سعادت دارین سمیٹنے والے ہیں ،چاہے وہ کسی زمانہ ومکان کے اہل ِ ایمان ہوں ۔
    دوسرا قول یہ کہ عالمین سے مراد تمام امت محمدیہ، وہ امت اجابت ہو یا امت دعوت ۔او ر یوں جملہ مؤمنین وکافرین عالمین ہیں اور وہ آپ کی رحمت سے مستفید ہونے والے ہیں۔
    رہے مؤمنین تو ان کے دنیا وآخرت میں رحمت لکھ دی گئی ہے اور کافرین کو آپ کی بعثت مبارکہ کی برکت سے کلی طورپر نیست و نابود کردینے والی آسمانی عمومی گرفت سے اور پورے طور پر خاتمہ کردینے والی زمین عمومی سزا سے عافیت ملی اور یوں دونوں فریق، مؤمنین وکافرین حضرت رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے فیض حاصل کرنے والے ہیں۔
    مگر علاوہ اس کے جب نص قرآن کے لفظ ’’عالمین‘‘ میں تامل کریں تو ظاہر ہوتاہے کہ اس کے دائرہ کی وسعتیں مؤمنین وکافرین  انسانوں میں کہیں محدود نہیں ، وہ اس سے  بڑھ کر ہیں ۔
    پھر اسے قرآن کریم ہی کے تناظر میں دیکھیں کہ اس کی اولین سورت جو مقدمہ قرآن، خلاصہ قرآن اور سورت کافیہ اور فاتحۃ الکتاب ہے، اس کی اولین آیت’’ الحمدللہ رب العالمین ‘‘میں یہی لفظ عالمین موجود ہے۔
    اور اللہ تعالیٰ اپنا تعارف یوں کررہاہے کہ (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جو عالمین کا رب ہے)۔
    اس کے ذیل میں مسلم مفسرین نے ’’عالمین‘‘  کا بڑا  وسیع وعریض تصور پیش کیاہے ۔
    لہذا بعض کا یہ کہناہے کہ یہ لفظ  ’’عالمین‘‘  لغت عربی کے ان کلمات میں سے ہے جس سے عرب قبل از اسلام یا نزول قرآن  کے وقت متعارف نہ تھے اسی لئے جاہلی عربی ادب وہ نظم ہو یا نثر اس لفظ کا استعمال نہیں ملتا ۔تو محض لغت کے سہارے اس کی وسعتوں کا تصور مشکل ہے جب تک کہ ثقۃ رجال ،اہل علم کا اجتہاد اس باب میں معاون نہ ہو۔
    امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں سورۃ الحمد میں وارد’’ رب العالمین‘‘ کی تفسیر میں عالمین کی وسعتوں کو یوں بیان کرتے ہیں کہ اس کائنات ہستی میں اللہ جل جلالہ کے علاوہ جملہ موجودات اور اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات سبھی عالمین سے عبارت ہیں ۔
    آگے وہ کہتے ہیں کہ یہ موجودات 3 طرح کی ہیں : اولا جو جسم رکھتی ہیں اور مخصوص جگہ کو گھیرے ہوئے ہیں ۔دوم: وہ موجودات جو جسم وجگہ لیتی ہیں مگر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ سوم: صفات جن کا جسم نہیں ہوتا ۔
    پھر انہوں نے اس موضوع پر بسط سے لکھا ہے۔
    امام طبری رحمہ اللہ نے آیت’’ الحمد للہ رب العالمین ‘‘کی تفسیر میں لفظ عالمین کے بارے میں لکھا ہے :
    ’’ یہ عالَم کی جمع ہے اور لفظ عالم خود جمع ہے ۔ اس کا اس لفظ سے عربی زبان میںکوئی مفرد نہیں ۔بعض دوسرے کلمات کی طرح جیسے کہ رہط (جماعت) لفظ جیش (لشکر) ان کا کوئی مفرد نہیں ۔اس طرح کی مثالیں دیگر انسانی زبانوں میں بھی موجود ہیں۔‘‘
    چونکہ لفظ ’’عالمین‘‘ ہمارا موضوعِ سخن ہے ،اس کا مفرد بھی عالم اسی قبیل سے ہے اور لفظِ عالم… یہ کلمہ امتوں کی مختلف اصناف وانوا ع پر بولاجاتاہے اور ان کی ہر صنف اور نوع اپنے اپنے زمانہ اور قرن کے اعتبارسے عالم کہلاتاہے ۔
    مثال کے طورپر (اِنس) بنی بشر ایک عالَم ہے ۔پھر بنی بشر کے ہر قرن اور زمانہ کے لوگ اپنے مخصوص زمانہ اور قرن کا عالم ہیں جس میں کہ وہ موجود ہیں۔
    اسی طرح (جِنّ) ایک عالَم ہے ۔ملائکہ ایک عالَم  ہے ۔مخلوقات کی مختلف اجناس حیوانات نباتات حشرات جمادات جبال وانہار بحار۔ ان کے اندر کی مخلوقات، زمین وآسمان ،ان کے اوپر اوران کے نیچے کی تمام مخلوقات اور ارض وسماء کے مابین ہر صنف ایک عالَم ہے۔
    لفظ’’ العالمین‘‘ کی شرح وتفسیر میں ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے کہاہے، یہی ابن عباس اور سعید بن جبیر کا قول ہے اور عام مفسرین کی بھی یہی رائے ہے ۔
    طبری نے ’’عالمین‘‘ کی تفسیر میں جو یہ کہاکہ اس سے مراد خالق کی جملہ مخلوقات ہیں۔اس کی یوں سند بیان کی ہے:
    ابوکریب نے ہم سے روایت کی جسے اس نے عثمان بن سعید سے سنا اور انہوں نے بشر بن عمارہ سے اور انہوں نے ضحاک کے طریق سے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ’’ الحمد للہ رب العالمین ‘‘کی تفسیر یہ ہے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں، تمام مخلوق اسی کی ملک ہیں، تمام آسمان، تما م زمینیں اور جو کچھ آسمانوں کے اوپر اور جو کچھ زمین کے اندر ہیں اور جو کچھ آسمان وزمین کے درمیان میں ہے، جسے ہم جانتے ہیں اور جسے نہیں جانتے ۔
    یہ ’’عالمین‘‘ کی تفسیر ابن عباس سے ثابت اور مذکورہ طریق سے مروی ہے۔
    ایک قول جس کی سند طبری نے یوں ذکر کی ہے :
    مجھ سے محمد بن سنان القزاز نے بیان کیا، ان سے ابو عاصم نے، ان سے شعیب نے اور انہوں نے عکرمہ سے یہ نقل کیا کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ’’ العالمین‘‘ جن وانس ہیں ۔
    رہا تیسرا قول کہ مخلوقات کی ہر صنف وانواع بذات خود ایک عالم ہے اور پھر یہ تمام اصناف وانواع عالمین ہیں ۔اس کی سند انہوں نے یوں ذکر کی ہے :
     مجھ سے بشر بن معاذ العقدی نے روایت کیا ،ان سے یزید بن زریع سے، انہوں نے سعید سے اور ان سے قتادہ نے کہاکہ مخلوقاتِ ہر صنف ونوع ایک عالم ہے اور تمام مخلوقات کی اصناف’’ عالمین‘‘ ہیں اور سب کا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے۔
    ’’ عالمین‘‘ کی تفسیر کے بارے میں حضرت ابو العالیہ کا یہ قول سند کے ساتھ یوں نقل ہے :
    مجھ سے احمد بن حازم الغفاری نے روایت کیا ،ان سے عبید اللہ بن موسی اور انہوں نے ابو جعفر سے ، انہوں نے ربیع بن انس کے واسطے سے العالمین کی تفسیر حضرت ابو العالیہ سے یہ نقل کیا ہے کہ اِنس ایک عالم ہے اور جنّ ایک عالم ہے ۔انس وجن کے علاوہ ملائکہ،  18ہزار یا14 ہزار عالم زمین پر قائم ہیں۔زمین کے 4 کونے ہیں اور ہر کونے میں 3ہزار 500 عالم ہیں جنہیں خالق نے اپنی عباد ت کیلئے پیدا کیا ۔
     ’’ عالمین‘‘ کی تفسیر امام رازی اور طبری کی تفسیر کا خلاصہ ہم نے ذکر کیا ہے اور بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ قرآن کی قرآن سے تفسیر سے عبارت ہے۔سورہ شعراء میں فرعون کا قول نقل ہے کہ اس نے کہاکہ ’’رب العالمین‘‘ کون ہے؟اس کے جواب میں حضرت موسی نے فرمایا : رب العالمین وہ ہے جو آسمان وزمین اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے اس کا رب ہے ۔ فرعون کے سوال کا منشا رب العالمین کو سمجھنا تھا، اسے اس کا مفہوم نہیں معلوم تھا اور حضرت موسیؑ نے جواب میں کہا :
     آسمان وزمین اور ان کے مابین جو کچھ ہے اس کا رب، رب العالمین ہے ۔تو گویا قرآن نے یوں رب العالمین کی تفسیر جملہ مخلوقات سے کردی۔لفظِ عالَم ۔علامت سے ہے جو کہ کسی دیگر کے وجودکا نشان ہوتاہے اور عالم اسی سے عالم کہلاتاہے کہ وہ اس کے خالق ومالک اور صانع کے وجود کی دلیل ہوتاہے۔اسی لئے ایک عرب شاعر کہتاہے کہ
فیا عجبا کیف یعص الالہ
ام کیف یجحد الجاہل
وفی کل شیء علامۃ
تدل علی أنہ واحد
    اب عالمین یا عوالم کی تعداد میں علمائے تفسیر کے مذکورہ اقوال کا خلاصہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورہ فاتحہ کی آیت’’ الحمد للہ رب العالمین‘‘ کی تفسیر میں نقل فرمایا ہے :  
    ’’وہ بقول مقاتل اسی ہزار ہیں‘‘ ۔
     امام قرطبی نے سعید بن خدری کا قول نقل کیا ہے کہ وہ 40 ہزار ہیں اور ہماری یہ دنیا مشرق سے مغرب تک ایک عالَم ہے۔
    نیز ابن کثیر کا قول ہے کہ اِنس ایک عالم ہے، جنّ دوسرا عالم ہے اور ان دونوں کے ماسوا18یا14 ہزار عالم ہیں ۔نیز یہ بھی کہ عالمین ایک ہزار امت ہے جن میں سے600 (سمندر)بحر اور 400  بَر(خشکی کے اندر ہیں) ۔
    اس سے  بڑھ کر زجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا یا آخرت میں پیدا فرمایا ہے وہ عالم ہے ۔پھر رب کے معنیٰ چونکہ خالق، مالک، متصرف اور سید کے ہیں تو اللہ تعالیٰ تمام عالمین کا خالق ہے۔اسی نے جملہ جہانوں کو خلقت بخشی ،پھر خلقت کے بعد مختلف ادوار اور مراحل میں ان کی تربیت بھی وہی فرمارہاہے اور ہر حال میں وہ اسی کے زیرِ تصرف ہیں ۔وہ وحدہ لا شریک لہ  اِن جہانوں کا سید ہے ۔
    تامل کریں کہ رب العالمین نے عالمین کی مادی خلقت اور ان کی جملہ ضروریاتِ حیات نہ صرف پیدا فرمادیں بلکہ ان سے نفع اٹھانے کیلئے انہیں ان کے تابع اور مسخر بھی فرمادیا۔
    ارشاد ربانی ہے:
      وسخر لکم اللیل والنہار …الخ۔
    تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو مسخر فرمادیا اور تمہارے لئے شمس وقمر کو مسخر فرمادیا اور تمہارے لئے دریاؤں کو تابع فرمادیا ۔کائنات میں سے ان قوی اور بڑی بڑی طاقتور مخلوقات میں سے ہر ایک دیگر مخلوقات سے اور خصوصاً حضرت انسان کو ان تمام سے  فائدہ اٹھانا سکھادیا ۔
    یہ رب العالمین کی ربوبیت کا مظہر ہے جس کا مشاہدہ شب وروز دنیا کے مشرق ومغرب میں ہم عظیم انسانی پراجیکٹ میں کرتے ہیں ۔یہی وہ رب العالمین کی حضرت انسان کیلئے اور دیگر مخلوقات کیلئے ربوبیت کا مظہر ہے ۔انسان کچھ تامل کرے۔ ربّ تعالیٰ نے  خلقتِ آدم سے تاقیامت ان کی ربوبیت روحانی اور تربیت اخلاقی کیلئے اس( رب العالمین) نے اپنی طرف سے مختلف شرائع کے سلسلۂ رحمت کو جاری وساری فرمادیا ۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ’’اس عالم کی کوئی بستی ایسی نہیں ہے مگر اس میں نذیر آچکا۔‘‘
    پھر سب کے آخر میں سبھی کے سید کو سبھی کا مصدِّق (تصدیق کرنے والا) بناکر مبعوث فرمایا اور انہیں اس اعزاز ِ خاص سے مشرف فرمایا: (وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین ) ہم نے آپ() کو عالمین کیلئے رحمت قراردیاہے۔    رب العالمین کی طرف  سے مبعوث رحمۃ للعالمین کی رحمت ہے کہ جو ایمان لایا وہ بھی اسی رحمت عالمیہ سے فیض یاب ہوا کہ اس نے دنیا وآخرت کی سعادت کو پالیا اور ایمان نہ لایا تب بھی وہ اس رحمت عالمیہ سے مستفید ہوا اور ہور ہا ہے اور تاقیامت ہوتارہیگا کہ رب العالمین کا یہ فیصلہ ہے کہ رحمۃ للعالمین کی بعثت ورسالت کے بعد منکرین وکافرین کو بھی پہلی امتوں کی طرح آسمانی عمومی گرفت یا زمینی عمومی گرفت جو سبھی کا صفایا کردے ،اس سے محفوظ ہوگیا۔یہ حضرت رحمت للعالمین کی رحمت عالمیہ ہے ۔
    آئندہ ان شاء اللہ اسی رحمت کے وسیع دائرے کا مفصل بیان ہوگا۔
مزید پڑھیں:- - - - -سنگاپور میں 3 دن

شیئر: