Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سائیکل کو ’دو چرخہ‘ کیوں کہتے ہیں؟

انگریزی میں ’بائی سائیکل‘ کا لفظی مطلب ’دو پہیا‘ ہے، جو اس کی ہیئت کا بیان اور صفت کا اعلان ہے. (فوٹو: بشکریہ دی کنورسیشن)
ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
طبیعت کا تضاد بیان کرتا یہ شعر مولانا حسرت موہانی کے مشہور اشعار میں شامل ہے۔ سرِدست اس شعر کے انتخاب کی واحد وجہ اس میں وارد لفظ ’چکی‘ ہے۔
’چکی‘ قدیم زمانے ہی سے ایک کارآمد کل کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے، تاہم نئی ایجادات نے اس کا گھریلو استعمال متروک نہیں تو محدود ضرور کردیا ہے۔

 

’چکی‘ عام طور پر تین طرح کی ہوتی ہیں۔ گھریلو استعمال میں آنے والی چکی ہاتھ کی مدد سے چلائی جاتی ہے، اس لیے ’ہتھ چکی‘ کہلاتی ہے، جب کہ اسے پسنہارا، ہتھ چلی اور میچن بھی کہتے ہیں۔ جب کہ پانی اور ہوا کی مدد سے چلنے والی چکیاں بالترتیب ’پَن چکی‘ اور ’پَوَن چکی‘ کہلاتی ہے۔
چکی پتھروں کے دو گول حصوں پر مشتمل ہوتی ہے، نیچلے حصے میں ایک کیل لگی ہوتی جسے اردو میں ’مانی‘ کہتے ہیں، چکی کا نچلا حصہ ساکت رہتا ہے جب کہ اوپری حصہ اس ’مانی‘ کے گرد گھومتا ہے۔
عربی میں چکی کی مانی کو ’قطب‘ کہتے ہیں، چوں کہ یہ ’قطب‘ اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور اس کے گرد چکی گھومتی ہے اس لیے مجازاً ستارہ شمالی (North Star) کو بھی ’قطب‘ کہتے ہیں، کہ قطب تارہ بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور باقی ستارے گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس بات کو علامہ اقبال کے شعر سے سمجھیں۔
کہتا تھا قطبِ آسماں قافلہِ نجوم سے
ہمرہو، ميں ترس گيا لطف خرام کے ليے
عربی ہی میں سردار قوم کو بھی ’قطب‘ اسی رعایت سے کہا جاتا ہے کہ سارے معاملات اس کے گرد گھومتے ہیں۔ 
چکی کو فارسی میں ’آس‘، ’آسک‘ اور ’آسیا‘ کہتے ہیں۔ یہ چکی پانی سے چلے تو ’آسیاب‘ اور ہوا سے چلے تو ’آسیا باد‘ کہلاتی ہے۔ 

پانی اور ہوا کی مدد سے چلنے والی چکیاں بالترتیب ’پَن چکی‘ اور ’پَوَن چکی‘ کہلاتی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

فارسی اور اردو شعرا کے ہاں برے حالات یا تقدیر کی نسبت آسمان کی جانب کی جاتی رہی ہے، میرزا غالب نے یوں ہی تو نہیں کہا : ’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو‘
’آسمان‘ سے یاد آیا کہ اردو میں رائج لفظ ’آسمان‘ اور اس کے بیشتر فارسی مترادفات میں ’گردش‘ کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ لفظ ’آسمان‘ ہی پر غور کرلیں، یہ دولفظوں سے مرکب ہے، اول ’آس‘ یعنی چکی اور دوم ’مان‘ یعنی مانند، یوں ’آسمان‘ کا لفظی مطلب ہوا ’آس کے مانند‘ یا ’چکی جیسا‘، وجہ یہ کہ پرانے زمانے میں زمین کا ساکن اور آسمان کو متحرک مانتے تھے، اور چکی کا بھی اوپری پاٹ گھومتا اور نچلا پاٹ ساکن رہتا ہے، لہٰذا اس مشابہت یا مماثلت کی وجہ سے ’آسمان‘ نام ہوگیا اب اس بات کو میرزا غالب ایک اور مشہور شعر سے سمجھیں:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
اب لفظ ’گردش‘ کو ذہن میں رکھیں اور ’گَردوں‘ پر غور کریں جو فارسی کی رعایت سے اردو میں آسمان کو کہتے ہیں، اس میں بھی ’گھومنے‘ کا تصور موجود ہے۔ ’گردش‘ فارسی مصدر ’گردیدن‘ یعنی گھومنا کا حاصل مصدر ہے۔ آسان لفظوں میں سمجھیں تو جیسے آزمودن (آزمانا) سے آزمائش ہے یا فرمودن (فرمانا) سے فرمائش ہے ایسے ہی گردیدن (گھومنا) سے گردش ہے۔ پھر اسی ’گردیدن‘ سے لفظ ’گردوں‘ ہے جس کے معنی ہیں ’گھومنے والا‘، لفظ ’آسمان‘ کی طرح یہ بھی صفاتی نام ہے۔ اب اس ’گردوں‘ کو ایک مشہورشعر میں ملاحظہ کریں:
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
’آسمان‘ کے بیشتر صفاتی نام اس کے گھومتے رہنے کا اعلان ہیں، انہی ناموں میں سے ایک  ’دوّار‘ بھی ہے، جس کے لفظی معنی بہت زیادہ گھومنے والا ہیں، اس کو ’فلک دوّار‘ کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔

گھریلو استعمال میں آنے والی چکی ہاتھ کی مدد سے چلائی جاتی ہے، اس لیے ’ہتھ چکی‘ کہلاتی ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

فارسی کی رعایت سے اردو میں آسمان کو ’چرخ‘ بھی کہتے ہیں، اسے ’چرخِ نیلی فام‘ کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔ ’چرخ‘ کے لفظی معنی ہیں ’پھرنے والا‘، جب کہ اصطلاح میں پہیے کو چرخ کہتے ہیں۔ اب اس ’چرخ‘ کی نسبت سے لفظ ’چرخہ‘ اور ’چرخی‘ پر غور کریں بات اور آسان ہوجائے گی۔ چوں کہ گھومنے یا گردش کرنے کا تصور ’آسمان‘ کے ساتھ بھی وابستہ ہے اس لیے اسے مجازاً ’چرخ‘ جاتا ہے۔ 
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ جسے ہم اردو میں ’سائیکل‘ کہتے ہیں وہ انگریزی ترکیب 'bicycle' کی 'مُؤَرَّد' صورت ہے، انگریزی میں ’بائی سائیکل‘ کا لفظی مطلب ’دو پہیا‘ ہے، جو اس کی ہیئت کا بیان اور صفت کا اعلان ہے کہ یہ سواری دوپہیا ہوتی ہے، اہل فارس اس ’سائیکل‘ کو 'دوچرخہ' کہتے ہیں جو 'bicycle' کا خوبصورت ترجمہ بھی ہے۔
آسمان کو ہندی میں گگن، آکاش اور امبر بھی کہتے ہیں۔ آخر الذکر ’امبر‘ اگر سر پر سمٹ آئے تو انگریزی کا ’امبریلا‘ بن جاتی ہے، جو اردو میں چھتری کہلاتی ہے، اس چھتری کو ’چھاتہ‘ بھی کہتے ہیں، یوں اس  کی نسبت ’چھت‘ سے جُڑ جاتی ہے، اور ظاہر ہے کہ ’چھت‘ حسب موقع دھوپ اور بارش سے بچاتی ہے، اور یہی کام محدود طور پر ’چھتری‘ بھی انجام دیتی ہے۔ اب اجازت چاہنے سے قبل چھتری کی رعایت سے لکھنؤ کے ’والی آسی‘ کا شعر ملاحظہ کریں
چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم
اب کتنی احتیاط سے چلنے لگے ہیں ہم

شیئر: