Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی قیدی 40 سال بعد اسرائیلی جیل سے رہا

کریم یونس کو روایتی فلسطینی سکارف پہنا کر ان کا استقبال کیا گیا۔ فوٹو عرب نیوز
اسرائیل کی جیل میں طویل عرصے سے قید کاٹنے والے فلسطینی قیدیوں میں سے ایک کو 40 سال کی سزا مکمل کرنے کے بعد جمعرات کو رہا کر دیا گیا۔
عرب نیوز کے مطابق 60 سالہ فلسطینی کریم یونس کو 1983 میں اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں میں اسرائیلی فوجی ابراہم برومبرگ کو اغوا اور قتل کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
اسرائیل کی دائیں بازو کی نئی حکومت کے ارکان نے کریم یونس کی شہریت ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اسرائیلی جیلوں میں قیدفلسطینی قیدیوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق یہ سزا کسی بھی فلسطینی کی مسلسل طویل ترین سزا ہے۔
سزا کے بعد اپنے آبائی علاقے اسرائیلی عرب گاؤں عارہ کونیس پہنچنے پر کریم یونس کا ہیرو کے طور پر استقبال کیا گیا ہے۔
روایتی فلسطینی سکارف پہنا کر ان کا استقبال خاندان کے افراد، دوستوں اور حامیوں نے خوشی کے نعرے لگاتے ہوئے کیا اور انہیں کندھوں پر اٹھا کر سڑکوں پر جلوس نکالا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا ہے کہ ’یہ 40 سال مختلف کہانیوں اور دیگر قیدیوں کی داستانوں سے بھرے ہوئے ہیں اوران میں سے  ہر کہانی ایک قوم کی کہانی ہے۔‘

اسرائیل شہریوں کے خلاف تشدد کے مرتکب افراد کو دہشت گرد سمجھتا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

رہائی پانے والے شخص نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’فلسطین کے لیے قربانیاں دینے والوں میں سے ایک ہونے پر مجھے بہت فخر ہے اور ہم فلسطین کاز کی خاطر مزید قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘
عرب افراد اسرائیل کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں اور زیادہ تر ایسے فلسطینیوں کی اولاد ہیں جو 1948 کی جنگ آزادی کے بعد نئی قائم ہونے والی ریاست میں رہائش پذیر ہیں۔
واضح رہے کہ فلسطینی باشندے1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں ریاست کے قیام کی جدوجہد میں اسرائیل کے ہاتھوں جیلوں میں بند بھائیوں کو ہیرو مانتے ہیں، جبکہ اسرائیل اپنے شہریوں کے خلاف تشدد کے مرتکب افراد کو دہشت گرد سمجھتا ہے۔
اس موقع پر اسرائیلی وزیر داخلہ آریہ دیری نے کریم یونس سے اسرائیلی شہریت چھین لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

کریم یونس نے کہا کہ ہم فلسطین  کاز کی خاطر مزید قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

وزیر داخلہ نے اسرائیل کے اٹارنی جنرل کو ایک خط میں لکھا ہے کہ ان کی شہریت منسوخ کرنے سے یہ اہم پیغام جائے گا کہ ’ہم ایسے شخص کے خلاف ہیں جو دہشت گرد کارروائیوں کے ارتکاب کی علامت بنا ہے۔‘
فلسطینی تشدد میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کے کچھ رشتہ داروں نے بھی وزیر داخلہ کی جانب سے اس قسم کے اقدامات کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی شہریوں کا کہنا ہے کہ ہماری شہریت ایک اعزاز ہے اور کوئی اسرائیلی شہری ایک ہاتھ سے اسرائیلی شناختی کارڈ پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے کسی فوجی کو قتل نہیں کر سکتا اور یہ نہیں ہو سکتا کہ قاتل جیل سے رہا ہو جائے اور ہماری قوم کے کسی فرد کی طرح گھوم پھرے۔

شیئر: