Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آج کا طالبِ علم بھول گیا ہے کہ اس کے حقوق کیا ہیں‘

پاکستان میں طلبہ یونینز کی بحالی اور فیسوں میں اضافے کے خلاف طلباوطالبات کی جانب سے جمعے کو طلبہ یکجہتی مارچ کیا گیا۔
اس مارچ کا اعلان پروگریسیو سٹوڈنٹس، سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور ان سے وابستہ دیگر طلبہ تنظیموں کی جانب سے کیا گیا ۔ یہ مارچ اور ریلیاں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں منعقد ہوا۔
جمعے کو منعقد ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ میں حکومت سے مطالبات کیے گئے کہ طلبہ یونین پرعائد پابندی ختم کی جائے۔ ایچ ای سی کی بجٹ کٹوتی واپس لی جائے۔ تعلیمی اداروں میں مداخلت بند کی جائے۔ مبینہ گمشدہ طلبا کو بازیاب کروایا جائے۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری کا خاتمہ کیا جائے۔ فیسوں میں اضافہ واپس لیا جائے اور تعلیمی اداروں میں حلف نامے کا خاتمہ کیا جائے۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں طلبہ مارچ کو سراہا (فوٹو: ٹوئٹر)

خیال رہے ضیاالحق نے 70 کی دہائی کے اواخر میں طلبہ کے سیاست میں حصہ لینے اور یونین بنانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اگرچہ بیشتر حکومتی حلقوں کی جانب سے ابھی تک طلبہ میں اٹھنے والی لہر کے بارے میں کوئی ردعمل نہیں آیا تاہم وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اس حوالے سے اپنی ایک ٹویٹ میں اسے سراہا ۔
انہوں نے لکھا ’میں طلبہ یونینز کی بحالی کو سپورٹ کرتا ہوں، طلبہ یونینز پر پابندی غیرجمہوری عمل ہے۔ ہم طلبہ سیاست کو تشدد سے پاک رکھنے کے لیے قواعدوضوابط متعارف کروا سکتے ہیں لیکن طلبہ سیاست پر پابندی سے مستقبل کی سیاست متاثر ہوتی ہے۔‘
طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ پابندی کے بعد شروع سے ہی موجود رہا ہے تاہم چند روز قبل لاہور میں فیض فیسٹیول کے موقع پر وائرل ہونے والی ویڈیو کے بعد سے یہ مطالبہ کچھ زیادہ پرزور طریقے سے سامنے آیا ہے جس میں عروج اورنگزیب اور ساتھی طلبہ پرجوش انداز میں انڈین شاعر بسمل عظیم آبادی کی نظم ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ گا رہے تھے۔

طلبہ کا موقف 

وقاص عالم جو کراچی میں طلبہ کو متحرک کرنے میں مصروف ہیں کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن نے سندھ میں اور پنجاب میں پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو نے یہ بیڑا اپنے سر لیا کہ طلبہ کو یکجا کر کے بنیادی مطالبات پر بات شروع کی جائے۔
وقاص کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ان کی تنظیم نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے طلبہ کی 58 تنظیموں کو ایک جگہ لا کھڑا کیا۔ ’ہمارا بنیادی مطالبہ ہے کہ طلبہ یونین کو بحال کیا جائے اور تمام تر جامعات میں یونین کے لیے چناؤ یا الیکشن کروائے جائیں۔‘

 طلبہ انہی مطالبات کے حق میں مارچ کر رہے ہیں(فوٹو: ٹوئٹر)

خیال رہے کہ طلبہ یونین اور طلبہ تنظیموں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ یونین کو باقاعدہ طور پر کسی بھی جامعہ میں الیکشن کروا کر چنا جاتا ہے جبکہ طلبہ تنظیمیں ان چناؤ میں حصہ لیتی ہیں اور جیتنے پر اپنی ایک باڈی تشکیل دیتی ہیں جو بعد میں جامعات کے مسائل اور اس کی نظامت میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان بھر میں یہ مارچ اور طلبہ کے اجتماع سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے نام سے کیے جا رہے ہیں۔
نوجوان طلبہ رہنما زہابیہ جو کراچی میں طلبہ سیاست پر کام کر رہی ہیں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدتوں سے طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے ریاست نے خوب سعی کی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ طلبہ سیاست میں حصہ لیں۔ ان کے مطابق ’کیونکہ اپنے غصب شدہ حقوق حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ سیاست میں آگے آئیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان سالوں میں طلبہ بھول ہی گئے ہیں کہ ان کے حقوق دراصل ہیں کیا اور ان کو کیسے حاصل کیا جائے یا تعلیمی اداروں میں مسائل کا حل ممکن بھی ہے۔
’اسی لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ طلبہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور اپنے اپنے نظریات کے ساتھ ہی وہ کچھ بینادی مطالبات کے لیے کام کریں۔ مل بیٹھ کر مسائل کا حل ڈھونڈیں۔‘ 

’ہم سپناسرڈ نہیں‘

ذہابیہ نے مزید واضح کیا کہ مارچ کے انعقاد کے لیے طلبہ نے ذاتی وسائل کا استعمال کیا ہے اور صرف جاننے والوں سے چندہ مانگ کر انتظامات کے پیسے اکھٹے کیے ہیں۔

پاکستان بھر میں یہ مارچز سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے نام سے کیے جا رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی سپانسرشپ اس اجتماع میں نہ تھی اور نہ ہوگی۔
’ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ خود یہ کام با آسانی کرسکتے ہیں اور انہیں ہی یہ کام کرنا چاہیے۔ ہم سپانسرڈ نہیں بلکہ ہم حقیقی طلبہ سیاست کر رہے ہیں۔‘

شیئر: