Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: آزادی بھیک میں ملی تھی

حبیب گنج ریلوے سٹیشن نظر نہ آئے تو زیادہ پریشان مت ہوئیے گا۔ (فوٹو: انڈین ایکسپریس)
جو لوگ تاریخ کے چکر میں پڑتے ہیں، وہ اسی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس چکر میں پڑا ہی نہ جائے۔ جو ہو گیا سو ہوگیا۔
مثال کے طور پر اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ 75 سال پہلے انگریز حکمرانوں سے آزادی چھینی گئی تھی یا انہوں نے بھیک میں دی تھی۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ اب ملک پوری طرح سے آزاد ہے۔
لیکن اگر آپ کو تاریخِ پڑھنے کا شوق ہو تو فلم سٹار کنگنا رناؤت سے ضرور رابطہ کیجیے گا۔ وہ مورخین کی ’کوئین‘ ہیں اور انہیں بظاہر ان کی شاندار اداکاری کے لیے چند ہی روز قبل انڈیا کے ایک بڑے شہری اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
تاہم یہ اعزاز انہیں تاریخ پر ان کی غیر معمولی گرفت کے لیے بھی دیا جا سکتا تھا۔ ان کی ریسرچ کے مطابق 1947 میں انڈیا کو آزادی بھیک میں ملی تھی، لیکن ملک صحیح معنوں میں 2014 میں آزاد ہوا۔ ہم نے بھی کافی رسرچ کی کہ آخر اس سال کیا ہوا تھا تو معلوم ہوا کہ نریندر مودی وزیراعظم بنے تھے۔
پھر تھوڑا کنفیوژن ہوا کہ ایوارڈ ادارکاری کے لیے دیا گیا ہے، تاریخ کے لیے یا پھر۔۔۔
خیر چھوڑیے، جو کل تھا وہ آج نہیں ہے اور جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا۔ بس زندگی کی صرف ایک سچائی ہے اور وہ یہ کہ وقت بدلتا رہتا ہے اور اس کے ساتھ نام بھی۔ کنگنا رناؤت سے بہت پہلے کانگریس کے ایک لیڈر نے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے لیے کہا تھا کہ انڈیا از اندرا اینڈ اندرا از انڈیا۔
اب اس کا کیا ترجمہ کریں، بس اسے چاپلوسی کی عظیم ترین مثال سمجھیے۔
لیکن نام بدلنا آجکل فیشن میں ہے۔ اور اس کا سیاسی فائدہ بھی ہوتا ہے یا کم سے کم کچھ لوگوں کوایسا لگتا ہے۔ وہ جدھر سے گزرتے ہیں دو چار نام بدل دیتے ہیں۔
اس لیے آپ اگر بھوپال سے گزر رہے ہوں اور شہر کا حبیب گنج ریلوے سٹیشن نظر نہ آئے تو زیادہ پریشان مت ہوئیے گا، ریلوے سٹیشن وہیں موجود ہے جہاں پہلے ہوا کرتا تھا، بس اب اسے ایک مقامی قبائلی رانی کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے جو کبھی بھوپال پر راج کیا کرتی تھیں۔

حبیب گنج ریلوے سٹیشن ایک مقامی قبائلی رانی کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ (فوٹو: انڈیا ٹائمز)

بس اسے بھی یوں سمجھیے کہ جیسے آزادی کی طرح پہلے بھی سٹیشن تھا تو لیکن اس میں وہ مزے داری نہیں تھی جو ہونی چاہیے، اب اصل معنوں میں حقیقتاً سٹیشن ہے۔ اور ہاں اس کا افتتاح بھی وزیراعظم نے ہی کیا ہے۔
رانی کملاپتی کا تعلق گونڈ قبیلے سے تھا اور اس قبیلے کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہ سٹیشن کا نام بدل کر گونڈ قبیلے کو ایک پیغام دے رہی ہے کہ ہم بھولے نہیں ہیں۔
بات یہ ہے کہ بھولتا کوئی نہیں ہے۔ نا نئے نام والے اور نہ پرانے نام والے۔ اور آج کل اتنا معصوم بھی کوئی نہیں ہوتا کہ سٹیشن کا نام بدلے جانے کی وجہ سے اپنی سیاسی وفاداری بدل لے۔
آپ کا تعلق کسی بھی قبیلے یا مذہب سے ہو، سفر کرنے کے لیے ٹکٹ تو خریدنا ہی پڑے گا۔ اور ویسے بھی انڈیا کی ٹرینوں میں ریزرویشن ملنا کوئی لاٹری لگ جانے یا نوکری مل جانے سےکم نہیں ہے۔
نوکریوں کی بات آئی تو لوگ یہ بھی پوچھیں گے کہ بھائی آپ نے ہماری رانی کے نام پر ریلوے سٹیشن کا نام تو رکھ دیا، اب ہمارے حالات زندگی بھی کچھ ایسے کر دیجیے کہ ہم ٹرین سے سفر کر پائیں۔ اس لیے اچھا ہوگا کہ اگلی بار صرف نام بدلنے کے بجائے نیا انفراسٹرکچر تعمیر کرادیںایک آدھ ہسپتال، ایک دو سکول کالج، اگر ہمارے بچوں کو اچھی تعلیم مل جائے اور حفظان صحت کا نظام ایسا ہو کہ علاج کرانے کے لیے ہمیں گھر بار نہ بیچنا پڑے تو ہم آپ کو ووٹ بھی دیں گے اور دعائیں بھی۔
لیکن یہ ذمہ داری ووٹروں کی ہی ہوتی ہے کہ وہ حکومتوں تک اپنا پیغام واضح طور پر پہنچا دیں کہ اگر آپ صرف نام بدل کر کام چلائیں گے تو ہم بھی آپ کا نام حکومت سے بدل کر حزب اختلاف کردیں گے۔

محمد علی جناح کا ذکر سنائی دے تو فوراً سمجھ جائیے گا کہ الیکشن دور نہیں ہوسکتے۔ (فوٹو: آکسفورڈ یونیورسٹی)

ایک اور نام آج کل کافی ذکر میں ہے۔ انہیں انڈیا میں اکثر الیکشن کے آس پاس ہی یاد کیا جاتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کو سیاست کی زیادہ سمجھ نہ بھی ہو لیکن محمد علی جناح کا ذکر سنائی دے تو فوراً سمجھ جائیے گا کہ الیکشن دور نہیں ہوسکتے۔
انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں الیکشن ہونے والے ہیں اور وہاں حکمراں بی جے پی کے جلسوں میں جناح کو بہت یاد کیا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ شروعات سماج وادی پارٹی کے سابق وزیراعلی اکھیلیش یادو نے کی تھی۔
انہوں نے جناح کا نام ان سرکردہ سیاسی رہنماؤں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا جن کے سر ملک کو آزادی دلانے کا سہرا باندھا جاتا ہےمہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل۔
جواب میں یو پی کے موجودہ وزیراعلی نے کہا کہ جو لوگ محمد علی جناح کی حمایت کرتے ہیں، وہ ایک طرح سے طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔
‘قومی ہیرو پٹیل ایک طرف ہیں اور ملک کو تقسیم کرانے والے جناح دوسری طرف۔ یہ لوگ جناح کی تعریف کرتے ہیں۔ کیا آپ ان لوگوں کی حمایت کریں گے جو جناح کی حمایت کرتے ہیں؟
کہنا مشکل ہے۔ سچ یہ ہے کہ ووٹر زیادہ پرانی باتیں یاد نہیں رکھتے۔ اور جب وہ بھول جاتے ہیں تو کنگنا رناؤت جیسے باصلاحیت فنکار ان کی یاد تازہ کراتے ہیں۔ انہیں نئی تاریخ پڑھاتے ہیں اور ہم میں سے بہت سے لوگ خوشی سے یہ سبق حفظ کر لیتے ہیں۔ مارل آف دی سٹوری یہ ہے کہ وقت اور ناموں کے ساتھ تاریخ بھی بدلتی ہے۔
بس جس دور میں ہم رہتے ہیں اس کا یہ ہی المیہ ہے۔

شیئر: