Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خانیوال میں ہجوم کے تشدد سے شہری کی ہلاکت: اب تک 15 مرکزی ملزمان گرفتار

وزیراعظم عمران خان نے پنجاب پولیس کے سربراہ سے خانیوال واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے ایک شخص کی ہلاکت کے واقعے کے بعد پولیس نے 15 مرکزی ملزمان کی شناخت کر کے گرفتار کر لیا ہے۔
پنجاب پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ کی اتوار کو جاری پریس ریلیز کے مطابق ’ان گرفتار ملزمان کو اینٹوں اور ڈنڈوں سے شہری اسلم پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔‘
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق ’پولیس نے ابھی تک کل 85 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جن میں مرکزی ملزمان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے مزید ملزمان کی گرفتاری اور شناخت کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

’ہجوم کے تشدد سے سختی سے نمٹا جائے گا‘

اس واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہجوم کے تشدد اور قانون ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
اتوار کو وزیراعطم عمران خان نے ٹوئٹر بیان میں کہا ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میاں چنوں میں واقعے کے ذمہ داروں اور فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتتنے والے اہلکاروں کے خلاف پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔
میاں چنوں میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے تشدد کر کے ایک شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔

اصل واقعہ کیا تھا؟

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اتوار کو پاکستان کی مقامی میڈیا نے کہا ہے کہ یہ واقعہ جنگل ڈیرہ کے گاؤں میں پیش آیا جہاں اعلانات کے بعد سیکنڑوں مقامی افراد مغرب کی نماز کے بعد جمع ہوئے۔
مقامی افراد نے پہلے اس شخص کو درخت سے لٹکایا اور پھر اس کو اینٹوں اور پتھروں سے مارتے رہے جب تک وہ ہلاک نہیں ہوا۔‘
انسپکٹر جنرل پولیس راؤ سردار علی خان نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ابتدائی رپورٹ پیش کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق واقعے میں 33 افراد کو نامزد جبکہ 300 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
پولیس نے مختلف مقامات پر 120 سے زائد چھاپے مارے اور 62 مشتبہ افراد کو زیر حراست لیا۔
زیر حراست مشبہ افراد میں قانون ہاتھ میں لینے والے مرکزی ملزمان بھی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے واقعہ پر اپنے ردعمل میں کہا کہ معاشرے سے انتہاپسندی کا خاتمہ قومی مقصد ہونا چاہیے۔ موجودہ صورتحال کو باقی نہیں رکھا جا سکتا۔

پاکستان کے وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ انہوں نے بارہا نظام تعلیم میں تباہ کن شدت پسندی کی طرف توجہ دلائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ اور میاں چنوں جیسے واقعات عشروں سے نظام تعلیم کا حصہ ہیں۔
’یہ مسئلہ قانون کے نفاذ کا بھی ہے اور سماج کی تنزلی کا بھی، سکول، تھانہ اور منبر اگر ان تین کی اصلاح نہ ہوئی تو بڑی تباہی کے لیے تیار رہیں۔‘

تشدد میں ملوث کسی شخص کو معاف نہیں کریں گے

وزیراعظم کے مشیر برائے مذہبی امور طاہر اشرفی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تشدد میں ملوث کسی شخص کو معاف نہیں کریں گے۔ ملزمان کو سزائیں ملیں گی۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین علما کونسل کی حیثیت سے سپریم کورٹ سے اپیل کرتا ہوں کہ توہین مذہب کے کیسز کی جلد سماعت کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اس کے لیے پولیس اور عدالتیں موجود ہیں۔
یہ واقعہ دسمبر میں سیالکوٹ میں فیکٹری کے ورکروں کی جانب سے ایک سری لنکن شہری پر تشدد اور پھر اس کو جلانے کے واقعے کے بعد سامنے آیا ہے۔
پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے واقعہ پر اپنے ردعمل میں تشویش کا اظہار کیا۔

اپنے مذمتی پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ اس رویے کو صرف امن و امان کے مسئلہ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے یہ اس سے بہت آگے کی بات ہے۔

شیئر: