Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرو سپیس انجینیئرنگ میں داخلے کے لیے سعودی سکالرشپ پروگرام

فروری 2019 میں مملکت نے پہلا مواصلاتی سیٹلائٹ لانچ کیا تھا۔ (فوٹو عرب نیوز)
نصف صدی سے قبل چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے نیل آرمسٹرانگ اور بز ایلڈرین پہلے انسان تھے۔
اس تاریخی سنگ میل کے بعد سے عالمی حکومتوں، سائنس دانوں اور اب کاروباری افراد نے اپنی نظریں دور دراز خلائی اہداف پر مرکوز کر رکھی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق بلیو اوریجن اور ایلون مسک کے مریخ پر قیام کے خواب کے ساتھ خلائی سیاحت میں جیف بیزوس سے لے کر ناسا کے جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ اور یو اے ای کے ہوپ مشن سمیت سب عملی اقدامات کی جانب رواں ہیں۔
20 جولائی 1969 کو اپالو کے خلابازوں کی چاند پر چہل قدمی کی خبروں کے کئی دہائیوں بعد اب پھر وسیع تر اعلیٰ ٹیکنالوجیز اور سائنس و انجینiئرنگ کی عالمی صلاحیتوں کے ساتھ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں اور امیر ترین افراد کی قیادت میں ایک نئی خلائی دوڑ جاری ہے۔
اس نئی عالمی خلائی دوڑ میں اب سعودی خلائی کمیشن  بھی شامل ہے۔ تین برس قبل شروع کئے گئے اس مشن کا مقصد تحقیق کے عمل اور ترقی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ عالمی خلائی صنعت میں نجی شعبے کی شمولیت کو بڑھانا ہے۔
دسمبر 2018 میں اس مشن کے آغاز  کے بعد خلائی پروگرام نے مزید تعاون کے لیے یورپی خلائی ایجنسی، برطانیہ، فرانس اور ہنگری کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔
انٹرنیشنل اسٹروناٹیکل فیڈریشن میں شمولیت اختیار کر کے سعودی طلبہ کو خلائی سائنس اور ایروسپیس انجینئرنگ کے کورسز کرانے والی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے سکالرشپ پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔

مملکت کا سیٹلائٹ کمیونیکیشن کمپنی عرب سیٹ میں بھی کلیدی کردار رہا۔ (فوٹو: عرب نیوز)

مملکت میں خلائی کمیشن کا قیام زیادہ قدیم نہیں تاہم سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں شمولیت کی طویل تاریخ موجود ہے جو کہ کنگ عبدالعزیز سٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے منسلک ہے۔
سعودی عرب نے 1985 میں پہلا سیٹلائٹ لانچ کرنے والی سیٹلائٹ کمیونیکیشن کمپنی عرب سیٹ میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے سابق کمانڈر اور سابق کینڈین خلا نورد کرنل کرس ہیڈ فیلڈ  نے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ بہت اہم بات ہے کہ ’مملکت اپنا آغاز بالکل شروع سے نہیں کر رہی۔‘
کرنل کرس ہیڈ فیلڈ اپنے انتہائی مقبول خلائی  ویڈیو کے باعث بھی مشہور ہیں جس میں انہوں نے  زیرو گریویٹی پر گٹار بجایا ہے۔
ان کے ایوارڈز میں ناسا کے غیرمعمولی سروس میڈل شامل ہیں۔ انہیں یو ایس ایئر فورس اور یو ایس نیوی دونوں میں ٹاپ ٹیسٹ پائیلٹ بھی نامزد کیا گیا اور وہ کینیڈا کے ایوی ایشن ہال آف فیم میں شامل رہے۔
ہیڈ فیلڈ نے تین خلائی مشن اڑائے، دو خلائی سٹیشن بنائے اور وہ دو مرتبہ خلا میں چہل قدمی کر چکے ہیں۔

دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی قیادت میں نئی خلائی دوڑ جاری ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

کرنل کرس ہیڈ فیلڈ کا خیال ہے کہ اب سعودی خلائی تحقیقی ادارے کو  مستقبل کے لیے اپنے اہداف کو واضح طور پر بیان کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’خلائی ایجنسی جو کچھ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس کا واضح مقصد ہونا ہے جو مختصر اور طویل مدت میں سعودی عوام کی خدمت کے عین مطابق ہو۔‘
سعودی عرب نے اس شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور اس نے پہلے ہی کئی کامیابیاں اپنے نام کی ہیں۔
فروری 2019 میں سعودی عرب نے مقامی طور پر تیار کردہ اپنا پہلا مواصلاتی سیٹلائٹ ایس جی ایس ایس ون گیانا سپیس سینٹر سے لانچ کیا۔
2020 میں سعودی عرب نے اپنے وژن 2030 کے حصے کے طور پر خلائی پروگرام میں2.1 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔
 
 

شیئر: