Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران، بوتھم سلیم یوسف پر برہم کیوں ہوئے؟

انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں عمران خان نے سلیم یوسف کو غلط اپیل پر بہت ڈانٹا تھا۔ فوٹو: گیٹی امیجز
پاکستان نے انگلینڈ میں ٹیسٹ میچ سنہ 1954 میں اپنے پہلے دورے میں جیت لیا لیکن سیریز میں کامیابی کے لیے اسے 33 برس انتظار کرنا پڑا۔ یہ معرکہ 1987 میں عمران خان کی قیادت میں سر ہوا۔
پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں صرف لیڈز ٹیسٹ نتیجہ خیز ثابت ہوا جس میں پاکستان نے ایک اننگز اور 18 رنز سے فتح حاصل کی۔ عمران خان نے میچ میں دس وکٹیں لیں اور مین آف دی میچ قرار پائے تھے۔ 
انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر ہرانا وہ عظیم کامیابی تھی جس نے کپتان کی حیثیت سے عمران خان کا رتبہ بہت بلند کر دیا۔
اس جیت کا ایک اہم پہلو سابق آقا کے خلاف ایک غلام رہنے والے ملک کا غالب آنا تھا۔ عمران خان نے اپنی کتاب ’میں اور میرا پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ پاکستان، ہندوستان اور ویسٹ انڈیز، انگلینڈ کے خلاف میدان میں اترتے تو یہ غلامی کا قرض چکانے کا ایک موقع بھی ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ میں ان کے دو عزیز دوست سنیل گواسکر اور سر ویوین رچرڈز بھی ان کی طرح اسی جذبے سے انگلینڈ کے خلاف کھیلتے۔
عمران خان کے بقول ’مجھے اندازہ تھا کہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں انگریز کا مقابلہ کرنے کی تمنا ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں سب سے بڑی قوتِ متحرکہ تھی۔ ویوین رچرڈز کے انداز میں خاص طور پر عزتِ نفس اور قومی وقار کی بحالی کا جذبہ بروئے کار تھا۔ وہ چیزیں جو استعمار اپنے غلاموں سے چھین لیتا ہے۔‘
لیڈز ٹیسٹ میں انگلینڈ کو ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ مہنگا پڑا۔ 31 رنز پر آدھی ٹیم آﺅٹ ہوگئی۔ ڈیوڈ کیپل نے 53 رنز بنائے۔ میزبان ٹیم 136 رنزبنا سکی۔ جواب میں پاکستان نے 353 رنز بنائے۔

انگلینڈ کے خلاف میچ میں عمران خان مین آف دی میچ قرار پائے تھے۔ فوٹو: گیٹی امیجز

سلیم ملک نے نہایت ذمہ دارانہ بیٹنگ کی اور مشکل میں گھری ٹیم کو محفوظ مقام تک پہنچایا۔ ساڑھے پانچ گھنٹے وکٹ پر رہے اور 99 رنز بنائے۔ عمران خان ان کی اس کاوش سے بہت خوش ہوئے۔ ان کے بقول ’یہ وہ میچ تھا جس میں سلیم ملک نے خود کو بالآخر ایک مکمل ٹیسٹ بیٹسمین کی حیثیت سے منوا لیا۔‘
اعجاز احمد نے نصف سنچری بنائی۔ وسیم اکرم نے 41 گیندوں پر 43 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی، جس میں چار چھکے شامل تھے۔ پاکستان نے 217 رنز کی برتری حاصل کی۔ نیل فاسٹر نے آٹھ کھلاڑی آﺅٹ کیے۔
انگلینڈ کے بیٹسمین دوسری اننگز میں عمران خان کی عمدہ بولنگ کے سامنے ٹھہر نہ سکے۔ انھوں نے 40 رنز دے کر سات کھلاڑی آﺅٹ کیے۔ ڈیوڈ گاور نے سب سے زیادہ 55 رنز بنائے۔
اس اننگز کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آیا۔ پاکستانی وکٹ کیپر نے گیند واضح طور پر زمین پر لگ جانے کے بعد کیچ کا کلیم کیا تو بیٹسمین این بوتھم سخت غصے میں آ گئے اور سلیم یوسف کو برا بھلا کہا۔ سلیم یوسف یقیناً غلطی پر تھے لیکن بوتھم کے ردِعمل میں اپنی اور ٹیم کی خراب کارکردگی کا غصہ بھی شامل تھا کیونکہ اس وقت انگلینڈ کی شکست نوشتہ دیوار بن چکی تھی۔ 
بوتھم نے پاکستانی وکٹ کیپر سے جو کہا سو کہا لیکن عمران خان نے بھی اس موقع پر سلیم یوسف کو بہت ڈانٹا، جس کا اندازہ اس تصویر سے بخوبی ہوتا ہے جس میں وہ ان پر برس رہے ہیں۔ بوتھم اس واقعے کے بعد زیادہ دیر تک وکٹ پر نہ ٹھہر سکے اور 24 رنز پر محسن کمال کی گیند پر آﺅٹ ہوگئے۔

پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں پہلی کامیابی 1987 میں حاصل کی۔ فوٹو: گیٹی امیجز

انگریزی اخبارات نے سلیم یوسف والے واقعے پر بہت شور مچایا، جس پر بعد میں ڈیوڈ گاور نے لکھا کہ سلیم یوسف سے ملتے جلتے طرز عمل کا مظاہرہ انگلینڈ کے وکٹ کیپر باب ٹیلر نے بھی کیا تھا لیکن اسے ایشو نہیں بنایا گیا، لیکن پاکستانی کھلاڑی پر بے ایمان ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔
لیڈز ٹیسٹ سے پہلے دو ٹیسٹ میچوں کی طرح، اس کے بعد ہونے والے دونوں ٹیسٹ بھی بے نتیجہ رہے اور پاکستان نے سیریز 1-0 سے جیت لی۔ کپتان ہی نہیں آل راﺅنڈر کی حیثیت سے بھی عمران خان کا ستارہ عروج پر پہنچ گیا۔ انھوں نے سیریز میں 21.66 کی اوسط سے 21 وکٹیں حاصل کیں جبکہ این بوتھم 61.85 کی اوسط سے 7 کھلاڑی آﺅٹ کر سکے۔
بیٹینگ میں بھی عمران خان کی کارکردگی بوتھم کے مقابلے میں بہتر رہی۔
انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر ہرانے کی جو نفسیاتی حد عمران خان کی کپتانی میں پاکستان نے عبور کی اس کا فائدہ ٹیم کو اگلے دو درووں میں بھی ہوا۔ 1992 میں پاکستان جاوید میانداد کی کپتانی میں اور 1996 میں وسیم اکرم کی کپتانی میں بھی سیریز جیتنے میں کامیاب ہوا۔

شیئر: