Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اللہ کے مہمانوں کا مقام ، کاش آپ سمجھ جائیں!

تنویر انجم٭٭٭***
اور پھر یوں ہوا کہ مدینہ جیسی ریاست بنانے کے دعوے داروں نے اپنے ہی شہریوں کا مکہ اور مدینہ جانا دشوار بنا دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ’’نیا پاکستان‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ کے عنوان سے اقتدار سنبھالا اور لگتا یوں ہے کہ اس حکومت نے ہر چیز کو تبدیل کرنے کا عزم کر رکھا ہے خواہ کوئی درست کام تبدیل کرکے غلط ہی کیوں نہ کردیا جائے۔ پی ٹی آئی سرکار نے پہلے 6 ماہ کے دوران معیشت کی بہتری کیلئے چند ایسے کام کیے ہیں جو قابل تعریف ہیں، مگر بہت سے اقدامات ایسے بھی ہیں، جو نہ ہی کیے جاتے تو بہتر تھا۔ ایسے فیصلوں میں سب سے اہم تو مہنگائی میں اضافہ اور اس پر ٹیکسز بڑھا دینا عوام پر ظلم نہیں تو پھر کیا ہے؟۔ وزیرا عظم اور ان کے تمام وزرا ایک بات میں متفق و متحد نظر آتے ہیں کہ حکومت جو بھی کام کرے گی، خواہ اس کے نتائج منفی ہی کیوں نہ نکلیں، تاہم اس کیلئے دلائل دنیا بھر سے ڈھونڈ کر پیش کیے جائیں اور اس دوران تمام مسائل اور ناکامیوں کا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑ لیں۔ حکمران طبقے کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کی خرابی کا اندازہ نہیں تھا، یہ تو 6 ماہ کے بعد پتا چلا کہ اس حد تک حالات خراب ہیں، جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ 22برس کی جدوجہد کے بعد اس مقام تک پہنچے ہیں تو کیا ان گزشتہ 2دہائیوں سے زیادہ عرصے میں وہ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکے کہ ملکی معیشت اور اقتصادی صورت حال کس ڈگر پر جا رہی ہے اور اس کے اعداد شمار کیا ہیں؟۔ کیا وہ ان 22برس کے دوران ایسی ٹیم اور حکمت عملی تشکیل نہیں دے سکے جو اقتدار سنبھالتے ہی تجربے کرنے کے بجائے ٹھوس اور موثر اقدامات کرتے کہ معیشت کو سنبھالا مل سکے۔
تازہ معاملے میں وزیرا عظم عمران خان اور ان کی کابینہ نے رواں برس حج پر سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سبسڈی ایسے وقت میں ختم کی گئی ہے جب موجود حکومت ہی کے دور میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ حد تک گرنے کے نتیجے میں پہلے ہی گزشتہ برس کی نسبت تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ مہنگا ہو چکا ہے۔ کابینہ کے غیر دانش مندانہ فیصلے پر نظر ثانی تو کیا ہوتی، وزرا نے فیصلے کو درست قرار دینے کیلئے ایسے ایسے دلائل تلاش کرکے بیانات جاری کیے کہ ہر جانب سے اسے تنقید اور مخالفت ہی کا سامنا کرنا پڑا۔  اس کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ وزیر مذہبی امور کے بجائے وزیر اطلاعات نے حج پالیسی کا اعلان کیا۔ بعد ازاں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مذہبی امور نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ میں ناراض ہوکر نہیں بلکہ فون کال کرنے کے لیے اجلاس سے اٹھ کر گیا تھا، اور انہوں نے بھی حکومتی دلیل ہی دہرائی کہ صاحب استطاعت لوگ ہی حج کرتے ہیں، جس کے پاس پیسے ہوں گے وہ چلا جائے گا۔ ظاہر ہے انہیں تو منصب پر رہنا ہے، وزارت اور وہ بھی وفاقی سطح کی جس کیلئے ہاں میں ہاں ملائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ حیران کن اور غیر متوقع طور پر وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ حکومت معاشی حالت میں بہتری کیلئے اقدامات اٹھارہی ہے، لہٰذا حج پر دی جانے والی سبسڈی مفاد عامہ کے دیگر کاموں کیلئے مختص کریں گے۔
بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے وفاقی کابینہ کے فیصلے پر شدید تنقید کی گئی۔ اسی حوالے سے سینیٹ میں جماعت اسلامی کے رکن نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا اور کہا کہ حکومت نے امید کے برعکس حج اخراجات میں 60 فیصد سے زائد کا اضافہ کردیا ہے۔ کیا یہ لوگ مدینے جیسی ریاست بنائیں گے؟ وزیر مملکت علی محمد نے جواب دیا کہ ہم مدینہ جیسی ریاست کے موقف پر قائم ہیں، ساتھ ہی انہوں نے حج پر سبسڈی ختم کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سابق حکومت نے انتخابات میں فائدہ اٹھانے کیلئے حج اخراجات نہیں بڑھائے۔ اگر وہ حج اخراجات میں اضافہ کر دیتے تو اس وقت اتنا زیادہ اضافہ نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی مختلف جماعتوں کی قیادت اور سینئر رہنماؤں کی جانب سے حکومت پر حج سبسڈی ختم کرنے کی وجہ سے سخت تنقید کی گئی اور قرار دیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے عام آدمی کیلئے حج کرنے کا سوچنا بھی محال بنا دیا ہے۔ خود عازمین حج بھی حکومت کے فیصلے پر سخت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ عوام اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت تنقید پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ریاست مدینہ کا مطلب غریبوں کے پیسوں سے مفت حج کرانا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سبسڈی حج کی عبادت کے بنیادی فلسفے ہی سے متصادم ہے۔
حکومتی موقف اور ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت ملک اقتصادی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہے تاہم حج جیسے معاملے پر کوئی نہ کوئی حل یا آسانی نکالنا ناممکن نہیں تھا۔ کیا کوئی شخص اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ دعاؤں میں اثر نہیں ہوتا یا دعائیں معجزات کا باعث نہیں بنتیں۔ حکومت اخلاص نیت کے ساتھ عمر بھر پیسہ جوڑنے اور حجاز مقدس جانے کا خواب دیکھنے والوں کے لیے آسانی پیدا کرے تو یہی لوگ ارض مقدس جاکر پاکستان کے مسائل کے حل کی دعائیں مانگیں گے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حاجی اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کے دل سے نکلی ہوئی دعائیں ضرور رنگ لاتی ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر انتہائی کم ہونے کے بعد حج اخراجات جہاں پہلے ہی کافی بڑھ چکے تھے، حکومت کو چاہیے تھا کہ ماضی کی نسبت زیادہ سبسڈی دے کر عوام کی اس مشکل کو آسان بنایا جاتا۔ ہزاروں ایسے مجبور اور معمر افراد ہیں جو عمر بھر اپنا پیٹ کاٹ کر ایک ایک پیسہ جمع کرتے ہیں تب جاکر عمر کے آخر میں حج ادا کرنے کی آرزو پوری ہونے کا وقت آتا ہے، تو ایسے میں ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کرکے حکومت درحقیقت اپنے ہی لیے مشکلات پیدا کررہی ہے۔ پڑوسی ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں حجاج کو سبسڈی دینے کے علاوہ کئی طرح سے سہولیات دی جاتی ہیں۔ 
ہمارا مشورہ ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کابینہ کے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور سرکاری اسکیم کے تحت حج پیکیج میں فریضے کی ادائیگی کے لیے جانے والوں کو آسانیاں فراہم کریں، اس کیلئے مشاورتی اجلاس طلب کیے جا سکتے ہیں، تجاویز لی جا سکتی ہیں ساتھ ہی سعودی حکومت سے بھی بات کی جا سکتی ہے کہ غریب اور نادار افراد کو مالی آسانیوں اور دیگر سہولیات کے ساتھ کس طرح حرمین شریفین بھیجا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی پاکستانی جہاز رانی کی صنعت کو ایک بار پھر منظم کرکے حج کا سفر سستا بنایا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ دیگر تجارتی فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں، تاہم ان تمام کاموں کیلئے انتہائی بنیادی اور ضروری چیز اخلاص نیت ہے۔ جب وہ پیدا ہوگا تو تمام کاموں کے لیے راہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ خدارا ہر چیز کو کاروبار اور معیشت سے مت جوڑیں۔ عبادات کی ادائیگی اور ثواب حاصل کرنے کے مواقع پیدا کریں گے تو آپ کا راستہ ازخود صاف ہوتا جائے گا۔ کاش کہ آپ سمجھ جائیں کہ اللہ کے مہمانوں کا مقام کیا ہے۔ کاش آپ سمجھ جائیں کہ مکہ اور مدینہ میں ضیوف الرحمن کے میزبان کون ہیں؟ کاش آپ سمجھ جائیں کہ مکہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر اور مدینہ میں ایک نماز کا ثواب 50ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ اسی طرح ان اللہ والوں کی دعائیں بھی براہ راست عرش پر جاتی ہیں۔ عازمین حج کیلئے مشکل پیدا کرنے کے نتیجے میں کسی کی آہ نکلی تو نہ جانے اس کی سزا کسے ملے؟۔
 

شیئر: