Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انگریزی میں قرآن کا بہترین ترجمہ کس نے کیا؟

 ریاض .... امریکہ کی 3لادین خواتین نے 8ویں عشرے میں حلقہ بگوش اسلام ہوکر انگریزی زبان میں قرآن کریم کا دقیق اور مقبول ترین ترجمہ کرکے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ یہ تینوں خواتین ان دنوں سعود ی عرب میں قیام پذیر ہیں اور قرآن پاک کے انتہائی موثر انگریزی ترجمے کی اشاعت کو اپنا مطمح حیات بنائے ہوئے ہیں۔” صحیح انٹرنیشنل“ قرآن پاک کا نسخہ انگریزی زبان کا اہم ترین ترجمہ مانا جارہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ ترجمہ ایسی خواتین نے کیا ہے جو تصنیف و تالیف اور ترجمے کی دنیا میں مشہور نہیں۔ کیلیفورنیا میں جنم لینے والی ”امیلی نامی لڑکی نے ساتویں عشرے میں عربی زبان سیکھنی شروع کی تھی پھر وہ اپنے شوہر کے ہمراہ شام منتقل ہوگئی تھی اس وقت تک وہ لادین تھی اسے قرآن پاک کے معانی نے اپنی جانب مائل کیا۔ دمشق یونیورسٹی میں عربی زبان کی تعلیم جاری رکھی اور بالاخر دین اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئی۔ سعودی عرب آگئی اور یہاں آکر اپنا اسلامی نام” آمنہ“ رکھا اور ”ام محمد “ کے نام سے مشہور ہوئی۔ امریکی جریدے دی ڈیلی بیسٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ امیلی لادین ہونے کے باوجود سچائی کی متلاشی تھی۔ اسکے دل میں اسلام کو سمجھنے اور پھر نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت جاننے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس نے مغربی دنیا کے اسلام دشمن مصنفین کے اعتراضات کی حقیقت جاننے کیلئے عربی زبان سیکھی۔ متعدد کوششوں کے بعد قرآن پاک کا نسخہ حاصل کرنے اور سیرت طیبہ کے مطالعے میں کامیاب ہوگئی۔امیلی نے قرآن پاک و سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا تو سمجھ میں آیا کہ اسلام میں جو کچھ ہے عقل کے عین مطابق ہے۔ اسکے برعکس دشمنان اسلام نے جو کچھ تحریر کیا ہے وہ حقیقت کے منافی ہے۔امیلی کی سہیلی ”میری “ فلوریڈا میں پیدا ہوئی۔ وہ انگریزی پڑھ رہی تھی۔ قدامت پسند عیسائی خاندان سے اسکا تعلق تھا۔ اسے نت نئی دنیاﺅں کی دریافت کا شوق تھا۔ اسے احساس تھا کہ وہ ایسی خاتون ہے جس میں کوئی نہ کوئی کمی ہے اس نے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ شروع کردیا۔ پڑھ کر سکون محسوس ہوا۔ اسکا بھائی مسلمان ہوا تو اسے اسلام میں مزید دلچسپی پیداہوئی۔بالاخر اسلام کا مطالعہ کرکے اسکی حقانیت کی قائل ہوگئی۔ وہ بھی ان دنوں سعودی عرب میں مقیم ہے۔ تیسری سہیلی کیتھولک تھی۔ وہ ان دنوں امتہ اللہ کے نام سے مشہور ہے۔ وہ ہمیشہ بے چین رہتی۔ کوئی بھی غلطی کرتی تو شرمندگی محسوس کرتی۔ مسلم طلباءسے ملاقات ہوئی تو مذاہب پر مباحثہ شروع ہوگیا۔ وہ مسلم خواتین کو مظلوم سمجھتی۔ اسلام کا مطالعہ کیا تو دین حق میں خواتین کے حقوق اور اسکی حیثیت جان کر1986ءمیں حلقہ بگوش اسلام ہوگئی اور اگلے سال سعودی عرب منتقل ہوگئی۔1989ءمیں امتہ اللہ سے اسکی ایک سہیلی نے اپنے متوفی خاوند کے قلمی نسخے ایک ناشر کو پیش کرنے کی درخواست کی۔ امتہ اللہ نے اس موقع پر اپنی سہیلی کو متعدد تجاویز پیش کیں اور یہیں سے تینوں سہیلیوں نے انگریزی میں قرآن پاک کے دقیق ترین ترجمے کا پروگرام بنایا جو صحیح انٹرنیشنل کے نام سے معروف ہوا۔

شیئر: