Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیصل واوڈا کیس: نواز شریف کی تاحیات نااہلی بھی ختم ہو سکتی ہے؟

حامد خان سمجھتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے نواز شریف کو ریلیف مل سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق سینیٹر فیصل واوڈا کے خلاف الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر انہیں آئندہ انتخابات کے لیے اہل قرار دے دیا ہے۔
جمعے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے  تحریک انصاف کے سابق سینیٹر فیصل واوڈا کو غلطی تسلیم کر کے سینیٹ سے فوری مستعفی ہونے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔
فیصلے کے مطابق فیصل واوڈا کو 63 ون سی کے تحت صرف موجودہ مدت کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔
فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کو صرف پانچ سالہ نااہلی سے بدلنے کے فیصلے سے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو بھی ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
اس ضمن میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہے جس میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ عدالت نااہلی سے متعلق دیے گئے فیصلوں کا جائزہ لے۔
رواں سال فروری میں الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو 2018 کے عام انتخابات میں دوہری شہریت کے معاملے پر جھوٹا حلف نامہ جمع کروانے پر نااہل قرار دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63 ون سی کا بھی حوالہ دیا تھا جو دوہری شہریت سے متعلق ہے۔

فیصلے کے مطابق فیصل واوڈا کو 63 ون سی کے تحت صرف موجودہ مدت کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کا بھی حوالہ دیا تھا جو تاحیات نااہلی سے متعلق ہے۔ 

کیا فیصل واوڈا کے فیصلے سے نواز شریف کی نااہلی ختم ہو سکتی ہے؟

اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر آئینی امور کے ماہر جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی نے بتایا کہ ’چونکہ آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت ملنے والی سزا کا تعین ہی نہیں کیا گیا تو یہی تصور کیا گیا کہ نااہلی تاحیات ہی ہو گی۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کے آئین کی شق 62 ون ایف کے مطابق پارلیمنٹ کا رکن بننے کے خواہش مند شخص کے لیے لازم ہے کہ وہ سمجھدار ہو، پارسا ہو، ایماندار ہو اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے خلاف نہ آیا ہو۔ آئین کی یہ شق کسی شخص کے ’صادق اور امین‘ ہونے کے بارے میں ہے۔
جسٹس شائق عثمانی کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصل واوڈا کیس کے فیصلے سے نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم ہو سکتی ہے۔ ’اس مقصد کے لیے نواز شریف کو سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہو کر اپنی غلطی تسلیم کرنا ہو گی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ کا ذکر اپنے گوشواروں میں نہیں کیا جس کے بعد انہیں بھی معافی مل جائے گی۔‘
جسٹس شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ کرتے وقت جو اصول طے کیا تھا وہ ختم ہو گیا ہے اور اب پانچ سالہ نااہلی کا تعین ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق اس فیصلے کا فائدہ تاحیات نااہل ہونے والے جہانگیر ترین کو بھی ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر مستقبل میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی  آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل ہوتے ہیں تو انہیں بھی اس کا فائدہ ہوگا۔‘
جسٹس شائق عثمانی کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے میں اسلام کے ’تصوّر توبہ‘ سے رہنمائی لی گئی ہے کہ توبہ کرنے اور گناہ کا اعتراف کرنے سے معافی مل سکتی ہے۔

جسٹس شائق عثمانی نے کہا کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ کرتے وقت جو اصول طے کیا گیا تھا وہ ختم ہو گیا (فوٹو: اے ایف پی) 

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان سمجھتے ہیں کہ فیصل واوڈا کیس میں پانچ سال کی نااہلی کے فیصلے سے ’یقیناً نواز شریف اور جہانگیر ترین کو ریلیف مل سکتا ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سابق وزیراعظم عدالت میں اس فیصلے کی نظیر لے جا کر اپنی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست دے سکتے ہیں۔ اس فیصلے سے عدالت نے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین پانچ سال کر دیا ہے۔‘
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ آرٹیکل 63 ون سی کے تحت نااہلی اور  آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی دونوں میں کیا اب مدت پانچ سال ہی ہو گی تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وہ ’سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ پڑھ کر ہی‘ رائے دے سکتے ہیں۔
جمعے کو سماعت وقت عدالت نے فیصل واوڈا کی نااہلی ختم کرنے کا فیصلہ ان کی جانب سے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے مشروط کر دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوہری شہریت چھوڑنے سے متعلق درخواست دیے جانے پر استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ’غلطی تسلیم کرتے ہیں تو پانچ سال کے لیے نااہل ہوں گے، نہیں کرتے تو 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی پر کیس سنیں گے۔ اقرار کرتے ہیں تو ممکن ہے 63 ون سی میں رکھیں، انکار کرتے ہیں تو کیس دوسری طرف جا سکتا ہے۔‘

شیئر: