Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دال میں کچھ کالا ضرور ہے

 
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، پیسہ بولتا ہے حضور! پیسے کون لٹا رہا ہے یہ ہم کیا بتائیں؟ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ پی پی نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا لیکن زرداری نے بساط ہی الٹ دی
 
صلاح الدین حیدر
عنوان سے آپ چونک تو گئے ہوں گے، بات ہی کچھ ایسی ہے۔یکے بعد دیگرے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کو سمجھنا آسان نہیں، وقت درکار ہوگا۔ 25 نومبر کو حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے حکومتِ وقت یا صاف طور پر کہا جائے تو نواز شریف کےخلاف طبل جنگ بجادیا تھا۔ 
بلاول بھٹو نے لاہور میں مستقل قیام کرکے پارٹی کے عہدے داروں اور کارکنوں کو جمع کرنے کی کوشش کی، کہاں تک کامیاب ہوئے یہ تو وقت ہی بتائے گا، فی الحال اس کا تعین کرنا غلط ہوگا۔ اُمید تو یہی تھی کہ بلاول نواز شریف کے خلاف صف آرا ہونے سے ہچکچائیں گے نہیں بلکہ عام طور پر خیال کیا جارہا تھا کہ پنجاب میں گڑبڑ شروع ہونے والی ہے۔ بلاول جلسے جلوس کریں گے بلکہ لانگ مارچ تک کا اعلان کردیا گیا تھا۔
پارٹی کے مصدقہ ذرائع کے مطابق کراچی سے اسلام آباد تک تمام تیاریاں کرلی گئی تھیں، ضلع اور تحصیل کی سطح پر پارٹی کو ہدایات جاری کردی گئی تھیں کہ بس تیار ہوجاﺅ، لڑائی شروع ہونے والی ہے لیکن پھر اچانک جیسے اوس پڑ گئی ہو۔ زرداری صاحب اپنی لمبی یاترا سے لوٹے اور بازی یکسر ہی پلٹ گئی۔ اُنہوں نے پورے پلان کی بساط ہی اُلٹ دی۔ بیٹے کو سمجھایا کہ وقت ابھی نہیں آیا، لانگ مارچ سے جمہوریت کو خطرہ ہے، اس لئے اس کا خیال دل سے نکال دیا جائے۔ بلاول تو جیسے سنّاٹے میں آگئے، یہ کیا ہوگیا۔ زرداری نے ایک بار پھر پارٹی کی باگ ڈور اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کے ہاتھوں میں دےدی۔ بلاول ظاہر ہے ناخوش نظر آئے اور کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر چلے گئے۔ اُن کے سارے منصوبوں پر پانی پِھر چکا تھا۔
بلاول تو روٹھ کر امریکہ چلے گئے لیکن والد صاحب نے دبئی، لندن، لاہور اور اسلام آباد کے بیچ دوڑ لگانا شروع کردی۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ زرداری ایک شاطر کھلاڑی ہیں۔ وہ صبر کرنا بھی جانتے ہیں یہی بات انہیں زیرک سیاستدانوں کی صف میں کھڑا کرتی ہے۔ بے نظیر کے زمانہ اقتدار میں بھی زرداری ہی سیاست کی بساط بچھاتے اور لپیٹتے تھے۔ بے نظیر کے سیاسی استاد تھے تو پھر بلاول تو ابھی طفل مکتب ہیں وہ کس کھاتے میں آتے ہیں۔ زرداری اسلام آباد میں کیا براجمان ہوئے۔ ایان علی کو سپریم کورٹ سے باہر جانے کی اجازت مل گئی اور پہلی فلائٹ سے سری لنکا روانہ ہوگئی۔ اسے کئی بار ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی مل چکی تھی اور ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی، لیکن ہر بار اسے ایئرپورٹ سے لوٹا دیا جاتا تھا۔
ابھی لوگ اس معمّے کو سمجھ ہی نہیں پائے تھے کہ ایک اور دھماکا ہوگیا۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حُسین حقانی نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھ مارا کہ اُسامہ بن لادن پاکستانی حکمرانوں کی مرضی سے امریکہ کے ہتھے چڑھا۔ وہ اُس بات پر اب بھی مُصر ہیں کہ امریکی فوجیں پاکستانی حکمرانوں کو اعتماد میں لے کر ایبٹ آباد میں اُتری تھیں اور اُسے ہلاک کیا اور لاش بھی ساتھ ہی لے گئیں۔
ایان علی کا ملک سے باہر جانا، حُسین حقانی کا مضمون، اوپر سے شرجیل میمن کی واپسی، فوجی عدالتوں کا قیام، آئین میں 28 ویں ترمیم، آپ خود ہی کڑیاں ملالیں۔ ایان علی، حقانی اور شرجیل کس کے مُہرے ہیں، کون ڈوریں ہلارہا ہے؟ کیا سودے بازی ہوگئی؟ زرداری صاحب آخر ایک دم سے آئینی ترمیم پر کیسے تیار ہوگئے۔ پیپلز پارٹی تو مخالفت میں سب سے آگے تھی، پھر اچانک یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔
آئینی ترمیم کےلئے دو تہائی اکثریت گویا آسمان سے ٹوٹ پڑی۔ نیوٹن کی گود میں تو ایک سیب گر پڑا تھا تو اُس نے کشش ثقل کا قانون ایجاد کرڈالا۔ نواز شریف کی گود میں کون سا پھل آگرا جو یہ سب کچھ اتنی آسانی سے ہوگیا۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ فوائد تو ایک سے زیادہ نظر آرہے ہیں۔ پانامہ کیس کا فیصلہ آنا باقی ہے، لیکن لوگوں کی توجہ کیا خود بخود ہٹ گئی؟ سوال انتہائی اہم ہے۔ جواب کون ڈھونڈے گا۔ کیا قومی خزانے لوٹنے والوں کو چھٹی مل گئی؟ قوم تو دم بخود ہے، حیرت زدہ، لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والی بات ہے۔ اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوگا۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کیا بکواس کی جارہی ہے، لیکن محترم! واقعات کے تانے بانے سب ایک ہی جگہ جاکر ملتے ہیں۔ وزیر خزانہ آئینی ترمیم سے پہلے دھڑلے سے کہتے سنائی دیتے تھے کہ سوئس بینکوں کو خط لکھ دیا جائے گا کہ پاکستانیوں کی فہرست دی جائے، کس نے کتنے پیسے چھپا رکھے ہیں، کیا ہوا اُس خط کا۔ کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے سوئٹزرلینڈ میں بلاحساب کمائی ہوئی دولت رکھ چھوڑی ہے۔ کیا یہ قوم کبھی ان سوالات کا جواب جان پائےگی۔ فوجی عدالتیں تو ضروری تھیں، اُس میں کسی کو کوئی کلام نہیں۔ فضل الرحمن، زرداری صاحب یا پھر متحدہ قومی موومنٹ مخالفت کررہے تھے تو اب کیوں خاموش ہیں، سب کو ایک دم ہی سانپ کیوں سونگھ گیا؟ 
یہ کیسی جادوگری ہے جناب! صرف 24 سے 72 گھنٹوں میں فضا یکدم سے کیسے تبدیل ہوگئی؟ پیپلز پارٹی ایک طرف تو آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دیتی ہوئی نظر آتی ہے تو دوسری جانب بلیک میلنگ کا دامن بھی نہیں چھوڑتی۔ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ حکومت کےخلاف بیان بازی سے باز نہیں آتے اور تو اور سندھ کے وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ نے بھی شرجیل میمن کی گرفتاری کےخلاف صدائے احتجاج بلند کردی، جس پر یہ الزام ہو کہ اُسکے گھر سے 200 کروڑ روپے نکلے ہیں، ٹی وی پر سارا کچھ دِکھا دیا گیا اور اب لوگ بڑے اطمینان سے خود کو بے قصور کہلانے میں ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کرتے۔ 
مقدمات کا سامنا تو خیر ہر کوئی کرلیتا ہے۔شرجیل میمن بھی کرلیں گے۔ احتساب عدالت کی حےثیت ہر کوئی جانتا ہے، ایسی عدالتوں کو بے نظیر نے ہی کینگرو کورٹس کا نام دیا تھا، اُنہیں سرزنش بھی ہوئی، لیکن کیا وہ غلط تھیں؟ تو پھر سندھ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شےخ نے کیوں سیشنز ججوں کو رشوت اور بدعنوانی سے دامن بچانے کی ہدایت کی۔ کچھ تو تھا جس پر یہ فرمانِ شاہی جاری ہوا۔ پیسہ بولتا ہے حضور۔ پیسے کون لٹا رہا ہے، یہ تو علم غیب رکھنے والوں کو ہی پتا ہوگا۔ ہم بے چارے اتنا علم کہاں سے لائیں؟ ہمارا تو خود پر زور نہیں چلتا، دوسروں کے بارے میں کیا بتاسکتے ہیں۔
مُراد علی شاہ کا بیان آئینی ترمیم منظور ہونے سے صرف چند گھنٹے بعد آیا جب اُنہوں نے وفاقی حکومت سے کھلے عام شکوہ کیا کہ بجلی کے نرخ سندھ میں زیادہ اور دوسرے صوبوں میں کم ہیں اور سندھ کو اُس کے حصّے کا پانی بھی نہیں دیا جارہا۔ بقول اُن کے تربیلا اور منگلا کے بندوں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے اور دریائے سندھ کا پانی چشمہ اور دوسری نہروں کی طرف موڑا جارہا ہے۔ ظاہر ہے سندھ اور بلوچستان محرومی کا شکار ہیں، جسے دُور کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اُنہوں نے بات یہیں ختم نہیں کی بلکہ مطالبہ کردیا کہ تربیلا اور منگلا کو واپڈا سے لے کر اُن کا کنٹرول سندھ اور بلوچستان کے حوالے کیا جائے۔
مُراد علی شاہ، اس بات پر بھی مُصر تھے کہ سندھ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو اب قومی مفادات کی کونسل میں پیش کیا جائے گا، تاکہ صوبے کا مقدمہ صحےح طور سے سمجھایا جاسکے۔ ایک طرف تو وزیراعظم فوجی عدالتوں کا بل قومی اسمبلی سے منظور کراکر خوش تھے تو دوسری جانب اُنہیں ایک اور سردرد کا علاج کروانے کی فکر پڑ گئی۔ باتیں تو بہت ساری ہیں، لیکن دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اسی پر ملک کی سلامتی کا انحصار ہوگا۔ صوبے خوش رہیں گے تو ملک بھی ترقی کی دوڑ میں آگے ہی چلتا رہے گا، ورنہ پھر اﷲ ہی خیر کرے۔
******

شیئر: