Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا نے ’کشمیر کو برائے فروخت رکھ دیا‘

انڈین حکومت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت پر کشمیریوں نے ہڑتال کی۔
 انڈیا کی جانب سے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ سب سے بڑی ہڑتال تھی۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دکانیں اور کاروبار بند رہے۔ سیاسی اور مذہبی گروپوں کی جانب سے ہڑتال کے مطالبے پر بیشتر شہری گھروں تک محدود رہے۔
 70 سال سے زائد عرصے سے ہمالیہ کا یہ خطہ پاکستان اور انڈیا کے مابین تقسیم ہے اور اس پر دونوں ملکوں میں تنازع ہے۔
دہائیوں سے کشمیر کے اس خطے میں بدامنی ہے جبکہ ہزاروں افراد بھی بدامنی کا شکار ہو کر زندگی کھو چکے ہیں۔
گذشتہ برس انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی قوم پرست حکومت نے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو وفاقی علاقے کا حصہ قرار دیا تھا۔
کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خاتمے کے بعد کئی مہینوں تک احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رہا اور انٹرنیٹ بھی بند کر دیا گیا تھا۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ بڑی ہڑتال ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اضافی انڈین سکیورٹی فورسز نے تقریباً خالی سڑکوں اور گلیوں میں گشت کیا۔
رواں ہفتے نئی دہلی نے ان قوانین کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت صرف انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے 12 ملین شہری ہی زمین کی ملکیت رکھ  سکتے ہیں۔
کشمیری گروپس جو عام طور انڈین سرکار کے حامی ہیں، نے قوانین میں ان تبدیلیوں کی مخالفت کی۔ 

ہڑتال کے موقعے پر فوجی بھی تعینات کیے گئے (فوٹو: اے ایف پی)

کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ کشمیر کو برائے فروخت رکھ دیا ہے اور بنیادی حفاظت کے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق بہت سے کشمیریوں نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ انڈیا کی مسلمان اکثریت والے علاقے میں ان کی مقامی آبادی کو کم کیا جا رہا ہے۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں پانچ لاکھ  سے زیادہ فوجی تعینات ہیں، تاہم تین دہائیوں سے زائد عرصے سے وادی میں شورش جاری ہے۔

شیئر: