Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواہش ہے وطن کے ہر بیٹے،بیٹی کو اعلیٰ تعلیم ملے، نزہت ملک

 دل میں گنجائشۘ ہوتوراستے نکل ہی جاتے ہیں،  ہوا کے دوش پر گفتگو
 
زینت شکیل۔ جدہ
 
ثقافت ایک ارتقائی عمل ہے ، اس کا تعلق نوع بشر کی جسمانی ، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی کوششوں سے گہراہے۔ اسی سلسلے میںہماری گفتگو ’’ہوا کے دوش پر‘‘  محترم محمد تاج الدین ملک اور ان کی اہلیہ محترمہ نزہت تاج سے ہوئی۔ اس بارے میں ہمارے مہمان کا کہنا تھا کہ دنیا میںآپ  جہاں بھی رہیں، جب تک مقامی آبادی کے ساتھ آپکا میل جول نہیں ہوگا آپ ان سے اور وہ آپ سے کچھ نہیں سیکھ سکتے ۔ اسی لئے ضروری ہے کہ آپ دنیا کے جس کسی بھی خطے میں رہائش اختیار کریں ، اپنے ملک ، اپنے وطن سے دور رہ کر بھی وہاں کی مقامی ثقافت سے شناسائی حاصل کی جائے۔
 
محترم محمد تاج الدین ملک چونکہ قونصلیٹ کی طرف سے کئی ممالک میں اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کیلئے بھیجے گئے تو وہاں ان کی فیملی بھی ساتھ رہائش پذیر ہوئی۔ محترمہ نزہت تاج الدین ملک  نے بتایا کہ ہماری بچیاں پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں لیکن جب پروفیشنل کالجز میں ایڈمیشن ہوا ، اس سے پہلے جہاں جس ملک میں رہے، ان کی حکومت کی جانب سے ہر مقام پر غیرملکی اور ملکی سب ہی کیلئے بارہویں جماعت تک تعلیم مفت دی جاتی۔ ہم لوگ جب جرمنی گئے ،آج سے تین عشرے پہلے تو ہماری بچی چند ماہ کی تھی۔ جب اسکول جانے کے لائق ہوئی تو داخلہ ہوگیا۔ پھر تقریباً 8سال رہنے کے بعد واپسی ہوئی۔ وہاں رہنے سہنے سے آپ ان کو پھر بھی نہیں جان سکتے جب تک کہ آپ ان سے میل جول نہ رکھیں۔
 
آپ کی بڑی صاحب زادی مسرت ،ڈاکٹر بنیں تو وطن سے دور رہ کر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ اس بارے میں ان کی صاحب زادی مسرت تاج نے خود بتایا کہ ہماری خالہ جان نگہت ہاشم  بہترین منتظم ہیں ، ان کی اپنی صاحب زادی بھی میری طرح پروفیشنل کالج کی طالبہ بنیں، ہم دونوں کزنز تعلیمی مدارج ساتھ طے کرتے رہے۔ میں خالہ جان کے گھر اکثر رک جاتی تھی اور ہماری نانی جان اور نانا جان کا گھر بھی قریبی کمپاؤنڈ میں تھا ، ہماری نانی جان نے بھی ہمارا خوب خیال رکھا ۔ 
 
دراصل ہماری کئی اور کزنز جو پاکستان کی یونیورسٹیز میں بھی زیر تعلیم تھیں تو ہم سب کا ساتھ مل جل کر رہنا آج بھی بہترین یادگار کے طور پر سنہری دور لگتا ہے۔ صبح سویرے اٹھنا، یونیورسٹی جانا، سب کا ویک اینڈ پر پروگرام بنانااور خالہ جان کے گھر یا پھر نانی جان کے گھر سب کی فیملی گیٹ ٹو گیدر انجوائے کرنا ، سب ہی مگن رہتے تھے۔ ہمارے نانا جان بہت اصول پسند شخصیت تھے ۔ کمپاؤنڈ میں تمام پڑوسی انکا بہت احترام کرتے تھے، ہمارے خاندان کی کوئی تقریب کمپاؤنڈ کے اندر منعقد کی جاتی تو ہمارے چاروں ماموں اور دونوں خالائیں اور ہم سب بہنیں ایسا لگتا کہ ہماری تعدادسیکڑوں میں جاپہنچی ہے۔کسی باہر کے مہمان کی گنجائش کم ہی ہوا کرتی  تھی لیکن پھر بھی تمام پڑوسیوں اور قریبی رشتہ داروں کو مدعو کرتے تھے۔ ہماری نانی جان اپنی چچازاد بہن حفظانہ خاتون کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارتی تھیں۔ بہنیں اور پھر ان میں حد سے زیادہ دوستی کے باعث لگتاتھا کہ وہ ایک جان دو قالب ہیں ۔ 
 
ہماری فرح مامی بھی بہت ایکٹیو اور حاضر جواب تھیں جہاں بیٹھتی تھیں ۔یہ لوگ اپنے زمانے اور اپنے بچپن کی باتیں کرتیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہم لوگ آج اپنے ملک سے بہت دور رہائش رکھتے ہیں لیکن بہت ساری باتیں جن پر ہم لوگوں نے عمل کیا، وہ سب ہماری بزرگ خواتین کی تربیت اور ان کے بتائے ہوئے اصول ہیں ۔ہمیں آج بھی یہی لگتا ہے کہ جس جگہ ہم ہیں، اس ملک کا نام کچھ اور ہے۔ جگہ کے حساب سے موسم بھی الگ ہے لیکن گھر کے ماحول میں وہی چاشنی ہے، وہی حکایتیں کروٹ لیتی محسوس ہوتی ہیں جو ہماری نانی اماں نے تربیت میں شامل کردی ہیں۔
 
مسرت ڈاکٹر بنیں اور اب مصروفیت کے باعث کم وقت نکال پاتی ہیں ورنہ انہیں جب موقع ملے تو پرانے  بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور کے گانے  شوق سے سنتی ہیں۔ آجکل کے ڈراموں میں انہیںجو کہانی اچھی لگتی ہے ،وہ ڈرامہ دیکھتی ہیں ۔ انہیں خوشی ہے کہ ہمارے ڈرامے دوسری زبانوں میں ڈب کرکے دکھائے جارہے ہیں۔
 
مشرف  اکاؤنٹس کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں  اور خوب مہمانداری میں مصروف رہتی ہیں۔ والدین کی دوسری صاحب زادی ہیں اس لئے بڑی کے بعد ان کی بھی خوب آؤ بھگت ہوئی پھر مختلف ملکوں سے جب واپس آتے تو سب لوگ ملنے جلنے آتے ۔خوشیوں کی یاد گاریں بے شمار ہیں ۔ آج کل آسٹریلیا میں  اوپرا ہاؤس کے قریب اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ انہیںجاب کے بعد  جتنا بھی وقت مل جائے، اس میںاپنے گھر کو سجاتی سنوارتی رہتی ہیں ۔ان کے بچے دوسرے شہر میں یونیورسٹیوں کی تعلیم کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صائمہ، قطرمیں  اپنے سسرال میں رہتی ہیں چونکہ ڈینٹل ڈاکٹر ہیں تو لوگوں کو خوب مشورہ دیتی رہتی ہیں کہ اگر مختلف  بیماریوں کا سبب تلاش کیا جائے تو سب سے زیادہ بیماریاں دانتوں میں موجود رہ جانے والے خوراک کے ذرات کے باعث ہوتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ہر کھانے کے بعد بہت اچھی طرح دانتوں کی صفائی کی جائے۔
 
محترم محمد تاج الدین ملک نے بتایا کہ چونکہ نوکری ایسی تھی کہ مختلف ممالک میں رہنا سہنا ہوا لیکن ہم لوگ اپنے ملک سے آئے ہر مسافر کو ضروری ہدایات دینے میں سب سے اہم اس بات کو سمجھتے تھے کہ انہیں اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ آپ کہیں بھی، کسی بھی ملک کا سفر کریں ، اپنا پاسپورٹ اپنے آپ سے  جدامت رکھیں یعنی اگر آپ نے بہت حفاظت سے ہنڈ بیگ چھوٹا یا بڑا کسی بھی سائز کا ہو، بہت سنبھال کر رکھیں لیکن پھر  بھی سفر میں کہیں نہ کہیں آپ ہاتھ میں پکڑی چیز کہیں رکھ کر بھول سکتے ہیں۔ اس لئے اپنے کوٹ کی اندرونی جگہ پر جہاں جیب ہوتی ہے، اسی جگہ پر آرام دہ کپڑے میں جیب سلوالیں۔اس  طرح جو کپڑا آپ نے پہنا ہوا ہے اور دراصل اسی میں آپ کا پاسپورٹ ہونا چاہئے، ایک جملے میں کہا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپ سفر میں اپنا پاسپورٹ اپنے وجودکے ساتھ رکھیں ۔ ہینڈ بیگ یا جیب  میں نہ رکھیں تاکہ کسی جیب کترے کی پہنچ سے دور رہ سکے اور اس کے جیب سے  نکالے جانے یا گرجانے کا خدشہ  نہ رہے ۔
 
محترمہ نزہت تاج نے بتایا کہ میری تیسری بیٹی بہت محنتی ہے ، بچپن سے  ہی کام میں اتنی تیزی دکھاتی رہی ہے کہ جہاں سے گزر جائے یا توتیز رفتاری کے باعث یا تو دروازے  کی چوکٹ سے اس کی اپنی کہنی میں چوٹ لگ جاتی ہے یا پھر قریبی ٹیبل وغیرہ پر رکھا گلاس ان کاہاتھ لگنے سے ضرور گرجاتا ہے لیکن اب ایسا نہیں ہوتا ،یہ بچپن کی باتیں ہیں ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسی تیز رفتاری کے باعث کم عمری میں جبکہ اسکول کی ہی طالبہ تھی، جب ہم  لوگ کئی سال جرمنی میں رہے تو وہ وہاں بڑی روانی سے مقامی زبان بولنے لگی۔ پھر اپنے ملک آکر قونصلیٹ میںاچھے عہدے پرکئی سال فائز رہی۔ پڑھائی کا سلسلہ جاری رہا اور پھر شادی کے بعد اب سافٹ ویئر بزنس کررہی ہیں۔
 
بزنس وومن ہونے کی حیثیت  سے  اب وہ خوب مصروف رہتی ہے لیکن ہر ایک کو ہر سال اپنے ملک جمع کرنا، تمام خاندان والوں سے ملنا جلنا ان کی سالانہ سرگرمیوں میں شامل ہے ۔ ان کے چاروں بچے نہایت سادہ ہیں ۔ شوہر چونکہ کزن بھی ہیں تو ان کی تیزرفتاری کے عادی ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے بھی مشورہ دیا کہ میرے بزنس میں آپ  شامل ہوجائیں لیکن مزے کی بات یہ ہوئی کہ بیگم تیز رفتاری کے باعث کئی شہروں میں برانچز کھول چکی ہیں۔ سب سے  لاڈلی کرن علی جنہوں نے اپنے والدین کے ساتھ اپنی بہنوں سے بھی خوب محبتیں سمیٹی ہیں اور الحمدللہ آج بھی یہ محبت قائم ہے ۔ وہ سسرال جانے سے پہلے ماسٹرز کرچکی ہیں، دونوں بیٹوں کی اسکولنگ شروع ہوچکی ہے ۔ ساس  ، بہو دونوں ملکر شاپنک کا پروگرام بنالیتی ہیں۔ کبھی دبئی اور کبھی شارجہز نئی بلڈنگ ،فیسٹیول میں شرکت کا بے حد شوق رکھتی ہیں۔ 
 
مسز نزہت محمد تاج الدین بے حد سر شاری سے اپنی صاحبزادی کی باتیں بتارہیں تھیں اور مختلف ممالک میں موجود ان کی مصروفیت کے بارے میں آگاہ کررہی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ ہمارے وطن میں آباد  ہر خاندان، اپنے  بیٹے اور بیٹی دونوں کو اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مند کرے ۔ علم حاصل کرنا تو مرد و عورت دونوں کے لئے ہی ضروری ہے ۔ 
 
انہوں نے اپنی والدہ اور والد کا ذکر بہت محبت کے ساتھ کیا کہ ہم لوگ ان کے جانے سے اکیلے ہوگئے۔ پاکستان میں ان کے رہتے ہوئے پورا خاندان جمع ہوتا تھا۔ بہترین وقت گزرا۔ اب دعا ہے کہ ہماری نسل نو بھی مل جل کر رہے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ دل میں گنجائش ہونی چاہئے اور راستے نکل ہی جاتے ہیں ۔ انہوں نے تاج الدین ملک کے بارے میں بتایا کہ ان کے شوہر اپنے بچوں کیلئے  نہایت شفیق ہیں  اور ان کے چھوٹی سے  چھوٹی خواہش بھی پوری کرنا چاہتے ہیں ۔ دوست احباب سب کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اگر ریٹائرمنٹ کی عمرکو پہنچ جاؤ تو آفس یا نوکری سے ریٹائرمنٹ کو شخصیت پر حاوی مت کرو بلکہ دوسرے کسی شعبے میں اپنی صلاحیتیں آزماؤ۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک میں ہم لوگ  رہے اور اب جہاں تاج الدین اسمال بزنس کی طرف توجہ دیتے ہیں ،اپنے ملک کے لوگوں کیلئے ہر ممکن تعاون جاری رکھتے ہیں ، ملکی سوغات کی بھرپور طریقے سے تعریف کرتے اور لوگوں کو بتاتے ہیں۔ 
 
محترم تاج الدین ملک  اپنی بیگم کے  شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ ان کے فیصلوں میں ساتھ دیا۔ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ جب ایک دوسرے کے ساتھ ہر فیصلے پرسوچ بچار کے بعد آگے بڑھیں گے تو ہمیشہ کامیابی ملے گی ۔ چاہے  نوکری ہو ، مختلف ممالک کے موسمی تغیرات ، بچوں کی تعلیم اور تربیت یا پھر ان کے رشتے ناتے، ہر معاملے میں مالکِ حقیقی کی مدد مانگنا اور آپس میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنا بہترین ہوتا ہے  پھر فیصلہ آسان ہوجاتا ہے ۔
 
 محترمہ نزہت صاحبہ کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ لوگ کئی سال تک مختلف ممالک ، قونصلیٹ کی جاب یا کسی بھی وجہ سے رہائش اختیار کئے رکھتے ہیں لیکن وہاں کی زبان اور کھانے سے دور رہتے ہیں۔میری اہلیہ  نزہت  کی یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ جہاں جس ملک میں رہیں وہاں کے کلچر کو قریب سے جانا اور زبان اور ان کے پکوان سیکھے۔
 
 
 

شیئر: