Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جھوٹی پشیمانی

بی جے پی کا مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دیناطے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہے، وہ مسلمانوں کو اقتدار اور فیصلوں کی قوت سے دور رکھنے کی حکمت عملی ہے
 
معصوم مرادآبادی
 
اب جبکہ اترپردیش اسمبلی انتخابات کا صرف آخری مرحلہ باقی رہ گیا ہے اور سب کو بے چینی کے ساتھ انتخابی نتائج کا انتظار ہے تو اس مرحلے میں بی جے پی لیڈران نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ انہیں یوپی اسمبلی کے انتخابات میں کسی مسلمان کو امیدوار نہ بنائے جانے کا افسوس ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے بی جے پی کا نظریہ اور پالیسی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ یہ بات سبھی لوگ جانتے ہیں کہ اس کی سیاست کا محور مسلم دشمنی ہے لیکن اس کے باوجود بی جے پی لیڈران مسلمانوں کو فریب دینے کے لئے ’’سب کا ساتھ اور سب کی ترقی‘‘ کا خوش نما نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ یہ بھی سبھی کو معلوم ہے کہ بی جے پی نے یوپی کے انتخابی میدان میں ان تمام فرقہ وارانہ موضوعات کو ہوا دی ہے جن کی ضرب براہ راست مسلمانوں پر پڑتی ہے اور جن کے بل پر بی جے پی خود کو اکثریتی فرقے کا سب سے بڑا خیرخواہ ثابت کرتی ہے۔ خود وزیر اعظم نریندرمودی نے فتح پور میں ایک انتخابی جلسے کے دوران قبرستان اور شمشان ، دیوالی اور عید کے حوالے سے جو بیان دیا تھا وہ بدترین فرقہ وارانہ ذہنیت کا عکاس تھا اور کسی کو بھی وزیراعظم سے اس قسم کے سطحی بیان کی توقع نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اس بیان کیلئے چا روں طرف سے تنقید وں کا نشانہ بننا پڑا لیکن حیرت انگیز طورپر انہوں نے اپنے اس بیان پر نہ تو کسی قسم کے افسوس کا اظہار کیا اور نہ ہی معذرت خواہی کی۔ اب بی جے پی لیڈران یہ کہہ رہے ہیںکہ انہیں اترپردیش اسمبلی کیلئے بی جے پی کے ٹکٹ پر کسی مسلم امیدوار کو میدان میں نہ اتارنے کا افسوس ہے۔ اس سلسلے کا سب سے پہلا بیان وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے دیا تھا۔ اس کے بعد اومابھارتی نے حال ہی میں کہا  کہ بی جے پی کو مسلم امیدواروں کو بھی اترپردیش میں ٹکٹ دینا چاہئے تھا۔ انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ پارٹی کسی مسلم امیدوار کو میدان میں اتارنے میں ناکام رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بجرنگ دل کے سابق سربراہ اور بی جے پی کے موجودہ ممبرپارلیمنٹ ونے کٹیار نے اپنے دل کی بات کہنے سے گریز نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو الیکشن میں ٹکٹ نہیں دیاجانا چاہئے کیونکہ وہ پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس انتخاب میں اقلیتوں کے ووٹ کی سیاست حاشیے پر پہنچ جائیگی اور بیشتر مسلم امیدوار الیکشن ہار جائیں گے۔
 
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان بی جے پی امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال سیکولر پارٹیوں کے ایسے امیدواروں کے حق میں کرتے ہیں جو بی جے پی امیدوار کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مسلمان بی جے پی کے ٹکٹ پرغلطی سے کھڑا بھی ہوجاتا ہے تو بھی اسے مسلمانوں کا ووٹ نہیںملتا ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے لوگ مسلم امیدوار کھڑا نہ کرنے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ مسلمان ان کے مسلم امیدوار کو بھی ووٹ نہیں دیتے۔ اس کا تجربہ بی جے پی نے 2012کے اسمبلی انتخابات میں بدایوں سے ایک مسلم امیدوار کو میدان میں اتارکر کیاتھا۔ یہ امیدوار اپنی ضمانت بچانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا لیکن یہاںبنیادی سوال یہ ہے کہ آخر مسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے اور وہ اس کے امیدوار کو ہرانے کیلئے متحدہوکر ووٹ کیوں ڈالتے ہیں۔ اس سوال کا جواب بی جے پی لیڈران کو خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے۔ بی جے پی نے آج تک کوئی بھی ایسا کام نہیںکیا جس کے بل پر وہ خود کو مسلم ووٹوں کا حق دار قرار دے سکے بلکہ وہ عملی طورپر مسلم ووٹ کو ناکارہ بنانے اور قانون ساز اداروں میں مسلم نمائندگی کو صفر کرنے کی حکمت عملی پر کاربندہے۔ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ 2014کے پارلیمانی انتخابات میں اترپردیش سے ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب ہوکر پارلیمنٹ میں نہیںپہنچ سکا۔ ایسا آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست جہاں پارلیمنٹ کی 80 نشستیں ہیں اور جہاں مسلم ووٹ 20فیصد کے قریب ہے، وہاں سے تمام مسلم امیدوار ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے الیکشن ہار گئے۔ یہ دراصل بی جے پی کی حکمت عملی کا ہی ایک حصہ تھا اور اس حکمت عملی کے کامیاب ہونے کے بعد خود بی جے پی صدر امت شاہ نے کہاتھا کہ ہم نے مسلم ووٹ کو ناکارہ بنادیا۔ مسلمان بی جے پی کو ہرانے کے لئے ووٹ دیتے ہیں تو بی جے پی مسلمانوں کے ووٹوں کو ناکارہ بنانے کے لئے کام کرتی ہے۔ یہی کام حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھی نہایت چالاکی اور عیاری کے ساتھ انجام دیاجارہا ہے۔ 
 
یوں اگر دیکھاجائے تو بی جے پی کے پروگرام اور پالیسیاں آر ایس ایس کی وضع کردہ ہیں۔ بی جے پی بنیادی طورپر آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے جو سیاست کے ذریعے اس کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں بھی کابینی سطح پر مسلم نمائندگی صفر ہے۔ مرکز میں ضرور بی جے پی کوٹے سے دومسلم وزیر ہیں لیکن ان کی مسلمانوں میں کوئی شناخت نہیں اور انہیں محض زیب داستاں کے لئے کابینہ میں شامل کیاگیا ہے۔ بی جے پی کو مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں مسلمانوں کو حکومت میں شامل نہ کرنے پر کوئی افسوس نہیں۔ بی جے پی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ ان ہی امیدوار وں کو اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ٹکٹ دیتی ہے جو جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارنا فضول ہے کیونکہ وہ اپنی ضمانت بھی نہیں بچاپاتے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ یوپی اسمبلی کی 403نشستوں کے لئے بی جے پی نے اپنے جو امیدوار میدان میں اتارے ہیں، کیا وہ سب کے سب جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت چناؤ ہارجانے والوں کی ہے کیونکہ 2012کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے جو امیدوار میدان میں اتارے تھے ان میں سے 20فیصد بھی کامیاب نہیں ہوپائے اور بیشتر کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ لہٰذا یہ دلیل اپنے آپ میں انتہائی بودی ہے ۔ بی جے پی کا مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دینا ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہے اور وہ مسلمانوں کو اقتدار اور فیصلوں کی قوت سے دور رکھنے کی حکمت عملی ہے۔ 
 

شیئر: