Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کب بحال ہوگی؟

کراچی ( صلاح الدین حیدر)وقت آگیا ہے کہ آئینی حیثیت میں پاکستان کا مرکزی بینک جسے اسٹیٹ بینک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کو فوری طور پر خودمختار بنایا جائے۔ پچھلے کئی دہائیوں سے پچھلی حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں نے مرکزی بینک کو اس کا اصل کردار کرنے سے روکے رکھا جس سے عوام کو معیشت کے بارے میں اکثر و بیشتر اندھیرے میں رکھا گیا۔ اب جبکہ عمران خان کی حکومت برسراقتدار ہے وزیراعظم کو چاہیے کہ اپنے وعدے کے مطابق قومی اداروں کے بارے میں شفاف حکمت عملی اختیار کی جائے۔ قیام پاکستان سے لے کر ایوب خان کی ملٹری حکومت تک اسٹیٹ بینک کو مکمل خود مختاری حاصل تھی جس سے بینک کے گورنر، خاص طور پر مرحوم حسنی صاحب نے حکومتی کمزوریوں کی ہمیشہ نشاندہی کی۔چونکہ عوامی سطح پر اس پر بحث و مباحثہ جاری رہتا تھا حکومت وقت پر ایک قسم کا دباو رہا کرتا تھا۔ عوام کا بھی کرنسی، مالیاتی پالیسی اور اقتصادیات کا بھرپور عمل رہتا تھا ۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جب بھی سیاستدانوں کی حکومتیں اقتدار میں آئیں۔ انہوںنے عوام کو حقائق سے نہ صرف لاعلم رکھا بلکہ سب اچھا ہے کی خبریں سناتے رہے۔ مصیبت میں جب حقائق پر سے پردہ اٹھا تھا تو لوگوں کو مایوسی ہوتی تھی۔ یہ رسم آج تک جاری ہے۔ حکومت وقت اور اپوزیشن ایک ہی طرح کے خیالات رکھتے ہیں کہ مرکزی بینک کی آزادی اور خودمختاری ریاست کے اندر ریاست کے برابر ہوگی جو انہیں منظور نہیں۔ دنیا بھر میں مرکزی بینک خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف ان ممالک میں قائم بینکوں کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے بلکہ حکومت کی مالیاتی پالیسیوں کو صحیح حالت میں رکھنے کی بھی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے 20 برسوں سے بےنظیر اور نواز شریف کی حکومتوں نے عوام کو اندھیرے میں رکھا جس سے آج پاکستان درجنوں مشکلات سے دوچار ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی جو اپنے خلاف عدالت عظمیٰ میں ناجائز دولت کمانے کی جرم میں مقدمات سے بچنے کیلئے لندن میں بیماری کا بہانہ کر کے بچنے کی کوشش میں مصروف ہیں قوم کو صرف بے وقوف بنانے میں وقت ضائع کیا جس سے آج پاکستانی کرنسی بے بسی کا شکار ہے۔

شیئر: