Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماضی،پی ٹی وی کا سبق آموز ایپی سوڈ ،انتظار فرمائیے

 
آج بھی جب کانوں میں اس دھن کی باز گشت سنائی دیتی ہے تو وجودِ ہستی پرعجب سحر طاری ہوجاتا ہے ۔یہ دھن ایک جانب ہمیںمسحور کرتی تھی تو دوسری جانب ہمیں صبر و تحمل کا درس از بر کرایا کرتی تھی
 
عنبرین فیض احمد ۔۔ ریاض
 
کیا خوب زمانہ تھا جب ٹی وی چینلز کی بھرمار نہیں تھی، صرف ایک ہی چینل تھا اور وہ بھی سرکاری جس میں ملک کے نامی گرامی ڈائریکٹرز اپنی کارکردگی دکھایا کرتے تھے۔ طویل دورانئے کاایپی سوڈ ”انتظار فرمایئے“ نشریات کے دوران میں بھی ایک لطف دے جایا کرتا تھا۔ اس کی مدھم سی موسیقی کا”رسیلا آہنگ“ آج بھی کانوں میں کچھ یوں رس گھولتا محسوس ہوتا ہے:
 ”تی را را ری ، تا ری ری را را ری“
آج بھی جب کانوں میں اس دھن کی باز گشت سنائی دیتی ہے تو وجودِ ہستی پرعجب سحر طاری ہوجاتا ہے ۔یہ دھن ایک جانب ہمیںمسحور کرتی تھی تو دوسری جانب ہمیں صبر و تحمل کا درس از بر کرایا کرتی تھی جس کا انجام یہ تھا کہ ٹریفک سگنل پر سائیکل سے لے کر ٹرک تک ، سب کے سب سبز بتی کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے کیونکہ وہ سرخ بتی کو ٹریفک کا ”انتظار فرمائیے“ قرار دیتے تھے۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پرریل کی آمد میں تاخیر پر بھی پاکستانی مسافرچپ رہتے کیونکہ وہ اسے ریلوے کا ”انتظار فرمائیے“ قرار دیتے تھے۔ اسپتال میں ڈاکٹر مریض کو دیکھنے نہ آ سکتا تو بھی پاکستانی مریض کے اہل خانہ صبر کا مظاہرہ کرتے، وہ اسے” طبی انتظار فرمائیے“قرار دیتے تھے ۔ مطلب یہ کہ پی ٹی وی نے پوری قوم کے خدوخال تراش دئیے تھے۔ ان دنوں روزانہ صرف ایک ڈرامہ نشر کیا جاتا تھا مگر وہ آج کے 100 ڈراموں پر بھاری ہوتا تھا۔پھر وقت آگے بڑھتا گیا ، چینلز نے لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالیں ، سادگی چھین لی، زبان دانی معدوم ہوگئی،تعظیم و توقیر کافور ہوگئی ، توہین و تضحیک عام ہوگئی۔ تذکیر و تانیث کو پسِ پشت ڈال دیا گیا، جملوں کا تسلسل، معنویت و مقصدیت ناپید ہوگئی ۔
ماضی میںجب رنگین ٹی وی نہیں آیا تھا، لوگ سادہ لوح تھے ، گھروں میں ٹی وی نام کی چیز بہت کم ہوا کرتی تھی۔کیا اپنائیت کا دور تھا۔دلوں میں ایک دوسرے کیلئے محبتیں ہوا کرتی تھیں ۔ کوئی ڈرامہ آتا تو پڑوس والی پھوپھو، خالہ یا آنٹی کو بھی بلا لیاجاتاکہ کہیں ان کی کوئی قسط نہ چھوٹ جائے۔ اسی بہانے پڑوس کی پھوپھیاں، خلائیں اور چچی تائیاں اکٹھی ہو جاتی تھیں۔بعد ازاں اسکول ، کالج یا گلی کے نکڑپر ہر جگہ اسی ٹی وی ڈرامے کا چرچہ ہوتا ۔ جب ڈرامہ نشر ہونے کا وقت ہوتا توسب کو گھر پہنچنے کی جلدی ہوتی۔ ڈرامے سے پہلے جلدی جلدی گھر کے تمام کام نمٹا دیئے جاتے۔ ڈرامہ شروع ہوتے ہی گلیاں اور سڑکیں سنسان ہوجاتیں، اس کے باوجودنہ کوئی دہشت گردی، نہ قتل و غارت گری،نہ لوڈ شیڈنگ، نہ لاش کی بوری اور نہ ہی بھتہ خوری۔ سب لوگ کھانے پینے سے فارغ ہوکر ٹی وی کے سامنے براجمان ہوجاتے۔ڈرامہ دیکھتے اور پھر ہفتہ بھر ڈرامے کے خمار میں رہتے۔ سب رائے دیتے کہ آئندہ قسط میں ہیرو ئن کے ساتھ کیا ہوگا اور ہیروکیا کرے گا؟اسی طرح ہر 15 ویں دن رات دیر گئے کسی مشہور مصنف کا تحریر کردہ ڈرامہ بھی دیکھنے کو ملتا جو کافی فلسفیانہ اور تہذیب واخلاق سے بھرپورہوا کرتا تھا۔ اس میں بڑوں اور بچوں کیلئے بہت سی اچھی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر یوں ہوا کہ رنگین ٹی وی آگئے ،نجی چینلز نے یلغار کر دی، انہیں سرکار نے آزادی دے دی، تف ہے ان چینلزپر،جن کے آنے سے زندگی کا سکون غارت ہوچکا۔انہوں نے ”بریکنگ نیوز“ کے زیر عنوان ہر فرد کو ہکا بکا کرنے کا وتیرہ اپنا لیا ہے ۔ ہر لمحہ گھر کے کسی نہ کسی فرد کے ہاتھ میں ریموٹ ہوتا ہے اور وہ چینل در چینل ”سیاحت“ کرتا ہے، کہیں رکتا ہی نہیں۔ کسی چینل پر ڈرامہ تو کسی پر سیاست ۔ سیاستدان تو چینلز پر آکر اتنی گرمی دکھاتے ہیں کہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں۔دوسری جانب مارننگ شوز او رڈیلی شوز دیکھ دیکھ کر ناظرین سست اور کاہل ہوچکے۔سچ یہ ہے کہ زندگیوں میں چینلر کیا آئے ، دنیا ہی بدل گئی۔ ماضی میں گھروں میں کھانے بہت محنت اور دلچسپی سے پکا کرتے تھے لیکن اب تو جیسے تیسے ہی پکتے ہیں چنانچہ ان میں نہ کوئی ذائقہ ہوتا ہے اور نہ برکت کیونکہ کسی نہ کسی پروگرام کے لئے وقت جو نکالنا ہوتا ہے ۔گھروں میں بہو بیٹیوں کی جگہ ماسیوں کا رواج عام ہوچکا ہے۔ ساس او ر بہو کی سازشوں کے راز افشا ہو گئے۔ نند اور بھاوج نے باہمی دشمنیوں کے سبق بھی سیکھ لئے۔ ٹی وی پر فیشن ماڈلزکی وجہ سے مرد وں کو اپنی بیگمات ایک آنکھ نہیںبھاتیںچنانچہ بیویوں نے اپنے شوہروں کی توجہ کا مرکز بننے کیلئے بیوٹی پارلرز کا رُخ کرنا شروع کر دیا۔ ان چینلز نے سوکنوں کے حوالے سے بھی معاشرے میں تہلکہ مچا دیا ۔ان کی بدولت بہت سے گھر آباد ہوئے اور متعدد برباد۔ نئی نسل یہی چینلز دیکھ کر پروان چڑھ رہی ہے۔قیمتی وقت بربادہورہا ہے۔نجانے ہم کدھر جا رہے ہیں؟
٭٭٭٭٭٭

شیئر: