Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنیل دت کی جہلم میں اپنے آبائی گھر سے محبت، ’تو نہیں سمجھے گا پُتر‘

سنیل دت 2004 اور 2005 میں کھیلوں کے وزیر رہ چکے ہیں۔ (فوٹو:اے ایف پی)
پنجابی کے معروف کہانی کار نادر علی 1980 میں انڈیا گئے تو انہیں اہلیہ کے ہمراہ سنجے دت کی پہلی فلم ’راکی‘ کی شوٹنگ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم کے ڈائریکٹر سنجے دت کے والد اور نامور اداکار سنیل دت تھے۔ پاکستانی مہمانوں نے شوٹنگ کے دوران باپ کے ہاتھوں بیٹے کی کنچھائی کا منظر بھی دیکھا۔ نادر علی کے لفظوں میں ’کالے کپڑے پا کے اک کانگڑی جیہا سنجے دت پیو دیاں جھڑکاں تھاپڑے سہہ رہیا سی (کالے کپڑے پہنے دبلا سا سنجے دت باپ کی جھڑکیاں اور ڈانٹ ڈپٹ سہہ رہا تھا)‘
بریک ہوئی تو سنیل دت، نادر علی کے پاس آئے اور پوچھا کہ وہ پاکستان سے آئے ہیں؟ اس کا اندازہ انہیں رضیہ نادر کے لباس سے ہوا کہ اس زمانے میں پاکستانی پنجاب کے لوگ جو شلوار پہنتے تھے وہ خوب کھلی ہوتی تھی، جبکہ بمبئی میں بہت تنگ شلوار کا رواج تھا۔
سنیل دت نے نادر علی سے معلوم کیا کہ وہ پاکستان میں کہاں سے آئے ہیں؟ ان کے علم میں جب یہ آیا کہ وہ گجرات سے ہیں تو فوراً پوچھاگجراتوں کتھوں؟ (گجرات میں کہاں سے؟)
نادر علی بولے: میں کیہا کدے کنجاہ سنیا جے؟ (میں نے کہا کہ کبھی کنجاہ کا نام سنا ہے؟)
یہ سن کر سنیل دت کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
بولے: ’میرا نانکا پنڈ اے! اوئے رنجیتے رنجیتے (اداکار رنجیت) لیا اوئے کوئی وہسکی شسکی میرے نانکے پنڈوں پروہنے آئے نیں! ( میرے ننھیال کا گاؤں ہے! اوئے رنجیتے رنجیتے کوئی وسکی شسکی لاؤ میرے ننھیالی گاؤں سے مہمان آئے ہیں۔)‘
نادر علی نے اس تپاک پر شکریہ ادا کیا اور دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے گھر آنا چاہتے ہیں جس کی وجہ بھی صاف صاف بتائی: ’میڈم (نرگس) دے فین آں
سنیل دت نے کہا کہ وہ دس بجے ان کا انتظار کریں گی۔ بتایا کہ وہ خود آؤٹ ڈور شوٹنگ پر ہوں گے۔ رنجیت سے کہا کہ ’وہ مہمانوں کا پتا جان لے کہ صبح کار انہیں لینے جا سکے۔‘

نرگس اور سنیل دت کی شادی 1958 میں ہوئی۔ (فائل فوٹو)

نادر علی اپنی اہلیہ کے ساتھ نرگس سے ملنے گئے تو وہ اس عمر میں بھی کہ بال سفید ہو چکے تھے انہیں وہی معشوق لگی جو کروڑوں دلوں پر راج کرتی تھی۔
 نادر علی نے نرگس سے کہا: ’1945 میں ’ہمایوں‘ دیکھ کر عاشق ہوا تھا۔ یاد ہے آپ کو وہ گانا؟ ’رسمِ الفت کسی صورت سے نبھائے نہ بنے!‘
اس پر نرگس نے کہا کہ ’اب آپ جیسے چٹ سِرے بڈھے عاشق ہی ملیں گے!‘
 اس ملاقات میں نرگس نے مہمانوں  کو بتایاابھی ابھی اندرا جی  کا فون آیا ہے، مجھے راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا ہے۔ میں نے کہا مجھے سیاست سے کیا؟‘
  کہنے لگیں: ’ایکٹنگ ہی کرنی ہوتی ہے۔ تم مجھ سے بہتر ایکٹرس ہو۔
 نادر علی کی اہلیہ نے ان سے بچوں کا حال پوچھا تو بڑی اپنائیت سے جواب دیا اور بتایا: ’سنجو(سنجے دت) کے بچپن کی آٹھ آٹھ ایم ایم کی فلمیں ہیں میں ابھی بیٹھی دیکھ رہی تھی۔‘
نرگس نے مہمانوں کی بہت ٹہل سیوا کی۔ ان  کے ساتھ دونوں میاں بیوی نے تصویر بھی بنوائی۔ نرگس کے  بھائی انور حسین اور دونوں بیٹیوں سے بھی ملاقات ہوئی۔

 نادر علی نے نرگس سے کہا: ’1945 میں ’ہمایوں‘ دیکھ کر عاشق ہوا تھا۔‘

نادر علی نے لکھا کہ نرگس نے سب اداسیاں مٹا ڈالیں۔ وہ بہت بڑے دل والی بڑی ہستی تھی جس کو اسی برس کینسر ہوا اور اسی سال وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں (نادر علی کے مطابق، ان کی ملاقات 13 یا 14 اپریل 1980 میں ہوئی۔ نرگس کا انتقال مئی 1981 میں ہوا) بنگلور سے واپس آکر سنیل دت نے رنجیت کو مہمانوں کو بمبئی کی سیر کروانے کی ہدایت بھی کی۔
نادر علی نے لکھا: ’دل خوش کر دتا سنیل دت ہوراں
سنیل دت کا حسنِ اخلاق اور نرگس سے ملاقات کی یاد ہمیشہ نادر علی کے ساتھ رہی اور اس کا ذکر انہوں نے ہڈ ورتی ’بالپن دا شہر‘ میں بڑی محبت سے کیا ہے، جو پنجابی کے معروف جریدے ’پنچم ‘ کے نادر علی نمبر میں شائع ہوئی ہے۔
سنیل دت کی ننھیالی گاؤں سے دلی وابستگی کا احوال تو آپ نے جان لیا اب ذرا ضلع جہلم میں واقع ان کے آبائی گاؤں خورد کا ذکر ہو جائے جس کی یاد ان کے دل و دماغ پر ہمیشہ مرتسم رہی، انہیں تڑپاتی رہی۔ 

اس گاؤں سے وابستہ یادوں میں وہ نرگس کو بھی شریک کرتے۔ میاں کی زبانی اس خطۂ زمیں کا ذکر سن سن کر انہیں بھی اسے دیکھنے کا اشتیاق ہوا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔
سنیل دت کے اپنی جنم بھومی دیکھنے کی دیرینہ خواہش 1998 میں پوری ہوئی جس کے لیے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے ذاتی دلچسپی لی۔ خورد جانا ان کے لیے ایک جذباتی و روحانی تجربہ تھا۔ اس سرزمین پر قدم رکھتے وقت اپنے محسوسات کو انہوں نے ناقابلِ بیان قرار دیا۔ شاندار سواگت نے انہیں نہال کر دیا۔ 
1947 میں جب انہوں نے گاؤں چھوڑا تو وہ ایک عام سے نوجوان تھے لیکن اب جو 51 برس بعد پلٹے تو نہ صرف یہ کہ خود ایک معروف آدمی بلکہ نرگس جیسی ممتاز فلمی ہیروئین کے شوہر اور نامور اداکار سنجے دت کے والد بھی تھے۔

سنیل دت کے اپنی جنم بھومی دیکھنے کی دیرینہ خواہش 1998 میں پوری ہوئی۔ (فوٹو: پریتی چوہدری)

ایں خانہ ہمہ آفتاب است

شناخت کے یہ سارے حوالے اپنی جگہ معتبر سہی لیکن گاؤں والوں کی ان سے محبت خورد کا باسی ہونے کے باعث تھی۔ انہوں نے دیدہ و دل فرش راہ کر دیا۔
سنیل دت کا خیال تھا کہ لوگ انہیں اور ان کے خاندان کو فراموش کرچکے ہوں گے لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلا۔ بچپن کے بہت سے ہمجولی ملے، خاندان کے واقف کار بزرگ ملے، جن کے ساتھ انہوں نے پرکھوں کی یادیں تازہ کیں۔ سنیل دت کا اصل نام بلراج دت تھا اور نک نیم بجیا۔ ایک بزرگ خاتون نے جب انہیں بجیا کہہ کر پکارا تو انہیں بہت اچھا لگا۔
سنیل دت نے گاؤں کے ڈی اے وی سکول سے تعلیم حاصل کی۔ ہجرت سے پہلے وہ میٹرک کرچکے تھے۔ ان کی عمر پانچ برس اور چھوٹا بھائی سوم ابھی شیر خوار تھا کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کے بعد تایا نے باپ بن کر پالا۔ زمیندار گھرانے سے تھے اس لیے گھر میں لہر بہر تھی۔
معروف تاریخ دان ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب The Punjab Bloodied, Partitioned and Cleansedمیں مشرقی اور مغربی پنجاب کے مہاجرین کی دکھ بھری کہانیاں اکٹھی کی ہیں جس سے اس المیے کو سمجھا جاسکتا ہے جس نے پنجاب کی تقسیم سے جنم لیا۔
ان میں ایک کہانی سنیل دت کی زبانی بھی ہے۔ اس میں ان کے والد کے ایک مسلمان دوست یعقوب کا ذکر ہے جس نے اس پُرآشوب دور میں ان کے خاندان کا ساتھ دیا اور وہ لوگ جو ان کے تایا کی جان کے لاگو تھے ان سے تحفظ فراہم کیا اور انہیں جہلم کے پناہ گزین کیمپ میں اپنے خاندان کے پاس پہنچنے کے لیے گھوڑا بھی دیا۔ اس وقت ان کے پاس سنیل دت کی والدہ کے زیورات بھی تھے۔ دو دن بعد یعقوب نے کیمپ میں جاکر ان کی خیر خبر بھی لی۔

والدین کی طرح سنجے دتکا شمار بھی بالی وڈ کے نامور اداکاروں میں ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مہذب اور شائستہ آدمی اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتا۔ سنیل دت نے بھی اپنے خاندان کے کرم فرما یعقوب کو ہمیشہ یاد رکھا۔ ان کا ذکر بڑی محبت سے کیا۔ پاکستان آئے تو بھی اس انسان دوست انسان کو نہیں بھولے۔ اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنے نواں کوٹ گئے۔ اس مہربان ہستی کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کا خاندان بھی گاؤں چھوڑ کر کہیں اور جا بسا تھا۔ سنیل دت نے گاؤں کے لوگوں سے یعقوب کا ذکر خیر کیا تو انہوں نے یقین دلایا کہ وہ مرحوم کے بچوں تک ان کے جذبات پہنچائیں گے۔
سنیل دت کی اپنے گاؤں سے محبت کے بارے میں کئی قصے ہیں۔ حال ہی میں ایک قصہ ڈاکٹر شاہد صدیقی کی لائقِ مطالعہ کتاب ’پوٹھو ہار: خطۂ دل ربا‘ میں شامل مضمون ’سنیل دت، جہلم اور بمبئی‘ میں پڑھنے کو ملا جس میں وہ نرگس کی موت کے بعد تنہا اور اداس سنیل دت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’سنیل دت اکثر شام کو جھولنے والی کرسی پر بیٹھ جاتا اور گئے دنوں کو یاد کرتا۔ آج شام بھی ایسا ہی ہوا تھا، کرسی پر بیٹھے بیٹھے چشمِ تصور میں وہ سرحد پار چلا گیا تھا جہاں اس کا گاؤں تھا۔ وہ ماضی کو یاد کرتا تو سنیل دت سے بلراج دت بن جاتا۔ جو اس کا اصل نام تھا۔ آج شدت سے بلراج کو اپنا گاؤں یاد آرہا تھا۔ اس کا آسمان، اس کے پرندے، اس کے درخت، اس کے باشندے۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور وہ حال کی دنیا میں آگیا۔ اس نے دیوار گیر کلاک پر وقت دیکھا۔ رات کے دو بج رہے تھے، دروازہ کھلا اور اس کا اداکار بیٹا سنجے دت اندر آیا۔ سنجے نے دیکھا رات کے دو بجے اس کا والد جاگ رہا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ سنجے نے وجہ پوچھی تو اس کا والد سسک اٹھا اس نے پنجابی میں سنجے کہا ’پتر مینوں گھر یاد آرہیا اے ( بیٹا مجھے گھر یاد آرہا ہے ) سنجے نے حیران ہو کر کہا: پر آپ تو اپنے گھر میں بیٹھے ہیں۔ بلراج سر جھٹک کر بولا: اور نہیں پتر اے میرا گھر نہیں اے، میرا گھر تے پاکستان وچ اے‘ ( نہیں بیٹا یہ میرا گھر نہیں ہے میرا گھر تو پاکستان میں ہے) سنجے کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر بلراج نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا: ’پر تو نہیں سمجھے گا پتر ( لیکن تم نہیں سمجھو گے بیٹا۔‘

شیئر: