Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیپال میں طیارے کے حادثے کی وجہ کیا بنی؟

تباہ ہونے والے جہاز کے ملبے سے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
نیپال میں یتی ایئرلائن کی فلائٹ نمبر 691 کو پیش آئے حادثے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
اتوار کو اس حادثے میں مسافر طیارے میں سوار 72 میں سے 68 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر لی گئی تھی۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پائلٹس کہتے ہیں کہ نیپال میں جہاز اڑانا بہت مشکل کام ہے تاہم جس وقت کھٹمنڈو سے سیاحتی مقام پوکھارا جانے والے اے ٹی آر 72 کو حادثہ پیش آیا موسم صاف تھا۔
حادثے کے وقت ہوا کی رفتار بھی مناسب تھی اور درجہ حرارت بھی غیرمعمولی نہیں تھا۔

کیا طیارہ فضا میں رُک گیا؟

زمین پر گرنے سے قبل طیارے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ یہ ویڈیو سمارٹ فون سے کسی شہری نے اپنے گھر سے بنائی تھی۔
جہاز نئے کھولے گئے پوکھارا ایئرپورٹ کے رن وے لگ بھگ ڈیڑھ کلومیٹر پہلے گرا تھا۔
ماہر پائلٹ اور انڈیا کے سیفٹی میٹرز فاؤنڈیشن کے بانی امیت سنگھ کہتے ہیں کہ گرنے سے قبل طیارے کی نوک بلند تھی اور پھر اچانک اُس کا بائیں پَر جھکا اور جہاز زمین پر آ گرا۔
امیت سنگھ کے مطابق ویڈیو میں نظر آںے والی صورتحال سے بظاہر لگتا ہے کہ طیارہ فضا میں ہی دوران پرواز رُک گیا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں امیت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ طیارے کے رُخ کو دیکھیں تو اس کی نوک اُوپر کی جانب ہے جس کا مطلب ہے کہ رفتار کم ہو رہی ہے۔ جب انجن رُکتے ہیں تو پَر نیچے جاتا ہے کیونکہ بنیادی طور پر جہاز پَروں کے ذریعے ہی اُڑتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’رفتار کم ہونے سے ہوا کے بہاؤ میں کمی آتی ہے اور طیارے کے فضا میں رہنے اور اُڑنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ منہ کے بَل زمین پر آ گرتا ہے۔‘
ایوی ایشن کے ایک اور ماہر پروفیسر رون بارٹش نے سڈنی کے چینل نائن کو بتایا کہ اُن کی رائے میں طیارہ فضا میں ہی رُک گیا تھا۔ ’ایسا لگتا ہے کہ ممکنہ طور پر طیارے کی رفتار کم تھی اور پائلٹ سمجھے کہ وہ مناسب رفتار سے اُڑ رہے ہیں۔‘

طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی میتیں لواحقین کے حوالے کی جا رہی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

پروفیسر رون بارٹش کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں طیارہ ’ایروڈائنامک سٹال‘ کا شکار ہوا اور اس کے بعد حادثہ پیش آیا۔ ’ممکنہ طور پر یہ پائلٹ کی غلطی تھی۔‘
یتی ایئرلائنز کے ترجمان پمبا شرپا نے بتایا کہ حادثے کی وجہ کی تحقیق جاری ہے۔

طیارے کے بارے میں سوالات

اے ٹی آر 72 سنہ 1980 کے لگ بھگ ہوا بازی کی صنعت میں متعارف کرائے گئے تھے۔
پروفیسر بارٹش کے مطابق یہ فرانس اور اٹلی کے اشتراک سے بنائے گئے طیارے کئی مہلک فضائی حادثات کی زد میں آئے جن میں سے کچھ وجوہات آئسنگ یا بلندی پر برف بننا ہے، تاہم اِن کا ٹریک ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے۔
تباہ ہونے والے جہاز کے ملبے سے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ حاصل کر لیا گیا اور کاک پٹ وائس ریکارڈر بھی تلاش کر لیا گیا ہے۔ تاہم جب تک اس کا بغور جائزہ نہیں لیا جاتا یہ معلوم ہونا ممکن نہیں کہ دراصل ہوا کیا تھا۔
پروفیسر بارٹش کہتے ہیں کہ ’انسانی وجہ کے عنصر کو تفتیش کاروں کو دیکھنا ہوگا کہ کیا مناسب تربیت کا فقدان تھا یا نہیں۔ کیونکہ عام طور پر فضا میں اُڑتے طیارے اس طرح زمین پر نہیں گرتے خاص طور پر موجودہ دور کے جدید جہاز۔‘
امیت سنگھ کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی تکنیکی خرابی ہوئی ہو اور کسی آلے کی خرابی کی معلومات درست طور پر پائلٹ تک نہ پہنچی ہوں تاہم اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ طیارے کو رُکنے یا سٹال ہونے سے واپس پرواز کی حالت میں لایا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’پائلٹس کی اس حوالے سے مناسب تربیت ہونی چاہیے کہ تکنیکی خرابیوں سے کیسے نمٹا جائے۔‘

شیئر: