Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی جیل سے قیدیوں کے فرار پر فلسطینیوں کا جشن

اسرائیل کی گلبوا جیل سے چھ فلسطینی سرنگ کے ذریعے فرار ہو گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل کی سخت سکیورٹی والی جیل سے چھ فلسطینی قیدیوں کے فرار ہونے پر غزہ کی پٹی میں جشن کا سماں ہے جبکہ لوگوں نے خوشی مناتے ہوئے مٹھائی تقسیم کی۔
عرب نیوز کے مطابق قیدیوں کے فرار ہونے کی خبر سامنے آتے ہی غزہ میں رہنے والے فلسطینی گلیوں میں نکل آئے جبکہ مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد کی جانب سے مٹھائی بانٹی گئی اور کئی محفلوں کا اہتمام کیا۔
جیل میں سے فرار ہونے والے چھ میں سے پانچ قیدیوں کا تعلق اسلامی جہاد جبکہ ایک کا تعلق فتح جماعت سے ہے۔
اسلامی جہاد کے سیاسی بیورو کے رکن ولید القطاتی نے کہا کہ گلبوا جیل سے فرار ہونے کا تمام عمل انتہائی پیچیدہ تھا، ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ آپریشن کیسے ممکن ہوا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی قانونی جدوجہد میں اس آپریشن کی حیثیت تاریخی قصے کی ہوگی۔
اس موقع پر غزہ کی گلیوں میں جشن منایا گیا جبکہ کچھ بینرز پر لکھا ہوا تھا ’صہیونی فوج کی جیل سے فرار کا دوسرا بڑا واقع۔‘
 جبکہ دیگر بینرز پر فرار ہونے والوں کے ناموں کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ یہ آزادی چھیننے والے افراد ہیں۔
فلسطین اور اسرائیل تنازعے میں قیدیوں کا معاملہ انتہائی پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون 1967 سے 10 لاکھ سے زائد فلسطینی قید کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ پانچ ہزار کے قریب فلسطینی ابھی بھی اسرائیلی جیلوں میں موجود ہیں۔ فلسطینی تنظیموں کے مطابق یہ قیدی اسرائیلی جیلوں میں غیر انسانی حالات میں رہتے ہیں۔
الضمیر فاؤنڈیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق گلبوا جیل شمالی اسرائیل میں بیت شیان کے علاقے میں واقع ہے جو آئرلینڈ کے ماہرین کی نگرانی میں بنائی گئی تھی، جبکہ 2004 میں استعمال کے لیے کھولی گئی تھی۔

چھ قیدیوں کی فرار پر غزہ کی پٹی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

الضمیر فاؤنڈیشن کے مطابق گلبوا انتہائی سخت سکیورٹی والی جیل ہے جس میں وہ فلسطینی قیدی رکھے جاتے ہیں جن پر اسرائیلیوں کو نشانہ بنانے کا الزام ہے۔
عسکری امور کے ماہر اور سابق میجر جنرل واصف ایرکات نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’فرار کا آپریشن فلسطینیوں کی ہمت کی عکاسی کرتا ہے۔ بلکہ یہ ایک معجزہ ہے جو قابضوں کی جیل میں رہنے والے قیدیوں کی کامیابیوں (کی فہرست میں) ایک اور اضافہ ہے، جو اس سکیورٹی سسٹم میں گھسنے کے نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں جس پر اسرائیل فخر محسوس کرتا ہے۔‘
سابق میجر جنرل واصف ایرکات کا کہنا تھا کہ ان چھ افراد کی فرار میں کامیابی دیگر قیدیوں میں بھی حوصلہ پیدا کرے گی کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے اپنی آزادی خود اپنے ہاتھ میں لینے کا سوچیں، خواہ  وہ سیاسی مذاکرات یا پھر تبادلے کی ڈیل کے تحت ہو۔‘
مصنف ابو زہری نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’دشمن کو اس بات کا احساس ہے کہ چھ ٹائم بم آزاد گھوم رہے ہیں اور یہ چھ قیدی غائب ہونے کے بجائے کمانڈو آپریشن کرتے ہوئے دشمن کو حیران کر دیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ قیدیوں کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ اسرائیل ان کی تلاش کبھی بھی بند نہیں کرے گا اور انہیں ہلاک کرنے کی کوشش جاری رکھے گا۔
یروشلم میں قائم فلسطینی سوسائٹی برائے بین الاقوامی امور کے سربراہ مہدی عبدالحادی کا کہنا ہے کہ ’مزاحمت ان افراد کی عکاسی کرتی ہے کہ جو عزت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ان چھ قیدیوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ قومی مزاحمت کیا ہے۔‘

فرار ہونے والے قیدیوں کے بینر غزہ میں لہرائے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’وسیع پیمانے پر خوشی کا سماں اور یہ احساس ہے کہ فلسطینی اپنے جیلرز کا مقابلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ وقت خوف کے کلچر کو شکست دینے کا ہے اور خود انحصاری کا ہے، جبکہ اسرائیل سٹیٹس کو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔’
اردن کی فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ جنرل مامون ابو نوار کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں 11 دنوں تک جاری جانے والی لڑائی کا اقدام قیدیوں کی فرار کے واقعے سے مکمل ہو گیا ہے۔
’یہ ان افراد کی جانب سے مزاحمت کا عمل ہے جو ناانصافی کی مخالفت کرتے ہیں،‘
فلسطینی کابینہ کے سابق رکن زیاد ابو زاید کا کہنا تھا کہ ’قیدیوں کی فرار سب کے لیے یاددہانی ہے کہ جب تک جنگیں اور مسلح تصادم جاری رہے گا،تب تک آزادی سے محروم ’جنگجو قیدی‘ بھی ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جنگوں اور قبضوں کا اختتام ہونا چاہیے، فلسطینی قیدیوں کی ہمت کبھی بھی نہیں ٹوٹے گی جب تک ان کے لوگوں کو آزاد فلسطینی ریاست میں امن، تحفظ اور آزادی کا حق حاصل نہ ہو جائے۔‘
السبیل اخبار کے ایک کالم نگار ہاضم ایاد کا کہنا تھا کہ چھ قیدیوں کی کامیابی فلسطینی مزاحمت کے لیے اہم کامیابی ہے جس نے اسرائیل کے سکیورٹی ماڈل کو توڑ کر رکھ دیا ہے جہاں سے ہوا کا گزر بھی ممکن نہیں ہے۔

شیئر: