Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گورنر راج کیا ہوتا ہے اور ماضی میں کب اور کس صوبے میں لگایا گیا؟

وزیراعظم عمران خان نے ابھی تک صدر کو سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی سفارش نہیں کی (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے وزیراعظم عمران خان کو سندھ میں گورنر راج لگانے کی تجویز دی ہے جس پر سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے علاوہ اپوزیشن اور وکلا تنظمیوں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔
شیخ رشید نے جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تھا کہ ’عمران خان کو تجویز دی ہے کہ سندھ حکومت نے جو خریدوفروخت شروع کررکھی کی ہے اس پر ہمیں سندھ میں گورنر راج نافذ کردینا چاہیے، یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔‘
شیخ رشید احمد کے مطابق ان کی اس تجویز پر عمل کرنا یا نہ کرنا وزیراعظم کا کام ہے۔ ان کی تجویز پر پیپلز پارٹی کے علاوہ اپوزیشن اور پاکستان بار کونسل کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ ’وہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے حق میں نہیں۔‘
گورنر راج کیا ہے اور آئین میں گورنر راج کے نفاز کا کیا طریقہ کار ہے؟
گورنر راج دراصل کسی صوبے کا نظام حکومت براہ راست وفاقی حکومت کے سپرد کرنے کا نام ہے۔ یاد رہے کہ صوبائی گورنر وفاقی حکومت کے نمائندے ہوتے ہیں جنہیں وزیراعظم کی ہدایت پر صدر مملکت براہ راست تعینات کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت صوبہ سندھ میں اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر وہاں پی ٹی آئی کے عمران اسماعیل گورنر ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 32، 33 اور 34 میں گورنر راج کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے۔ گورنر راج کے دوران بنیادی انسانی حقوق بھی معطل کر دیے جاتے ہیں اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات قومی اسمبلی اور سینیٹ کو تفویض کردیے جاتے ہیں۔
کسی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کردیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کے لیے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کے لیے گورنر راج نافذ کرے۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے وزیراعظم کو سندھ میں گورنر راج لگانے کی تجویز دی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آئین کی شق 232 کے مطابق اگر ملک کی سلامتی اگر جنگ یا کسی اندرونی اور بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اور اس کا سامنا صوبائی حکومت نہ کرسکتی ہو تو صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں۔
تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ متعلقہ اسمبلی اس کی سادہ اکثریت سے قرارداد کے ذریعے منظوری دے۔ اگر متعلقہ اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر دس دن کے اندر اس کی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔
گویا اس شق کے بعد سندھ میں گورنر راج لگانا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے جو اس کے خلاف ہے۔ اس طرح قومی اسمبلی میں منحرف اراکین اور سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باعث اس کی منظوری ممکن نہیں.
ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جائے گی۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔

گورنر راج کی متعلقہ اسمبلی سے سادہ اکثریت سے قرارداد کے ذریعے منظوری ضروری ہے (فائل فوٹو: سندھ اسمبلی)

ماضی میں کب کب گورنر راج نافذ ہوا؟
ماضی میں اس بات کی مثالیں موجود ہیں کہ پاکستان کے کئی صوبوں میں گورنر راج نافذ کیے گئے۔ خود وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق صوبہ سندھ میں آج تک تین گورنر راج لگ چکے ہیں۔
حال ہی میں 25 فروری 2009 کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 237 کے تحت صدر آصف علی زرداری نے شہباز شریف کی حکومت کے خلاف دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ کیا تھا۔
اس کے بعد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی تاہم مسلم لیگ ن کے لانگ مارچ اور ججز کی بحالی کے بعد گورنر راج ختم کردیا گیا تھا۔
اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعلٰی کے عہدے سے شہباز شریف کی نااہلی کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے بچنے کے لیے صدر نے گورنر راج نافذ کرکے اختیارات گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو سونپے تھے۔

 سنہ 2009 میں وزیراعظم گیلانی کی سفارش پر صدر زرداری نے شہباز شریف حکومت کے خلاف گورنر راج نافذ کیا تھا (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اس کے بعد جنوری 2013 میں بھی کوئٹہ میں خودکش اور کار بم دھماکے میں 90 سے زائد افراد کی ہلاکت کے پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے چچا چوہدری الطاف حسین نے بھی بطور گورنر پنجاب 1993 کی سیاسی کشیدگی کے دوران بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے صوبے میں کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کو صدر غلام اسحق خان کے ساتھ مل کر انتظامی اقدامات کے ذریعے ناکام بنایا تھا۔ انہیں بے نظیر بھٹو نے 1994 میں اپنی حکومت آنے کے بعد دوبارہ بھی گورنر بنایا تھا۔
سینیئر صحافی حامد میر کے مطابق پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف گورنر راج کے نفاذ کے بعد آئین میں ترمیم کی گئی تھی اور آرٹیکل 232 کے تحت اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافد نہ ہو۔

موجودہ حالات میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے گورنر راج کے نفاذ کی منظوری ممکن نہیں (فائل فوٹو: سینیٹ)

حامد میر کے مطابق 70 کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے تو پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کردی تھی جسے ناکام بنانے کے لیےگورنر مصطفی کھر کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے۔
بطور گورنر ان کا دور سب سے زیادہ مشہور ہوا تھا ۔ گورنر مصطفیٰ کھر نے پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ذریعے تھانوں اور ٹریفک کا انتظام چلانا شروع کردیا تھا اور بعد میں فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بھی تشکیل دی گئی جس کے ذریعے وفاق صوبوں میں براہ راست انتظامی امور میں مداخلت کرسکتا تھا۔  

شیئر: