Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھو کر:’’شاید منزہ کے دل کا دروازہ کسی اور دستک کامنتظر تھا‘‘

وہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی تھی ،کرنا بھی نہیں چاہتی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ والدین کا جو فیصلہ ہوگا ،وہ قابل قدر اور بہتر مستقبل کا ضامن بھی کہلائے گا 
ناہید طاہر۔ ریاض
ساجد کئی دنوں تک منزہ کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ کالج نہیں لوٹی۔دل پر جب گھٹن کے سائے لہرانے لگے اور مایوسی نے گھیرا تو اس نے ایک دن ہمت کی اور منزہ کی دوست فائزہ سے بات کی۔
"فائزہ کیا بات ہے آپ کی سہیلی آج کل کالج نہیں آرہی ہیں؟"
"کون منزہ؟ فائزہ نے پوچھا،ہاں!ارے وہ بیمار ہے۔"
"کیا ہوا؟ "ساجد بے چین ہوگیا۔ دل میں ایک کسک سی جاگی۔"اسے ٹائیفائیڈ ہوا ہے گزشتہ ایک ماہ سے وہ علیل ہے۔"
"مجھے کسی نے بتایا نہیں۔""آپ نے کسی سے پوچھا نہیں۔"فائزہ نے دھیرے سے مسکراکرجواب دیا۔
"کیوں کچھ کام تھا؟""نہیں تو!بس ایسے ہی پوچھ لیا۔"ساجد نے سٹپٹا کر کہا،"کیا آپ میری کچھ مدد کریں گی؟" جی،فرمائیں !
"منزہ کے لئے ایک غزل لکھی تھی"،اوہ ،سچ میں" فائزہ خوش ہوئی۔’’منزہ کوآپ ہی اپنی آواز میں پڑھ کر سنادیں۔شایدوہ خوش ہو جائے۔‘‘ 
"مجھ میں حوصلہ نہیں! "اس نے ماتھے کا پسینہ خشک کرتے ہوئے جواب دیا اور کتاب میں تہہ کیا ہوا کاغذ نکال کر فائزہ کی جانب بڑھادیا۔ فائزہ سر کو خفیف جھٹکا دیتی ہوئی مسکرائی اور ساجد کی امانت کو مٹھی میں تھام کرآگے بڑھ گئی۔
منزہ نے جب ساجد کا کلام پڑھا تو حیرت زدہ رہ گئی۔"فائزہ یہ کب شاعر بن گیا؟""شاید تمہارے لئے "،"ایسا مت کہو،بیچارا! "منزہ نقاہت سے ہنس پڑی۔"شاید وہ تمہیں بہت مس کررہا ہے۔"
"اس سے کہنا پڑھائی پر توجہ دے۔"،"تم مل کر کہہ دینا۔""پتا نہیں بیماری سے کب پیچھا چھوٹے گا"
"ساجد سے کہنا کلام بہت پسند آیا۔"منزہ دبے لب مسکرا کر بولی تو فائزہ مسکرااٹھی۔
" ہنسومت! مجھے شرم آرہی ہے۔" منزہ نے اپناچہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔" ہائے ہائے پہلا پہلا احساس تو دیکھو "
"احمق لڑکی کیسا احساس، مجھے تو اس بے چارے پر ترس آرہا ہے۔"جواباً فائزہ قہقہہ لگاتے ہوئے گویا ہوئی،"لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ "
منزہ کی زندگی میں یہ واقعہ کسی معطر ہوا کے جھونکے کی طرح رونما ہوا اور کہیں دور فضاء میں تحلیل ہوکررہ گیاکیونکہ جب وہ صحت یاب ہوکر کالج لوٹی تو ساجد کے والد کا ٹرانسفر کسی اور شہر میں ہونے کے باعث وہ کالج کو الوداع کہہ گیا تھا۔پھر کچھ دنوں بعد پتا چلا کہ اس نے شاعری بھی ترک کردی۔ یہ شاید جدائی کا اثر تھا اور اس نے خود کو سزادی تھی جبکہ انسان تو جدائی کے زہر سے شاعری کی کھیتی سینچتا ہے ۔ زندگی میں کبھی کبھی زخم اتنے گہرے ہو جاتے ہیں کہ زندگی ختم ہوجاتی ہے لیکن زخم نہیں بھرتے۔
منزہ کا خیال تھا کہ اس عمر میں ایسے خوشگوار حادثے ہوتے رہتے ہیں۔یہ ایک احساس بن کرمنزہ کے دماغ کے کسی حصے میں محفوظ ہوکر رہ گیا۔ہاں اگر دل کے کسی حصے میں محفوظ ہوتا تو شاید وہ دونوں دوبارہ کبھی مل پاتے لیکن ایساہوا نہیں۔
حالات کے بھنور ایسے رونما ہوئے کہ رشید احمد نے بیٹی کی پڑھائی روک دی۔منزہ کے لئے زندگی کا یہ موڑ بہت تکلیف دہ ثابت ہورہا تھا۔قدرت کی مصلحت جان کر اس نے حالات کے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور امی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگی۔ حساب کتاب میں ابو کے مدد کرنے لگی جس سے رشید احمدبہت خوش تھے۔رشید احمد کی بڑی خواہش تھی کے منزہ خوب تعلیم حاصل کرے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ انسان کے لئے جدید علوم تو بے حد ضروری ہیں اور ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تعلیم بھی ناگزیر ہوتی ہے۔ تعلیم سے ہی انسان کے اندر شعور ، ایثار، خدمتِ خلق ، وفاداری کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور ان خوبیوں کے تحت صالح معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔وہ کہتے تھے کہ  ’’دنیاوی علم، دین کے علم کے بغیر اندھا ہے ، ہمیں حکم ہے کہ رب کریم کی نشانیوں پر غور و فکر کریں۔‘‘
ابو کے ہر خیال کو وہ معتبر جانتی اور اس پر گامزن ہوتی۔رشید احمد بہتر حالات کا انتظار کررہے تھے تاکہ بیٹی کو ڈگری کالج میں داخلہ دلا سکیں۔منزہ کو اپنی چھوٹی بہنوں اور بھائی سے بہت لگاؤ تھا۔ اس کے علاوہ نانا جان سے بھی بہت محبت تھی۔نانا جان کا گھر بالکل پڑوس میں تھا۔وہ گھنٹوں ناناجان سے باتیں کرتی۔نانا جان کو بھی منزہ سے بے انتہا محبت تھی۔وہ چاہتے تھے کہ دنیا کا ہر بچہ ہر لڑکی منزہ جیسی ہوجائے۔خاص کر جب ان کی دوسری اولاد سلمیٰ کا بیٹا فراز گھر آتا تو اس سے کہتے کہ فراز، منزہ سے کچھ سیکھ لوتاکہ تمہاری زندگی سلجھ جائے۔وہ ہنس دیتا اور منزہ کو دیکھنے لگتا۔جواب میں منزہ وہاں سے اٹھ کر کچن میں چلی جاتی۔
نانا جان کی آرزو تھی کہ منزہ کی شادی فراز کے ساتھ ہوجائے لیکن رشید احمد کو یہ رشتہ منظور نہیں تھاکیونکہ فراز تعلیم یافتہ نہیں تھا اور رشید احمد اپنی منزہ کے لئے ایک قابل انسان کے انتظار میں تھے۔نانا جان کو مہندی بہت پسند تھی۔ وہ اکثر پیار سے کہتے کہ منزہ اپنی نانی کے ہاتھوں پر مہندی لگا دیا کرو۔ مہندی کے بغیر ان کی ہتھیلیاں بالکل اچھی نہیں لگتیں۔وہ اتنے شوق سے یہ سب کچھ کہتے کہ منزہ خوش ہوجاتی اور نانی کے ہاتھوں کی مہندی کو پھیکانہیں ہونے دیتی تھی ۔اس طرح وہ مہندی ڈیزائن میں بہت مہارت حاصل کرگئی۔اپنوں کی خوشی کا احترام کرتے ہوئے وہ زندگی کوفتح کرنے کا ہنر سیکھ رہی تھی۔وہ چھوٹی بہنوں کو پڑھاتی ، گھر کے کاموں میں امی کا ہاتھ بٹاتی ، چھوٹے بھائی عامر کو سنبھالتی۔اس کے بعد بھی وقت نہیں کٹتاتھا۔زندگی میں ایک کمی کا احساس حواسوں پرچھایارہتا تھا۔تب اس نے امی سے کروشیاکاری سیکھی۔ اس خوبصورت فن سے گھر کی چہاردیواری کو خوب آراستہ کیا۔شاعری کے بعدمنزہ کا ایک اور جنون جو بے پناہ دیوانگی بن کر اس کے وجود پر چھا گیا۔رنگین دھاگوں کی ساخت و بناوٹ سے اس کے دماغ پر چھائی ساری محرومیت جیسے کافور ہوجاتی ،وہ بے پناہ سکون محسوس کرتی۔ اس تنہائی سے گھبرا جاتی تو نانا جان کے گھر چلی جاتی۔ نانا جان کئی دنوں سے بیمار تھے اوربستر پر لیٹے رہتے تھے۔اس نے نانا جان کی تیمارداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔چند دنوں سے نانا جان کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہوگئی تو انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔جمعہ کا دن تھا۔منزہ نے نانی کی ہتھیلیاں مہندی سے بھر دیں۔وقت دیکھا توتین بج رہے تھے۔اس نے نانا جان کے قریب پہنچ کر گھر جانے کی اجازت طلب کی۔وہ بڑی حسرت سے منزہ کو دیکھنے لگے تو اس نے دھیرے سے نانا جان کا کمزور ہاتھ تھام لیا۔" ان شاء اللہ، پانچ بجے تک آجاؤں گی پھر آپ کو امی کے پاس لے جاؤں گی۔ آپ امی سے بے شمار باتیں کرنا"۔جواب میں ان کی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے۔آنکھوں کا رنگ پتا نہیں کیوں بالکل پھیکا پڑچکا تھا۔ منزہ اندیشوں تلے کانپ گئی۔ 
"میں نہیں آسکتا، ابھی میرے جانے کا وقت آگیاہے ۔ "نانا جان کی کانپتی آواز ابھری تو منزہ لرز اٹھی پھر انہوں نے دھیرے سے اپنی آنکھیں موند لیں۔منزہ کئی پل انتظار کرتی رہی کہ نانا جان آنکھ کھول کر اس کی جانب دیکھیں گے لیکن افسوس وہ اپنی مسافت مکمل کئے اس دنیا سے کوچ کرگئے تھے۔ منزہ نے موت کو اتنی قریب سے پہلی بار دیکھا تھا ، وہ خوف سے چلائی"نانا جان! "جواب میں نانی جان دوڑ کر آئیں۔ 
وہ رات منزہ کے دماغ میں ایک خوف بن کر دفن ہوگئی۔منزہ کی عجیب حالت تھی۔ایک شفیق دوست نما ناناجان کو کھونے کا دکھ اسے کافی بے چین کرگیاتھا۔ابو کی اجازت سے اس نے نانی جان کی عدت کا عرصہ نانی کے قریب رہ کر گزارا۔اس دوران روز ہی فراز گھر آتا، نانی جان اور اس کی خیریت پوچھتا ،کچھ وقت گزار کر چلاجاتا۔ نانا جان کے انتقال کے بعد اس کا وقت گھر کے کام، ابو کے حساب کتاب اور کروشیا کے پراجیکٹ میں گزرنے لگا۔وہ خود کو ہمیشہ مصروف رکھنے کی کوشش کرتی تھی کیونکہ ابو کا کہنا تھا کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتاہے۔اس طرح دوبارہ سے زندگی مصروف ہوگئی۔ اس دوران منزہ کے لئے کئی رشتے آتے رہے۔خالہ زاد بھائی فراز کا رشتہ بھی آیا تھا۔منزہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی تھی اور کرنا بھی نہیں چاہتی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ والدین کا جو فیصلہ ہوگا ،وہ قابل قدر ہوگااور بہتر مستقبل کا ضامن بھی کہلائے گا۔ساجد کے بعد فراز اس کی زندگی میں مسلسل دستک دے رہا تھالیکن اسے فراز میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی ۔شاید منزہ کے دل کا دروازہ کسی اور دستک کامنتظر تھا۔ آخر فراز ناامید ہوگیااور اس کے والدین نے اس کا کہیں اور رشتہ کردیا۔امی  کچھ اداس ہوگئی تھیں کیونکہ انہیں اپنی بہن کا لڑکا بہت پسند تھاجبکہ ابو کو جس ذہنی صلاحیت کے حامل نوجوان کی تلاش تھی ، اس صلاحیت و قابلیت سے فراز کوسوں دور نظر آتاتھا۔ منزہ ایک سمجھدار، خود اعتماد، سلجھی ہوئی باوقار لڑکی تھی۔رشید احمد کوفراز اپنی منزہ کے لئے موزوں نہیں لگاتھا جب منزہ کو اپنے ابو کے خیالات کا علم ہوا تو وہ مطمئن ہوگئی۔
(باقی آئندہ:ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: