Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رحمت ِرحمۃًللعالمین ﷺ

 جب رسول نے امرائے عجم کو خطوط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو عرض کیا گیا کہ امرائے عجم ان خطوط کو قبول نہیں کرتے جس پر مہر نہ لگی ہو تو آپ نے ایک انگوٹھی بنوائی
ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔مکہ مکرمہ
حضرتِ رحمت عالمین خاتم النبیین کی تشریعی تعلیمات وہدایات کے ساتھ ساتھ آپ کی فطرت عاداتِ مبارکہ بلکہ آپ کی طرف منسوب بہت سی اشیاء اور ان کے متعلقات حضرات صحابہ کرامؓ، تابعین تبع ،تابعین اور جامعین سنت نے شمائل نبویہ کے عنوان سے اپنی اپنی مؤلفات میں انتہائی عقیدت ومحبت سے جمع فرماکر انہیں ہر دور میں امت میں سندِ متصل سے نقل فرمایا ہے اور سبب صرف یہی لکھا ہے کہ محبِ صادق اپنے حبیب کی ہر ادا اور اس کی طرف منسوب ہر شیٔ کا تذکرہ کرنے میں فخر محسوس کرتاہے ، خصوصاً جب ذات بھی ذاتِ کریمہ نبویہ ہو، جس کا ذکر خو د ذاتِ باری تعالیٰ نے بلند کرنے کا حتمی فیصلہ اپنے قرآن کریم میں فرماکر یہ اعلان فرمایا ( ورفعنا لک ذکرک)۔
    مُحبّ اپنے محبوب کا تذکرہ کرنے میں فخر محسوس کرتاہے اور یہ امر یقینا محبت میں زیادتی تعلق اور اضافہ محبت کا ذریعہ بنتاہے اور حضرت رحمت للعالمین سے محبت ایمان کا تقاضا اور بندے کے دین کی علامت ہے ۔
    اپنے اس مقال میں ہم خاتم النبیین کی خاتم ( انگوٹھی مبارک) اور اس کے بعض متعلقات کا ذکر کرتے ہیں ۔ آپ کا اپنی  انگوٹھی مبارک کو دعوتی اغراض ومقاصد کیلئے استعمال فرمانا اس باب میں سنگِ میل کا حامل ہے
    حضرات ِ صحابہ کرام نے رحمتِ عالمین کی  انگوٹھی کے بارے میں بہت تفصیلات ذکر کی ہیں ، کہ وہ کس ضرورت سے اور وہ کیوں بنوائی گئی، کس چیز سے بنی؟ آپ اسے کس غرض کے لئے استعمال فرماتے ؟ اور کس انگلی میں پہنتے؟ اس کا نگینہ کیسا تھا؟ کس چیز کا تھا؟ اس پر کیانقش تھا؟ حتیٰ کہ صحابہ کرامؓ نے آپ کی وفات کے بعد بھی انگوٹھی کے بارے میں بعض تفاصیل بیان کی ہیں ۔ آپ کی انگوٹھی کا بیان بھی کئی قابلِ قدر فوائد پر مشتمل ہے اور کئی روایات مذکور ہیں۔
    oحضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی  انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشی پتھر کا تھا۔
    oحضرت عبد اللہ ابن عمر نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی سے ایک انگشتری بنوائی تھی جس کے ساتھ آپ مہر لگاتے تھے اور اسے پہنتے نہیں تھے۔
    ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ نہ پہننے سے مراد یہ ہے کہ ہمیشہ اور مداومت کے طور پر نہیں پہنتے تھے ، جب کوئی ضرورت ہوتی تو بطورِ مہر استعمال کرنے کیلئے پہن لیتے ۔
    oحضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگھوٹی  چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ پتھر کا تھا ۔
    o ایک روایت میں نگینہ پتھر کا اور ایک میں چاندی کا ہونے کی وجہ سے بعض اہلِ علم اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ آپ کی 2انگوٹھیاں تھیں، ایک حبشی پتھر والی اور دوسری چاندی کی تھی جو کبھی کبھار پہنتے تھے۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی کیوں بنوائی؟:
    اس باب میں حضرت انس بن مالک سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امرائے عجم کو خطوط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو عرض کیا گیا کہ امرائے عجم ان خطوط کو قبول نہیں کرتے جس پر مہر نہ لگی ہو تو آپ نے ایک انگوٹھی بنوائی ، گویا مَیں اس کی سفیدی کو نبی اکرم کی ہتھیلی مبارک میں دیکھ رہا ہوں۔
    بعض روایات میں ہے کہ جب آپ عجمیوں کو خط لکھیں گے تو وہ بغیر مہر کے قبول نہ کریں گے ، بعض میں ہے کہ عجم کے کچھ لوگوں یا بعض قبائل کو بعض میں رومیوں کی طرف خط لکھنے کا ذکر ہے۔
    مختصراً یہ کہ انگوٹھی خطوط پر مہر لگانے کی خاطر بنوائی گئی ۔
     یہ ہجرت کا سال تھا، جب آپ نے ایران کے کسریٰ ، قیصرِ روم اور نجاشی وغیرہ کو دعوتی خطوط تحریر فرمائے تو ان خطوط میں انہیں دینِ حق’’ اسلام‘‘ کی دعوت دی گئی تھی۔
    خطوط پر مہر لگاکر ارسال کرنے کا مشورہ بعض صحابہ کرامؓ نے پیش کیا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور انگوٹھی بنوائی، جس میں درس یہ ہے کہ حضرتِ رحمت ِ عالمین اپنے صحابہ کرامؓ کے مشورہ کو لائقِ توجہ سمجھتے اور مفید مشورہ کو فوراً قبول بھی فرمالیتے تھے۔انہی حضرات کے مشوروں پر انگوٹھی بنوانے کا عمل طے پایا ۔انگوٹھی بنانے کی سعادت جس صحابی کو حاصل رہی اسے بھی ناقلینِ سنت نے ذکر فرمایا ہے۔
     سننِ دار قطنی میں حضرت یعلی بن امیہ کی یہ روایت موجود ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی میں نے اکیلے ہی بنائی اور دیگر کوئی اس میں شریک نہ تھا۔ (واقعی تعبیرِ روایت انتہائی عقیدت کے جذبات کی مظہر ہے) کہ اس سعادت سے مَیں اکیلا ہی مشرف ہوا اور کوئی میرا حصہ دار نہ تھا ، میں نے اس میں عبارت ’’محمد رسول اللہ‘‘ کندہ کی۔
     حضرت انسؓ کی مذکورہ روایت حسنِ تعبیر ، کمالِ عقیدت ومحبت کے پیرایہ اور اتفاقِ رائے کی مظہر ہے اور وہ یوں کہ وہ روایت کرتے وقت یہ فرمارہے ہیں کہ گویا میں حضرت حبیبِ کبریا، مطاعِ ما اور نبیٔ انور کی ہتھیلی کی چمک کو دیکھ رہا ہوں ۔ گویا کہ حضرت انسؓ  کو وقتِ روایت پورا ایقان اور استحضار تھا اور دل ودماغ میں پورے ایقان کے ساتھ اس وقت بھی ہتھیلی کی سفیدی جلوہ افروز تھی۔
    شاہد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عاداتِ مبارکہ ہوں ، یا آپ کی طرف منسوب اشیاء از قسم لباس ہوں یا زینت وضرورت کی اشیاء ، آپ کے محبین صادقین کے عقل ودماغ میں ہمیشہ ان کا استحضار رہتا اور نقلِ روایت کے وقت ان کی زبانو ں پر فرطِ محبت سے ان کا جریان ہوتا۔
    تامل کریں کہ حفاظت کے ساتھ آپ کی انگوٹھی مبارک پر کیا نقش تھا؟ اسے اول تا آخر یعنی راوی ، صحابی اور سند کے تمام رُوات پھر حضراتِ جامعین سنت سے پوری ثقافت سے ضبط فرمایاہے۔
    امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت انس بن مالک ؓسے مروی روایت کو اسی باب میں یوں روایت کیا ہے کہ حضرت انسؓ  فرماتے ہیں کہ حضرت ِ رحمت عالمین کی انگوٹھی کا نقش یوں تھا کہ ایک سطر میں’’ میں‘‘ (محمد) دوسری میں ’’ رسول ‘‘ اور تیسری میں ’’ اللہ‘‘ تھا۔
    اس روایت میں منقوش عبارت اور کتابت کی کیفیت ہر دو کا بیان ہوا ہے۔
    اس کی ترتیب کیا تھی؟… اس بارے میں اصل میں یہ ہے کہ اس کی کتابت عام ترتیب کے انداز کے خلاف تھی کیونکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ منقوشہ حرو ف والفاظ الٹے کندہ کئے جائیں تاکہ مہر سیدھی آئے ۔
    بعض اہل ِ علم کا خیال ہے کہ یہی تینوںالفاظ اوپر نیچے یوں تھے کہ لفظ ’’اللہ‘‘ سب سے اوپر والی سطر میں اور لفظ ’’محمد‘‘ سب سے نیچے والی سطر میں تھا۔
    حضرتِ رحمت ِ عالمین کی رحمتِ عامہ ، رسالتِ عامہ اور دعوت ِ عامہ کا تقاضا تھا کہ آپ نے جن امراء وملوک کو خط تحریر فرمائے او ر ان پر انگوٹھی سے مہر ثبت فرمائی، اس امر کو حضراتِ صحابہ کرام اور روایت ِ جامعینِ سنت نے ثبت فرمادیا ۔نیز حاملینِ خط کا بھی ذکر کیا اور وہ یوں ہیں :
    (1) نجاشی: حبشہ کا بادشاہ ۔اس کا نام اصحمہ تھا اور اس کی طرف حضرت عمر بن امیہ الضمریؓ نامہ مبارک لے کر گئے۔
    (2)  مقوقس :عزیزِ مصر جس کا نام جریر بن قتی تھا ۔اس کی طرف نامہ مبارک حضرت حاطب بن ابی  بلتعہؓ لے کر گئے ۔
    (3) کسریٰ: شاہِ فارس جس کا نام خسرو پرویز تھا۔ اس کی طرف نامہ مبارک لے کر حضرت عبد اللہ بن حذافہ السہمیؓ تشریف لے گئے۔
    (4) قیصر:شاہِ روم جس کا نام ہرقل تھا اور اس کی طرف حضرت دحیہ کلبی  ؓنامہ مبارک لے کر گئے۔
    (5) حاکمِ بحرین: جس کا نام منذر بن ساوی تھا ۔اس کی طرف نامہ مبارکہ لے کر حضرت علاء بن خضرمیؓ  تشریف لے گئے۔
    (6) حاکم عامہ :جس کا نام نوزہ بن علی تھا اور رحمتِ عالمین کا اس کے نام نامہ مبارک لے کر جانے والے صحابی رسول حضرت سلیط بن عمرو عامری ؓتھے۔
    (7) حاکمِ دمشق: جس کا نام حارث بن ابی شمرغائی تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک لے جانے والے صحابی سیدنا شجاع بن وہب ؓتھے۔
    (8) شاہِ یمامہ: جوکہ جیعقر اور اس کے بھائی کے نام تھا ۔ انہیں نامہ مبارکہ حضرت عمرو بن العاصؓ کے ہمراہ بھجوایا گیا تھا۔
    حضرتِ رحمت ِعالمین کے دعوتی مبارک خطوط کے جواب میں بعض خوش قسمت تھے کہ آپ کی دعوت قبول کرتے ہوئے وہ اسلام میں داخل ہوگئے اور بعض اپنے دین پر ہی قائم رہے مگر ان کی توجہ دینِ حق کی طرف مبذول کردای گئی اور ان دعوتی انتہائی مختصر مگر دعوت میں جامع خطوط کے ذریعہ اسلام کا تعارف پیش کردیا گیا۔مناسب ہوگا کہ بعض خطوط کے مضامین کو بطورِ نمونۂ دعوت یہاں پیش کردیاجائے۔
    ٭ حضرت رحمت عالمین کا جو نامہ مبارکہ ایران کے کسریٰ خسرو پرویز کے نام تھا اور اسے حضرت عبد اللہ بن حذافہ السہمیؓ کے ذریعہ بھجوایا گیا تھا۔ اس کا مضمون حسبٍ ذیل ہے:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔من محمد رسول اللہ  الی کسری عظیم فارس۔ سلام علی من اتبع الہدی، وآمن  باللہ ورسولہ ، وشہد  ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ  وان محمداً عبد ہ ورسولہ ، وادعوک بدعایۃ اللہ ، فانی انا رسول اللہ الی الناس کافۃ، لینذر من کان حیاً ویحق القول علی الکافرین۔فأسلم تسلم، فان ابیت فان اثم المجوس علیک۔
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    محمد رسول اللہ کی طرف سے کسریٰ عظیم فارس کی جانب !
    اُس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اورگواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتاہوں کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا فرستادہ ہوں تاکہ جو شخص زندہ ہے اسے انجامِ بد سے ڈرایا جائے اور کافرین پر حق بات ثابت ہوجائے (یعنی حجت تمام ہوجائے)۔ پس تم اسلام لاؤ ، سالم رہوگے اور اگر اس سے انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی بارِ گناہ ہوگا۔
    یا در ہے کہ جب حضرت رحمتِ عالمین نے یہ خط حضرت عبد اللہ بن حذافہ السہمیؓ کو دیا تو انہیں ہدایت کی کہ کسریٰ کا جو گورنر  بحرین میں مقیم ہے، اسے دیدیں تاکہ یہ خط اس تک پہنچادیںچنانچہ اس کے ذریعہ سے وہ وہاں تک پہنچا،مگر کسریٰ کی بدبختی کہ اس نے یہ مکتوب گرامی سنتے ہی اسے پھاڑدیا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے پھینک دیا ۔
    جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حرکت کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کے ملک کو اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے کردے ،چنانچہ ایسے ہی ہوا اور اس کے بیٹے قباذ الملقب شیرویہ نے اسے بری طرح قتل کردیا۔
    ٭ شاہِ روم قیصر کے نام آپ نے ایک والہ نامہ تحریر فرمایا۔ اس کا نام ہرقل تھا۔ اس مکتوبِ مبارکہ کو حضرت دحیہ کلبیؓ لے کر اس کے پاس پہنچے۔وہ مسلمان تو نہ ہوا مگر اس نے آپ کے گرامی نامہ کو نہایت اکرام واحترام سے وصول کیا اور اپنے پاس رکھا۔آپ کو جب اس امر کا علم ہوا تو رحمتِ عالمین نے فرمایا کہ : کسریٰ نے تو اپنے ملک کے ٹکڑے کرلئے اور قیصر نے اپنے ملک کی حفاظت کرلی۔
    اس مکتوب ِ گرامی کی مضمون درجِ ذیل ہے:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم۔من محمد بن عبد اللہ ورسولہ الی ہرقل عظیم الروم ۔سلام علی من اتبع الہدی: أما بعد فانی ادعوک بدعایۃ الاسلام ۔أسلم تسلم یؤتک اللہ اجرک مرتین ، فان تولیت علیک اثم الاریسیین(قل یا أہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا ارباباً من دون اللہ فان تولیتم فقولوا اشہدوا بانا مسلمون(صحیح بخاری)۔
    بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی جانب سے ہرقل عظیم روم کی طرف۔اُس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے ۔تم اسلام میں سالم رہوگے۔ اسلام لاؤ، اللہ تمہیں تمہارا اجر دوبار دے گا،اور اگر تم نے روگردانی کی تو تم پر اریسیوں(رعایا) کا (بھی)گناہ ہوگا۔اے اہلِ کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پوجیں۔اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور اللہ کے بجائے ہمارا بعض، بعض کو رب نہ بنائے۔پس اگر لوگ رخ پھیرلیں تو کہہ دو کہ تم لوگ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔
    قاصدِ حضرت رحمت عالمین حضرت دحیہ کلبیؓ جب یہ خط لے کر قیصرِ روم کے پاس پہنچے اور اسکے سامنے یہ پڑھنا شروع کیا تو اس کا بھتیجا بھی وہاں موجود تھا۔وہ نہایت غصہ میں اٹھا اور کہنے لگا : یہ خط مجھے دو ۔قیصر نے کہا: تو کیا کرے گا؟ اس نے کہا:یہ خط پڑھنے کے لائق نہیں۔
    اس میں آپ کے نام سے ابتدا نہیں کی گئی اور آپ کی بادشاہی کے بجائے روم کا بڑا آدمی لکھا گیا ہے۔قیصر نے کہا: تُوبڑا بے وقوف ہے !تو چاہتاہے کہ میں اس شخص کے خط کو پھینک دوں جس کے پاس ناموسِ اکبر(حضرت جبرئیل علیہ السلام) آتے ہوں ۔اگر وہ نبی ہیں تو انہیں ایسے ہی لکھنا چاہئے ۔اس کے بعد قیصر نے حضرت دحیہ کلبیؓ  کوبڑے اعزاز واکرام کے ساتھ ٹھہرایا ۔یہ خط جب قیصر کو ملا تھا تو وہ سفر میں تھا۔ واپسی پر اس نے ارکانِ سلطنت اور وزراء کو جمع کیا اور اس کے خط کے متعلق بات کی جس کا مشہور واقعہ کتب ِ تاریخ میں مذکور ہے۔
مزید پڑھیں:- -  --  -حب رسول ، تقاضے کیا ہیں ؟

شیئر: